کیا کوئی ادارہ ، یعنی کسی بھی نوعیت کا کاروبار کرنے والا ادارہ ، خاندان بن سکتا ہے؟
سوال شاید آپ کو عجیب سا لگے ۔ یا شاید مضحکہ خیز لگے ۔ شاید آپ کہیں کہ بھائی ، کاروباری ادارہ تو کاروبار کرتا ہے ، اس کا کام خاندان بننا نہیں ہوتا ۔ خاندان تو رشتوں کی ڈور سے بندھے بہت سے لوگوں کے اجتماع کا نام ہوتا ہے جو دکھ اور تکلیف میں ، خوشیوں اور کامیابیوں میں ، زندگی کی کشا کش میں ، بہ ہر صورت ایک دوسرے کے ساتھ رہتا ہے ، جڑا رہتا ہے ، یک جا رہتا ہے ۔
اس کے برعکس کاروبار کیا ہوتا ہے؟ منافع کی امید پر بچھائی جانے والی تجارتی بساط ۔ پیسے کمانے کا کام ۔ مالکان اور ملازمین ۔ مالی کامیابی کی صورت میں انعام و اکرام ، ناکامی کی صورت میں برطرفی ، دکھ سکھ کے معاملات میں شراکت کے فارمولے کے بجائے دو اور دو چار کا فارمولا ، مالکان کی جانب سے روایتی کارپوریٹ سفاکی ، ملازمین کی جانب سے کسی نئے ادارے میں جاتے ہی پرانے ادارے سے یکسر لاتعلقی ، مشکل وقت میں ساتھ دینے سے گریز ، باہم دوستیوں کے بجائے محض وقتی شناسائیاں ۔ بھلا ایسے ماحول میں خاندان کا تصور کہاں پنپ سکتا ہے؟
ایسے میں اگر میں یہ کہوں کہ "جنگ" ایسا ہی ادارہ ہے جس کو چلانے والے اور کام کرنے والے اتنا بہت سا وقت گزرنے کے باوجود ، حتی کہ علیٰحدہ ہو جانے اور نئے سفر شروع کر دینے کے باوجود ، ایک خاندان کی طرح کسی ان دیکھی ڈور میں بندھے رہتے ہیں ، تو شاید آپ کو یہ کوئی مبالغہ آمیز بات لگے ۔ لگنی بھی چاہئے ۔ کیونکہ ابتدا میں خود میں بھی ایسی کسی تھیوری پر یقین نہیں رکھتا تھا ۔ لیکن آج ، جنگ کی پاکستان میں اشاعت کے پچھتر برس مکمل ہونے کے بعد ، جنگ سے میری اپنی وابستگی ختم ہونے کے کئی برس بعد، میں پلٹ کر دیکھتا ہوں تو خود مجھے بھی حیرت ہوتی ہے کہ یہ خاندان کا معاملہ کہاں سے اور کیسے شروع ہو گیا ۔
ایک بہت پرانا منظر یاد آتا ہے!
