• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ نے دیکھا ہوگا کہ دو مختلف علاقوں میں ایک ہی طرز اور معیار کی تعمیر شدہ رہائشی یا کسی بھی طرح کی ریئل اسٹیٹ کی قیمتوں میں فرق ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ جن دو رہائشی ریئل اسٹیٹ کا تقابلی جائزہ کررہے ہیں، ان کے درمیان واضح اور بنیادی فرق ان کے قرب و جوار میں دستیاب تعلیمی، صحت، سیر و تفریح اور دیگر انفرا اسٹرکچر کی موجودگی کا ہوتا ہے۔

جس علاقہ میں متذکرہ بالا سہولیات زیادہ اور بہتر ہوتی ہیں، وہاں ریئل اسٹیٹ کی قدر و قیمت بھی اس مناسبت سے بڑھ جاتی ہے۔ یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ کئی لوگ خریدی جانے والی ریئل اسٹیٹ کے معیار پر بھی صرف اس وجہ سے سمجھوتہ کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں کہ وہاں قرب و جوار میں دیگر سہولتوں کا معیار اور دستیابی بہتر ہوتی ہے۔ ماہرین بھی یہی مشورہ دیتے ہیں کہ رہائشی ریئل اسٹیٹ خریدنے سے پہلے اس علاقہ کے قرب و جوار میں بنیادی سہولتوں کی دستیابی کو ضرور مدِنظر رکھا جانا چاہیے۔

یہ تو بات ہوگئی رہائشی ریئل اسٹیٹ کے قرب و جوار اور اس کے باہر سہولیات کی دستیابی کی۔ لیکن اگر بات کریں کہ لوگ کس طرح کی ریئل اسٹیٹ خریدنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسمارٹ اپارٹمنٹس یا بہ الفاظ دیگر بلند و بالا عمارتوں میں لگژری اور اعلیٰ معیار کی سہولیات سے مزین تعمیراتی منصوبے اکثر خریداروں کے پسندیدہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے دیکھا ہے کہ حالیہ برسوں میں کثیرالمنزلہ اور پرتعیش رہائشی منصوبوں کی تعمیر میں زبردست اضافہ دیکھا گیا ہے۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دنیا بھر میں شہرکاری میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہورہا ہے۔ شہرکاری کے معاشی فوائد بھی ہیں۔ اس سے کاروباری سرگرمیوں کو فروغ ملتا ہے اور جب شہروں میں آبادی بڑھتی ہے تو ان میں رہائشی یونٹس پر مشتمل منصوبوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔

آبادی میں تیزی سے ہونے والا اضافہ دنیا بھر کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے اور اس کے باعث جہاں بنیادی انسانی ضروریات کے وسائل میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے، وہیں شہروں میں توسیع کی وجہ سے لوگوں کے رہنے کے لیے رہائشی یونٹس کی کمی کا مسئلہ بھی سر اٹھا رہا ہے۔ 

شہروں میں بڑھتی آبادی کو رہائش کی سہولیا ت فراہم کرنے کا ایک مؤثر طریقہ کثیرالمنزلہ عمارتوں کی تعمیر ہے، اور ہم نے دیکھا ہے کہ گزشتہ چند سال کے دوران گھروں کے حجم میں کمی اور سمارٹ اپارٹمنٹس کی تعمیر کے رجحان میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ چھوٹے گھروں یا سمارٹ اپارٹمنٹس کے رجحان میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ دنیا بھر میں مہنگائی اور آبادی میں غیر یقینی حد تک اضافہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کئی ممالک میں کرہ ارض پر رہنے کے لیے جگہ کی دستیابی میں خطرناک حد تک کمی واقع ہو رہی ہے۔

اندازہ ہے کہ دنیا بھر میں نئی تعمیرات کے باعث روزانہ ایک فٹ بال گراؤنڈ کے مساوی زمین اس کی نذر ہورہی ہے۔ دنیا میں گزشتہ کچھ برسوں کے دوران اسمارٹ اپارٹمنٹس کی تعمیر کے رجحان میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس اضافے کی ایک وجہ زمین کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتیں ہیں، جب کہ شہروں کے اندر زمین کی دستیابی بھی سکڑ رہی ہے۔ اسمارٹ اپارٹمنٹس کے بڑھتے رجحان کی وجوہات زیادہ تر معاشی ہوتی ہیں۔ 

اندازہ ہے کہ امریکا میں ایک عمومی گھر کی اوسط قیمت پانچ لاکھ ڈالر جبکہ کئی ریاستوں میں ساڑھے سات لاکھ ڈالر تک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مختلف ریاستوں میں کئی لوگوں کے لیے گھر خریدنا قوتِ خرید سے باہر ہوجاتا ہے۔ اسمارٹ اپارٹمنٹس اس مسئلے کا حل فراہم کرتے ہیں۔ مغرب کی طرح پاکستان میں بھی اسمارٹ اپارٹمنٹس کا رحجان تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔

پاکستان میں رہائشی سہولیات کی دستیابی کے حوالے سے مرتب کردہ ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں عوام کی دیہی علاقوں سے شہروں کی جانب منتقلی میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے رہائشی مسائل بڑھ رہے ہیں۔ 

رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ گزشتہ مردم شماری کے مطابق ملکی آبادی سالانہ 2.9فیصد کی شرح سے بڑھ کر 22 کروڑ 77 لاکھ ہوچکی ہے جبکہ شہری آبادی میں 2.7فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا جو تقریباً 9 کروڑ 67 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور شہروں کے سکڑنے کی وجہ سے اسمارٹ اپارٹمنٹس کی تعمیر ناگزیر ہو چکی ہے، جو بلاشبہ رہائشی مسائل پر قابو پانے کے لیے ایک بہترین حکمت عملی ثابت ہو سکتی ہے۔

اسمارٹ اپارٹمنٹس ایک طرف جہاں بہترین سہولیات کے ساتھ ساتھ زمین کی کمی اور بڑھتی قیمتوں کے خلاف ایک ٹھوس حل فراہم کرتے ہیں، وہاں کثیرالمنزلہ عمارتوں کی تعمیر کئی چیلنجز بھی پیش کرتی ہے۔

ایسی عمارتیں شہری وسائل پر اضافی بوجھ ڈالتی ہیں، چاہے وہ ٹریفک اور گاڑیوں میں اضافہ کی صورت میں ہو یا پھر پانی کے صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کی سہولیات پر دباؤ کی صورت میں، کیوں کہ ایک پلاٹ جہاں ماضی میں ایک گھر یا تین، چار منزلہ عمارت بنی ہوئی تھی، وہاں اب کثیرالمنزلہ عمارتیں تعمیر ہورہی ہیں۔ 

اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب وہاں ایک، دو یا تین خاندانوں کے بجائے درجنوں خاندانوں کو صاف پانی کی ضرورت ہوگی اور اسی طرح نکاسی آب کے انفرااسٹرکچر پر بھی پہلے کے مقابلے میں کافی زیادہ دباؤ آئے گا، جس کے لیے متعلقہ حکومتوں کو مؤثر منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