شیخ عبدالحمید عابد
ایک چونٹا بڑا محنتی اور شریف تھا۔ ہر وقت کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتا۔ کبھی اپنے بل کی مرمت کررہا ہے تو کبھی منہ میں اناج کا دانہ اٹھائے چلا آرہا ہے۔ ہرکام بڑی محبت سے کرتا تھا۔ وقت کی بھی بڑی قدرکرتا تھا۔ کسی کام سے گھر باہر نکلتا تو کسی سے بے مقصد بات نہ کرتا وہ جانتا تھا کہ عقل مند زیادہ نہیں بولتے۔
راستے میں اگر کوئی جان پہچان والا چونٹا مل گیا تو دور ہی سے سلام دعا کرلی اور اپنی راہ پکڑی، اس کے ساتھ ساتھ وہ دردمند بھی تھا، اگر راہ میں کوئی مصیبت زدہ مل جاتا تو اپنا کام چھوڑ کر اس کی مدد کرتا تھا۔ اپنے بڑوں کی عزت کرتا اور چھوٹوں سے بھی شفقت سے پیش آتا تھا۔
اس چیونٹے کے بل کے قریب ہی گندے پانی کا ایک جوہڑ تھا۔ شریر اور گندے بچے گھنٹوں اس میلےکچیلے پانی میں نہاتے رہتے تھے، ان بچوں کے علاوہ بہت سی بھینسیں بھی سارا دن پانی میں بیٹھی رہتی تھیں۔ چیونٹا بڑا پریشان رہتا تھا کیوں کہ بھینسیں سارا دن پھرتی رہتی تھیں اُسے خطرہ تھا کہ کہیں وہ یا اس کا کوئی بچہ بھینسوں کے پاؤں تلے نہ کچل جائیں۔ اب وہ زیادہ تر گھر میں ہی رہتا تھا، اگر کبھی کسی ضروری کام سے باہر جاتا بھی تھا تو اپنے بیوی بچوں کو سختی سے کہہ جاتا تھا کہ وہ باہر نہ نکلیں۔
ایک دن چیونٹا بہت تھکا ہوا تھا، اس لیے دوپہر کا کھانا کھا کر کچھ دیر لیٹ گیا۔ بے چارے کوسوئے سوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ اچانک کسی نے اسے جھنجوڑ دیا۔ وہ چونک کر اٹھا تو دیکھا کہ اس کی بیوی چیونٹی کھڑی ہے۔ وہ بہت گھبرائی ہوئی تھیاسنے کہا، آپ مزے سے سو رہے ہیں اور گھر میں پانی بھرا جارہا ہے‘‘۔
’’ہیں کیا کہا،پانی کہاں سے آرہا ہے؟‘‘ چیونٹا بولا۔
’’میں کیا جانوں کہاں سے آرہاہے۔ آپ باہر جاکر دیکھیں اوراس پانی کو کسی طرح بند کروائیں، ورنہ ہمارا محنت سے جمع کیا ہوا غلہ ضائع ہوجائے گا۔ چیونٹی نے کہا۔
چیونٹا فوراََ باہر کی طرف بھاگا۔ باہر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ اس کے بِل کے بالکل قریب جوہڑ میں ایک بھینس بیٹھی بار بار اپنی دم کو پانی مار رہی ہے، جس سے پانی کے چھینٹے اڑ اڑ کر چیونٹے کے بل میں داخل ہورہے ہیں۔ چیونٹے نے یہ منظر دیکھا تو پریشان ہوگیا۔
اس طرح تو ہمارا خوراک کا ذخیرہ خراب ہوجائے گا۔ جاڑوں کے موسم میں بھوکے مرجائیں گے۔ چیونٹے نے یہ سوچا، پھر دوڑ کر بھینس کے قریب ایک پتھر پر چڑھ کر بولا،بی بھینس ! میری ایک بات سنو،‘‘
کیا ہے؟ وہ اکڑکر بولی۔
’’دیکھو بہن! میں ایک غریب اور کمزور ساچیونٹا ہوں۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ تم جانتی ہوہم زیادہ سردی برداشت نہیں کرسکتے، اس لیے مناسب موسموں میں برے وقت کے لیے اپنی خوراک ذخیرہ کرلیتے ہیں‘‘۔
’’تو پھر میں کیا کروں؟ بھینس روکھے پن سے بولی‘‘۔
اچھی بہن ! تم بار بار اپنی دم پانی میں مارہی ہو۔ اس سے میرے گھر میں پانی داخل ہورہاہے اور ہماری خوراک کاذخیرہ تباہ ہورہا ہے۔ خدا کے لیے مجھ پر اور میرے بچوں پر ترس کھاؤ اور اپنی دم پانی پر نہ مارو۔ میں تمام زندگی تمھارا احسان مندرہوں گا۔
وہ بہت بداخلاق بھینس تھی، اس پران باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ بڑے زور سے ڈکرائی اور آنکھیں نکال کر بولی, ’’جاجا حقیرچیونٹے میں اپنی مرضی کی مالک ہوں، جب تک چاہوں دم ہلاتی رہوں تو مجھ پر حکم چلانے والا کون ہوتا ہے؟ دفع ہوجاؤ، ورنہ کچل کررکھ دوں گی‘‘۔
چیونٹے نے یہ سنا تو اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ وہ سمجھ گیا، اس ظالم بھینس سے مزید کچھ کہنا بے کار ہوگا، چنانچہ وہ سرجھکا کرلوٹ آیا۔ گھر میں بہت زیادہ پانی بھر چکا تھا۔ خوراک کا سارا ذخیرہ تباہ ہوچکا تھا اور چیونٹے کے بچے خوف سے چیخیں ماررہے تھے، اس نے بڑی مشکل سے انھیں پانی سے نکالا اور باہر لے آیا، پھر ایک حسرت بھری نظر اپنے گھر پر ڈالی اور کسی انجانی منزل کی طرف چل دیا، اب اس کے پاس نہ کھانے کو خوراک تھی اور نہ سرچھپانے کا ٹھکانا۔ وہ سخت پریشان تھا کہ کیا کرے کیا نہ کرے۔
چلتے چلتے وہ ایک ٹیلے کے پیچھے جانکلا۔ اس جگہ چیونٹے کے بہت سے دوست رہتے تھے، انھیں جب سارا حال معلوم ہوا تو سب نے چیونٹے سے کہا،پیارے بھائی! آپ ہمارے محسن ہیں۔ آپ نے ہر برے وقت پر ہماری مدد کی ہے۔ اب قدرت نے ہمیں موقع دیا ہے کہ ہم ان احسانوں کا بدلہ اتار سکیں۔
یہ کہہ کر بہت سے چیونٹے مل کر ایک مکان کی تعمیر میں لگ گئے۔ وہی کام جو چیونٹاا کیلا کئی دنوں میں مکمل کرتا، اب گھنٹے بھر میں ہوگیا تھا۔ ان سب نے چیونٹے کے لیے بڑاسا مکان بنادیا۔ مکان کے بعد غذا کامسئلہ حل کرنے کے لیے سب چیونٹے اپنے اپنے گھر سے تھوڑا تھوڑا اناج لے آئے وہ غلے کا ایک بڑا ڈھیربن گیا۔ اس طرح چیونٹے کے پاس اب ایک آرام دہ گھر اور ڈھیر ساغلہ تھا۔ اس نے سب کا شکریہ ادا کیا۔ دیکھا بچوں وہ نیکیاں جو وہ دوسروں کے ساتھ کیا کرتا تھا وہی اُس کے برے وقت میں کام آئیں۔