جنرل ضیاء الحق والے مارشل لاء زمانہ کا ذکر ہے ۔ 1977 کی بات ہے ۔ میں کراچی یونیورسٹی میں صحافت کا طالب علم تھا اور مجھے اپنے کلاس فیلو عبد السلام سلامی کے ساتھ اتفاقا" روزنامہ جنگ کراچی میں نائٹ ڈیسک پر کسی عارضی اسامی پر کام کرنے کا موقع مل گیا تھا ۔ اس دور کا ذکر میں پہلے بھی کر چکا ہوں ۔
نوعمری کے اس زمانے میں ملازمت کے بارے میں ہمارے خوف کے اور خوشیوں کے پیمانے مختلف تھے ۔ یعنی ایک تو دل میں یہ خیال تھا کہ عارضی اسامی ہے ، پکی نوکری تھوڑی ہے ۔ ناکام ہوئے تو کون سی قیامت آ جائے گی ۔ ساتھ ہی اس خیال سے خوشی ہوتی تھی کہ برنس روڈ جیسا کھانے پینے کا مرکز بہت قریب ہے ۔ مزے اڑائیں گے ۔ ڈیوٹی کے اوقات شام چھ ساڑھے بجے سے شروع ہوتے تھے اور بتایا گیا تھا کہ ہم نوآموزوں کا کام رات بارہ یا ساڑھے بارہ بجے تک ختم ہو جائے گا ۔
جنگ کراچی کا بارونق نیوز روم ایسا تھا کہ وہاں ہر جانب دوستانہ بے تکلفی بکھری نظر آتی تھی ۔ لمحے بھر کو بھی اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا تھا ۔ ہم صبح یونیورسٹی جاتے تھے ، دوپہر کو وہاں سے فارغ ہوتے تھے ، اور شام کو ڈیوٹی کے لئے جنگ بلڈنگ کا رخ کرتے تھے ۔
پہلے ہی دن ہمایوں عزیز صاحب نے پیشکش کی کہ رات نو ساڑھے نو بجے نائٹ ڈیسک کے لوگ مل کر کھانا کھاتے ہیں ، بیشتر لوگ گھر سے کھانا لے کر آتے ہیں، اور یہ کہ ہم لوگ بھی سب کے ساتھ ہی کھانا کھائیں ۔ میں نے اور سلامی نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ہم باہر جا کر کھانا کھائیں گے ۔
پہلے دن برادر سلامی کی موٹر سائیکل پر ہم دونوں نے صابر کی نہاری کھانے کے لئے برنس روڈ کا رخ کیا ۔ دوسرے روز وحید کے جادوئی کباب ۔ تیسرے دن کیفے اتحاد پر (جو بہت جلد بند ہو گیا تھا) مٹن پائے ۔ چوتھے دن آرام باغ پر دہلی مسلم کالی ہوٹل کا خوشبودار بیف قورمہ ۔ پھر انڈے والے بند کباب ۔ پھر بند کباب والی گلی میں ہی کھلنے والے ایک نئے ہوٹل میں چکن کڑاہی ۔ اس کے بعد پھر اسی ترتیب سے یہی کھانے ۔ زندگی اچانک حسین اور ذائقے دار ہو گئی تھی ۔
ڈھائی تین ہفتے بعد ہم پر یہ اندوہ ناک انکشاف ہوا کہ ہوٹلوں کے کھانے ، خواہ وہ کتنے ہی ذائقے دار کیوں نہ ہوں ، مستقل نہیں کھائے جا سکتے ۔
اس صدمے سے گزرنے کے بعد ہم سر جھکا کر نائٹ ڈیسک کے اجتماعی کھانے میں شریک ہونے لگے ۔ لوہے کی دو لمبی میزیں جوڑ کر ان پر پرانے اخبار بچھائے جاتے تھے ۔ گھروں سے آنے والے ٹفن کیرئیر اور ڈبے کھل جاتے تھے ۔ طرح طرح کے سالن اور دالیں اور بھجیائیں ، گھر کی بنی روٹیوں کے ساتھ کچھ تندوری نان ، کسی نہ کسی گھر سے آنے والا اچار اور پیاز ٹماٹر کا کچومر ، مختلف ذائقوں کے رائتے ، چٹنیاں ۔ اور کھانوں سے سجے اس پورے دسترخوان کے گرد نائٹ ڈیسک کے لوگوں کا باتیں کرتا، قہقہے لگاتا ، چہکتا ہوا خاندان !!
