• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ذکیہ مشہدی

اسکول میں گرمیوں چھٹیاں ہوتیں تو فرحان اپنے نانا کےگھر گاؤں چلا جاتا تھا۔ اُسے وہاں بہت مزہ آتا تھا۔ بڑا سا کھلا کھلا سرخ ٹائلوں والا گھر تھا۔ جس کے پیچھے کافی وسیع باغ تھا۔ سامنے پھولوں کی کیاریاں تھیں،پھر راجو بھی تھا جو فرحان کو گاؤں بھر میں گھماتا پھرتا۔ کھیت میں گنّے اور چنا مٹر، آگ میں بھنی ہوئی شکرقند، گنے کے رس کو کڑھاؤ میں ابال کر بنتا ہوا گڑ، کئی بار دیکھنے کے بعد بھی یہ ساری چیزیں اسے بہت اچھی لگتی تھیں۔ راجو نانا کے منشی جی کا بیٹا تھا۔ منشی جی گھر اور زمینوں کے کاموں کا انتظام دیکھتے۔ باغ کے اگلے سرے پر نانا نے ان کے لئے دو کمروں کا چھوٹا سا گھر بنوادیا تھا۔ راجو کو نانا اسکول میں پڑھوا رہے تھے۔

اس مرتبہ فرحان نانا کے گھر آیا تو باغ میں گھومتے ہوئے اُس نے آم کے درخت کے تنے میں ایک کوٹر (چھوٹی سی کھوکھلی جگہ) سے طوطا گردن نکال کر جھانک رہا تھا۔ فرحان کو وہ بہت پیارا لگا۔ اُسے دیکھ کر طوطے نے جھٹ سے گردن اندر کر لی۔

’’ گھونسلہ تو پیڑ پر ہونا چاہیے‘‘۔ فرحان نے راجو سےکہا۔

’’ارے شہری بابو، طوطے زیادہ تر کسی کھوکھلی جگہ جیسے پیڑ یا پہاڑی کے کوٹر میں گھونسلا بناتے ہیں۔ اس طوطے کو میں عرصے سے دیکھ رہا ہوں۔ طوطی نے بچے دیے ہیں بلکہ اب تو کچھ بڑے ہوگئے ہوں گے‘‘۔ راجو نے کہا۔

فرحان نے تالی بجاتے ہوئے کہا، ’’میں انہیں دیکھوں گا۔ ‘‘

’’ابھی باہر نہیں آ ئیں گے، کیسے دیکھو گے‘‘۔ راجو نے کہا۔

’’کوٹر زیادہ اونچائی پر نہیں ہے، اس کے پاس موٹی سی شاخ بھی ہے، ہم اس پر چڑھ کر بچے دیکھیں گے‘‘۔

’’بچوں کی ممی ناراض ہوگئی تو تمہیں کاٹ لے گی‘‘۔ راجونے ڈرایا۔

اس وقت تو وہ چلے گئے لیکن فرحان کے دل سے طوطے کے بچے دیکھنے کا شوق نہ گیا۔ تیسرے دن فرحان کو واپس گھر آنا تھا، اس لئے ایک دن وہ دوپہر میں چپکے سے باغ چلا گیا۔ سر اٹھا کر دیکھا طوطی جھانک رہی تھی، پھر وہ اڑ گئی۔ فرحان بہت خوش ہوا۔ اچھا ہے بچے اکیلے مل جائیں گے، ورنہ ان کی ممی کاٹ لیتی۔ 

وہ احتیاط سے پیر جما جما کر درخت پر چڑھا ۔ گھونسلےمیں جھانکا۔ کچھ ہرے ہرے پروں سے ڈھکے ننھے ننھے بچے دکھائی دیئے۔ فرحان کو وہ بہت ہی پیارے لگے۔ اس کا جی چاہا انہیں ہاتھ میں لے کر دیکھے ، تب ہی غصے سے ٹیں ٹیں کرتا طوطا اس کے سر پر منڈلانے لگا۔ فرحان جلدی سے گھبراہٹ میں اترا تو دیکھا طوطا اس کے سر پر اب بھی منڈلا رہا ہے۔ وہ تیزی سے بھاگا، اپنے گھر کے بجائے راجو کے گھر کا رخ کیا۔ وہ گھر پر ہی تھا، اس کی حالت دیکھ کر وہ بہت ہنسا، اسے شرارت سوجھی،’’ تمہیں طوطوں کی ممی نے پہچان لیا ہے، اب وہ تمہارا پیچھا کرے گی‘‘۔

’’فرحان نے ڈر کر کہا اب کیا کریں‘‘۔

’’ایسا کرو تم اپنے کپڑے بدل لو، تب طوطی تمہیں نہیں پہچان سکے گی‘‘۔ راجو نے کہا

’’لاؤ اپنے کپڑے دے دو‘‘۔ فرحان نے کہا۔

’’ میرے پاس صرف تین قمیضیں ہیں۔ ایک امی نے دھو کر ڈالی ہے، ایک میں نے پہنی ہوئی ہے۔ تیسری تمہیں پہنا دی تو ابھی نہا کر کیا پہنو گا۔ ایسا کرو تم ابا جی کی قمیض پہن کر چلے جاؤ۔ جان تو بچے گی۔‘‘ فرحان راضی ہوگیا۔ منشی جی لمبے چوڑے آدمی تھے۔ نوسال کے فرحان ان کی قمیض میں جیسے ڈوب ہی گیا، بالکل پیروں تک آگئی تھی۔ مسخروں جیسے حلیے میں وہ گھر میں داخل ہوا۔ممی سامنے ہی کھڑی تھیں ۔ 

فرحان کو دیکھ کر گھبرا گئیں’’یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے۔ مجبوراً فرحان نے پوری کہانی سنائی، تب ہی نانا بھی آگئے۔ باورچی خانے سے روٹی پکاتی قمرن بوا نے جھانکا اور ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوگئیں۔ اتنے میں راجوبھی آگیا ۔ وہ خوب قہقہے لگا رہا تھا۔ ’’مما، ہم اگلی بار نانا کے یہاں آئیں گے، تب بھی طوطوں کی ممی ہمیں پہچان کر سر پر ٹھونگ لگائے گی؟‘‘ فرحان نے پوچھا۔ سب لوگ ہنس پڑے۔ ’’نہیں تب نہیں پہچانے گی، بھول چکی ہوگی۔‘‘ نانانے کہا۔

’’ممی نہیں پہچانے گی لیکن تب بچے تمہیں پہچان لیں گے۔ تینوں مل کر تمہیں ٹھونگ لگائیں گے‘‘۔ راجو نے ہنستے ہوئے کہا

فرحان روہانسا ہوگیا۔ نانا نے ہنس کر کہا، ’’بے وقوف، راجو تمہیں چھیڑ رہا ہے لیکن بیٹا ! یاد رکھو، پرندوں اور کسی بھی جانور کو پریشان نہیں کرنا چاہیے۔ وہ ہمارے ماحول کا بہت ضروری حصہ ہیں۔