• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر محمد یونس دانش

قطبِ وقت ،حضرت شاہ مفتی محمد محمود الوری رحمۃ اللہ علیہ کاشمار پاک وہند کے مقتدر علماء اور عظیم روحانی بزرگوں میں ہوتا ہے۔ آپ کی ولادت جمعہ کی شب ۱۳۲۲ھ مطابق1904ء کو ہندوستان کی ریاست الور میں ہوئی۔ آپ کے والد گرامی حضرت خواجہ شاہ رکن الدین الوریؒ اپنے وقت کے ولی کامل تھے۔ آپ کے متعلق مشہور تھا کہ آپ کی نظر جس غیر مسلم پر پڑھ جاتی، وہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوجاتا۔ اردو زبان میں فقہ کی کتاب ’’رکن دین‘‘ کو اللہ تعالیٰ نے جو مقبولیت عطا فرمائی۔ وہ آپ کی علمیت، اخلاص اور بارگاہِ خداوندی میں مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

آپ نے اجمیر شریف ،دہلی،اور بھوپال کی علمی درس گاہوں میں وقت کے کامل اساتذہ سے علوم دینیہ اور طب و حکمت کی تعلیم حاصل کی اور اپنے والد گرامی سے بیعت ہو کر روحانی اور باطنی علوم کی تکمیل کی اور انہی سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ ،قادریہ، چشتیہ میں اجازت و خلافت حاصل کی۔ آپ اعلیٰ اخلاق کا مکمل نمونہ تھے، متانت، سادگی ،قناعت پسندی ،امانت داری، تقویٰ و پرہیزگاری، تواضع و انکساری ،مہمان نوازی ،نفاست پسندی ،غرباء پروری، شگفتہ مزاجی، راست گفتاری آپ کی امتیازی خصوصیات تھیں۔ استغناء وبے نیازی آپ کا طرۂ امتیاز تھی۔

پاکستان کی عدالت عالیہ کے جج جسٹس خمیسانی جو آپ سے بہت عقیدت اور محبت رکھتے تھے ،انہوں نے ایک دن آپ سے گزارش کی کہ آپ اجازت دیں کہ آپ کے کمرے کی پیمائش کر کے اس کے ناپ کا ایک قالین بنوا کر آپ کی خدمت میں پیش کروں ،لیکن آپ نے فرمایا کہ ہم تو اسی بوریہ میں خوش ہیں، یہ دنیاوی زیب و زینت اللہ آپ کو مبارک کرے۔ کئی حضرات نے کئی بار عرض کیا کہ فریج ائیر کنڈیشنر آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں ،لیکن آپ نے ہر بارمنع فرمادیا۔ 

آپ کے ایک اور مرید نے آپ کے دست مبارک سے راجپوتانہ ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھوایا اور آپ کی دعاؤں سے الحمدللہ ،وہ ایسا کامیاب ہسپتال بنا کہ جب اس کے افتتاح کےلیے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو آئے تووہ بھی اس کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے۔ آپ کے اس مرید کا آپ کے بارے میں یہ کہنا تھا کہ میرا مرشد ایسا بے نیاز ہے کہ اس نے آج تک کبھی میرے گھر کا رخ نہیں کیا۔

آپ ہندوستان سے ہجرت فرما کر 1947ء میں جب حیدرآباد تشریف لائے تو آپ نے یہاں آزاد میدان کے نام سے ایک وسیع وعریض میدان میں نماز باجماعت اور تعمیر مسجد کا آغاز فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے مرید خاص حاجی محبوب الہٰی مرحوم کو یہ توفیق عطا فرمائی کہ انہوں نے اپنی جیب خاص سے حیدرآباد کی سب سے بڑی مسجد اور اس کے تینوں اطراف رکن الاسلام جامعہ مجددیہ کے نام سے ایک عظیم الشان دینی درس گاہ تعمیر کی، جہاں حضرت شاہ مفتی محمد محمود الوری رحمۃ اللہ علیہ خود تفسیر و حدیث کا درس دیا کرتے تھے اور ساتھ ساتھ طلباء کی روحانی اور اخلاقی تربیت بھی فرمایا کرتے ۔ 

آپ کی اس علمی یادگار سے ہزارہاطلباء فیض پا کرپاکستان کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک میں دین کی خدمت انجام دے رہے ہیں، یہ آپ ہی کا فیض ہے کہ اس جامعہ میں دینی دنیوی ،اسلامی و عصری تعلیم دی جارہی ہے، جسے دیکھتے ہوئے دنیائے اسلام کی قدیم اور عظیم اسلامی یونیورسٹی جامعہ ازہر(مصر) نے یہاں پڑھنے والے طلباء کو خصوصی مراعات دی ہیں اور جامعہ ازہر کی سند حاصل کرنے کےلیے خصوصی سہولتیں فراہم کی ہیں۔

آپ نے جہاں اس دارالعلوم کے ذریعے علمی فیض عام کیا ،وہاں تبلیغی دورے فرما کر ہزارہا بندگان خدا کو راہِ ہدایت پر گامزن کیا۔ آج اندرون ملک اور بیرون ملک آپ کے ہزاروں شاگرد اور مریدین اپنے دلوں کو عشق مصطفیٰ ﷺاور اپنی زندگیوں کو اتباع مصطفیٰ ﷺکی تابانیوں سے روشن کر کے بندگان خدا کو بھی اس نور سے منور کررہے ہیں۔

آپ نے حیدرآباد کے علاوہ پنجاب میں بھی دینی درس گاہیں قائم فرمائیں، جہاں قرآن پاک ،حفظ و ناظرہ اور تجوید کے علاوہ تفسیر وحدیث فقہ ،علوم عصریہ کے ساتھ ساتھ مکمل تعلیم دی جارہی ہے، انہی مدارس کی نگرانی اور پنجاب کے مریدین کی اصلاح کےلیے اپنے تبلیغی پروگراموں کے سلسلے میں آپ پنجاب تشریف لے گئے اور وہیں۱۲شعبان المعظم۱۳۷۱ھ مطابق ۱۲ اپریل ۱۹۸۷ء محمودآباد (گھنیاکے) ضلع قصور میں آپ نے رحلت فرمائی۔ آپ کے جسد مبارک کو حیدرآباد لا یا گیا، یہیں آپ کی نماز جنازہ ہوئی، راجپوتانہ ہسپتال کے قریب آپ کا مزار مبارک مرجع خلائق ہے، جہاں صبح و شام اللہ کی رحمتیں برستی ہیں۔

اقراء سے مزید