یہ اس خاندان سے پہلا تعارف تھا ۔
تین ماہ بعد ہماری عارضی ملازمت کا وقت پورا ہو گیا ۔ میں اس دوران دیگر کاموں کے علاوہ مرحوم علیم درانی کی جگہ ریڈیو مانیٹرنگ بھی کر رہا تھا ۔ علیم درانی چھٹی پر گئے ہوئے تھے ۔ ان دنوں بی بی سی ، وائس آف امریکہ ، جرمنی کے ڈوئچے ویلے اور ریڈیو ماسکو کے خبرناموں کی مانیٹرنگ کی جاتی تھی تاکہ آخر وقت تک اخبار میں کسی اہم خبر کو شامل کیا جا سکے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت تک اگرچہ ٹیپ ریکارڈرز آ چکے تھے لیکن نہ جانے کیوں ریڈیو مانیٹرنگ کے لئے انہیں استعمال نہیں کیا جاتا تھا ۔ آپ کو خبرنامہ سننے کے دوران ہی بہت برق رفتاری سے اہم خبروں کے نکات تیزی سے کاغذ پر نوٹ کرنے ہوتے تھے اور پھر ان نکات پر مبنی خبر بنا کر دینی ہوتی تھی ۔ علیم درانی ، جو خود کمال کے ریڈیو مانیٹر تھے ، چھٹی پر جانے سے پہلے مجھے یہ بنیادی طریقہ سمجھا گئے تھے ۔ یقینی طور پر دل ہی دل میں دعا کر کے گئے ہوں گے کہ یہ لڑکا کوئی بھیانک غلطی نہ کر دے جس کی وجہ سے انہیں چھٹیاں ختم کر کے واپس آنے کا ہدایت نامہ موصول ہو۔
ان تین مہینوں کے دوران بس یوں سمجھئے کہ اللہ نے کرم کیا ، کوئی گڑبڑ نہیں ہوئی ۔ بس یہ ہوا کہ اس ریڈیو مانیٹرنگ کی بدولت ہی میں اس خاندان کا اہم حصہ بن گیا ۔ مجھ جیسے طالب علم کے لئے تو یہ جیسے کوئی آسمانی تجربہ تھا کہ پاکستان کے سب سے بڑے اخبار کی مرکزی نائٹ ڈیسک کے لوگ کاپی کو فائنل کرنے سے قبل (ذرا دیر کے لئے ہی سہی) اس بات کا انتظار کریں کہ ٹیلی پرنٹرز سےذرا آگے ، کونے میں بیٹھ کر ریڈیو سننے والا اخلاق احمد نامی لڑکا سارے بلیٹن سننے کے بعد آج کوئی اہم عالمی خبر ، یا کسی بڑی خبر سے جڑی اضافی تفصیلات لاتا ہے یا نہیں۔
عارضی ملازمت کے خاتمے کی اطلاع ایک دفتری خط کے ذریعے ملی تو مجھے سخت غصہ آیا ۔ اب سوچتا ہوں ، بھلا غصے کی کیا بات تھی ۔ یہ تو پہلے ہی طے تھا کہ تین مہینے کام کرنا ہے ۔ غصہ شاید اس بات کا تھا کہ مجھے اس خاندان سے علیٰحدہ کیا جا رہا تھا جس میں ، اپنی کم عمری کے باوجود ، میں ایڈجسٹ ہو چکا تھا ۔ شاید سینے کے اندر کہیں یہ آرزو پوشیدہ تھی کہ مجھے مستقل طور پر رکھ لیا جائے حالانکہ ابھی کراچی یونیورسٹی میں میرا ماسٹرز مکمل نہیں ہوا تھا ۔
نوعمری کے جوش میں اپنے خواہ مخواہ کے غصے کے اظہار کے لئے میں اپنی برطرفی کا خط ہاتھ میں لئے جنگ بلڈنگ کی چوتھی منزل جا پہنچا ، جہاں ان دنوں میر شکیل الرحمٰن بیٹھ رہے تھے اور دستک دئیے بغیر دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا ۔ کمرے میں شکیل صاحب کے سامنے ایک سینئر سب ایڈیٹر بیٹھے کوئی بات کر رہے تھے ۔ شکیل صاحب ان دنوں نوجوان تھے اور ہم سے عمر میں چند سال ہی بڑے لگتے تھے ۔ ان کے سامنے جو سینئر سب ایڈیٹر بیٹھے تھے وہ نائٹ ڈیسک پر ہی کام کرتے تھے اور اکثر کسی انقلابی رہنما کی طرح بہ آواز بلند کارکنوں کے استحصال اور مالکان کی زیادتیوں پر اظہار خیال کرتے نظر آتے تھے۔
