• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرشد آج کل وجد کی کیفیت میں ہیں۔ کبھی اُ ن پر جلال طاری ہو جاتا ہے تو کبھی ملال کی کیفیت سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ کبھی دما دم مست قلندر پر دھمال ڈالتے ہیں تو اگلے ہی لمحے

سانوں نہر والے پل تے بلا کے

تے خورے ماہی کتھے رہ گیا

ساڈی اکھاں وچوں نیندراں اُڈا کے

تے خورے ماہی کتھے رہ گیا

گنگناتے ہیں۔ مرشد جب جلال میں آتے ہیں تو اللہ رسول کے واسطے دے کر روٹھے ہوؤں کو منانے کے لیے ترلے منتیں بھی کر لیتے ہیں۔ جب بات ہاتھ سے نکل جائے تو دھمکیاں اور بددعائیں دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ مرشد نے آج کل اپنا دل بہت بڑا کر لیا ہے جو ان سے ناراض ہو جاتے ہیں وہ انہیں معاف بھی کر دیتے ہیں اور ساتھ یہ گارنٹی بھی دیتے ہیں کہ جو سندھ ہاؤس جا بیٹھے ہیں وہ واپس آجائیں تو ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ مرشد اللہ رسول کے واسطے دے رہے ہیں کہ ناراض اراکین اپنے بچوں کی خاطر انہیں چھوڑ کر جانے کی غلطی نہ کریں ورنہ ان کے بچوں کا مستقبل تباہ و برباد ہو جائے گا۔ جب انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا تو نیوٹرل کو پکارتے ہیں کہ آپ کو نیکی کے ساتھ کھڑا ہونے کا حکم ہے، نیوٹرل رہنے کا نہیں۔ مرشد پر جب الہامی کیفیت آتی ہے تو دوست کو دشمن اور دشمن کو دوست کہنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔ مرشد جی فرماتے ہیں کہ بھارت کو داد دیتا ہوں کہ اس نے ہمیشہ سے آزاد خارجہ پالیسی اپنا رکھی ہے اور عوام کا مفاد مقدم جانا لیکن مرشد یہ بھول جاتے ہیں کہ بھارت میں مودی ہٹلر کی سرکار ہے جو ہندو توا کی پرچارک آرایس ایس کا پجاری ہے۔ یہ سبق آپ نے نئے پاکستان کی بنیادیں اٹھاتے ہوئے پوری قوم کو ازبر کرایا اور ساتھ ہی مسئلہ کشمیر اپنے ہاتھوں سے بگاڑا تھا۔ مرشد بالکل ٹھیک فرماتے ہیں کہ جمہوریت کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔ بہتر یہی ہے کہ اس مردے کی تدفین اور نماز جنازہ کی امامت خود ہی کریں۔ اس کالم کی اشاعت تک اقتدار کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اس بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا تو ممکن نہیں لیکن آج کی تاریخ تک تو صاف نظر آرہا ہے کہ مرشد خطرناک ہو چکے ہیں اور گھبرا بھی رہے ہیں۔ حالات تو یہی ظاہر کررہے ہیں کہ مرشد سرکار آخری ہچکیاں لے رہی ہے اور لایعنی شعلہ بیانی بجھتے چراغ کی وہ پھڑپھڑاہٹ ہے جو کسی بھی وقت گل ہو جائے گا۔ صرف انتظار او آئی سی کانفرنس کے پُرامن اور خوش گوار ماحول میں انعقاد کا ہے۔ کہا تو یہی جارہا ہے کہ او آئی سی کانفرنس مرشد کی الوداعی تقریب ثابت ہوگی۔ ایک طرف مرشد کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش ہو چکی ہے تو دوسری طرف مرشد نے 27مارچ کو ڈی چوک میں دس لاکھ کا مجمع لگانے کا اعلان کررکھا ہے۔ متحدہ اپوزیشن نے بھی پورے پاکستان سے اپنے قافلوں کو 24مارچ تک اسلام آباد کے باہر اکٹھا ہونے کی کال دے رکھی ہے اور 25مارچ کو شاہراہ دستور پرجوابی میدان لگانے کا عندیہ دیا ہے۔ کیا منظر ہوگا جب پورے پاکستان سے متحدہ اپوزیشن جماعتوں کے ہزاروں کارکنوں پر مشتمل قافلے ”جاوے ای جاوے“ کے نعرے لگاتے اسلام آباد کی طرف چڑھائی کررہے ہوں گے۔ ایسے میں اگر مرشد نے موقع غنیمت جانتے ہوئے او آئی سی کانفرنس میں کوئی نیا سیاسی نعرہ لگا کر سیاسی بازی پلٹنے کی کوشش کی جسے حکومتی ترجمان ترپ کا پتہ کہتے ہیں تو اس کے قومی سلامتی اور اسلامی دنیا سے تعلقات پر کیا منفی اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں اور طاقت ور حلقوں کی جانب سے ایسے کسی بھی متنازعہ خطاب پر کیا رد عمل آئے گا۔ انتہائی تشویش ناک صورت حال ہے اگر اپوزیشن او آئی سی اجلاس کے پُرامن ماحول میں انعقاد کی خواہش مند ہے تو پھر مرشد سرکار کو بھی ایسے نازک مرحلے پر کوئی ایسا پیغام نہیں دینا چاہیے کہ جس سے ہمارے اسلامی ممالک سے تعلقات کا بھرم کھل جائے۔ اب یہ مرشد پر منحصر ہے کہ اس بھڑکتی ہوئی آگ پر مزید تیل چھڑک کر اسے آتش فشاں بنا دیتے ہیں یا پھر جمہوری انداز میں تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرکے اپوزیشن، تحریک انصاف کے منحرفین اور اتحادیوں کو آزادانہ طور پر ووٹ ڈالنے کا جمہوری حق دے کر جمہوریت کا منہ کالا ہونے سے بچا لیتے ہیں۔ بلاول بھٹو کی او آئی سی اجلاس بارے دھمکی یقیناً ایک سیاسی پیغام تھا اور اسپیکر قومی اسمبلی کو یہ پیغام دینا ضروری تھا کہ وہ آئین کے تحت تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے ٹھیک 14دن کے اندر اندر اجلاس بلانے کے پابند ہیں اور یہ ڈیڈ لائن 21مارچ تک تھی لیکن اسپیکر اسد قیصر نے اس پیغام کی کوئی پروا کیے بغیر اتوار کی چھٹی کے روز اجلاس منعقد کرکے قومی اسمبلی کا اجلاس مقررہ آئینی مدت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے 25مارچ کو طلب کرکے اپنی جانب داری ثابت کرکے اپوزیشن کو مزید بھڑکانے کی ایک ایسی کوشش کی ہے جس سے گڑ بڑ بننے کا امکان ہے۔ اللہ خیر کرے، اس سے پہلے کہ اس فیصلے سے تصادم کی صورتحال پیدا ہو اور کوئی تیسری قوت اس سے فائدہ اٹھائے مرشد کے بہی خواہوں کی رائے یہ ہے کہ اُس سے پہلے ہی گھر چلے جائیں۔

تازہ ترین