میں نے اندر داخل ہو کر کسی توقف کے بغیر کچھ اس قسم کی بات شروع کر دی کہ اتنی اچھی کارکردگی کے بعد مجھے کوئی توصیفی سرٹیفکیٹ دینے کے بجائے اچانک برطرفی کا لیٹر دے دیا گیا ہے جو نہایت افسوس ناک بات ہے ۔ ابھی میں یہ شکایت کر ہی رہا تھا کہ وہ انقلابی سینئر سب ایڈیٹر اچانک بولے ۔" یہ کون سا طریقہ ہے شکیل صاحب سے بات کرنے کا؟ آپ جانتے ہیں کہ آپ کس سے بات کر رہے ہیں؟"
میں نے تیز آواز میں کہا ۔" میں آپ سے بات نہیں کر رہا ہوں۔"
پل بھر میں کمرے کی فضا تبدیل ہو گئی ۔ اس سے پہلے کہ محاذ مزید گرم ہوتا ، شکیل صاحب نے ہاتھ اٹھا کر ان صاحب کو جیسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور مسکرا کر میری طرف متوجہ ہو گئے ۔ انہوں نے تحمل سے میری پوری بات سنی اور پھر مجھے تسلی دی کہ جونہی ضرورت پڑے گی ، مجھے فورا" بلا لیا جائے گا ۔ پھر انہوں نے اکاؤنٹس میں طفیل صاحب کو فون کیا اور میرے واجبات اسی وقت ادا کرنے کے لئے کہا ۔ کچھ اس قسم کی بات بھی کی کہ میری کارکردگی واقعی اچھی تھی ۔ دو چار منٹ میں ہی مجھے محسوس ہونے لگا کہ میں بدستور اس خاندان کا حصہ ہوں اور جیسے کسی خاندان میں کوئی نہ کوئی کسی ناراض ہو جانے والے بچے کی شکایت سن لیتا ہے ، اسی طرح میری بات بھی سن لی گئی ہے ۔
دوسرا منظر غالبا" دسمبر 1979 کا ہے ۔
یونیورسٹی میں ہماری کلاس فیلو نضیراء اعظم نے ، جو شعبہ صحافت میں وائس پریزیڈنٹ منتخب ہوئی تھیں ، سیمینار روم کی ایک تقریب میں میر شکیل الرحمٰن کو مدعو کیا ۔ یہ وہ وقت تھا جب روزنامہ نوائے وقت نے کراچی سے اپنی اشاعت شروع کی تھی اور ہم کئی کلاس فیلوز نوائے وقت کی ٹیم کا حصہ بن گئے تھے ۔ ان دنوں جنگ نے بھی متوقع مقابلے کے لئے کمر کس لی تھی ، روزانہ اخبار کے ساتھ رنگین میگزین کا سلسلہ شروع کر دیا تھا جس کے نگراں شکیل صاحب ہی تھے ۔ اب تو خیر اس صورت حال پر ہنسی آتی ہے لیکن آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس وقت ہم نوائے وقت والوں کے لئے جنگ گویا مخالف کیمپ کا اخبار بن گیا تھا ۔
سیمینار روم میں منعقد ہونے والی تقریب کے آخر میں ہم نے اپنے حسابوں تقریب کو ناکام بنانے کی بھرپور کوشش کی ۔ تند و تیز سوالات ، عجیب وغریب تبصرے ، پچھلی نشستوں سے قہقہے ۔ یعنی وہی سب کچھ جو شریر طالب علم کرتے ہیں ۔ تھوڑی بہت بد نظمی ہوئی ۔ اس ساری کارروائی کے بعد ہمارا پورا ٹولا تقریب سے اٹھا اور ہنستا ہنساتا کیفے ٹیریا جا پہنچا ۔ ایک میز پر محفل جم گئی ۔ کوئی چائے اور سموسے کا آرڈر دینے ، سیلف سروس کاونٹر پر چلا گیا۔
ابھی چائے اور سموسے آئے ہی تھے کہ ایک شوخ سرخ رنگ کی کار کیفے ٹیریا کے دروازے پر آ کر رکی ۔ ڈاٹسن 260 زی ۔ اور ہم نے نضیراء اعظم کے ساتھ میر شکیل الرحمٰن کو اندر آتے دیکھا ۔ وہ سیدھے ہماری طرف آئے ۔ اس سے پہلے کہ ہم سنبھل پاتے ، شکیل صاحب ساتھ والی میز کی ایک کرسی گھسیٹ کر ہمارے سامنے بیٹھتے ہوئے بولے ۔" ہاں بھئی ، منگواؤ چائے اور سموسے ۔"
یہ کوئی ایسی افتاد تھی جس نے ہم سب کو بوکھلا دیا ۔ کسی نے گھبرا کر اپنی چائے ان کے سامنے رکھی ۔ کوئی مزید سموسے لینے بھاگا ۔ ہمارا تو خیال تھا کہ وہ ہم سے ناراض ہوں گے ۔ ہماری شکل بھی نہ دیکھنا چاہتے ہوں گے ۔ لیکن بعد میں پتا چلا کہ شکیل صاحب نے تقریب ختم ہوتے ہی نضیراء اعظم سے کہا تھا کہ وہ ان نوائے وقت والے لڑکوں سے ملنا چاہتے ہیں اور یوں وہ سیدھے کیفے ٹیریا آ پہنچے تھے ۔
آج چار عشرے سے بھی زیادہ گزر چکے ہیں ، مگر مجھے یاد ہے کہ اس دوپہر کیفے ٹیریا کی اس میز پر موجود تمام دوستوں میں اگر کوئی سب سے زیادہ گھبرایا ہوا تھا تو وہ میں تھا ۔ مجھے شبہ تھا کہ شکیل صاحب آسانی سے پہچان جائیں گے کہ یہ وہی جنگ میں کچھ عرصہ کام کرنے والا طالب علم ہے جو آج ہنگامہ آرائی کرنے والوں میں شامل ہے ۔ لیکن شکیل صاحب شاید کچھ اور ہی سوچ کر آئے تھے ۔
انہوں نے ہم سب سے ہنسی مذاق میں باتیں کرتے کرتے کہا کہ جنگ اخبار کی حمایت یا مخالفت کے چکر میں نہ پڑیں بلکہ تعلیم کے اس آخری سال میں اپنے لئے بہتر کیرئیر کے بارے میں سوچیں ۔ انہوں نے کہا کہ جنگ اخبار میں بڑی تبدیلیاں ہو رہی ہیں ، صفحات بڑھائے جا رہے ہیں ، نئے موضوعات پر رنگین میگزین شروع کئے جا رہے ہیں ، ان سب کاموں کے لئے ہمیں نوجوانوں کی ضرورت ہے ۔ آپ لوگ آئیں اور کام سنبھالیں ۔ ہم سب ان کی باتیں سنتے رہے ۔ میں دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کرتا رہا کہ انہوں نے مجھے نہیں پہچانا ہے ۔
پندرہ بیس منٹ کی اس ملاقات میں دو باتیں ایسی تھیں جو میرے لئے خوشگوار حیرت کا سبب بنیں ۔ پہلی تو یہی بات کہ میر شکیل الرحمٰن نے غیر معمولی حوصلے کا مظاہرہ کیا ، ہنگامہ آرائی کرنے والوں کے پیچھے پیچھے کیفے ٹیریا آ پہنچے ۔ یہ وہ وقت تھا جب جنگ اخبار میر خلیل الرحمٰن کے نام سے پہچانا جاتا تھا ۔ لیکن میر جاوید رحمٰن اور میر شکیل الرحمٰن کا نام بھی اخبار کے مالکان کے طور پر لیا جاتا تھا ۔ ایک مالک کا یوں ہمارے ساتھ آ بیٹھنا، بے تکلفی سے چائے اور سموسوں میں شریک ہونا ، ہم سب کے لئے حیران کن تھا ۔
دوسری بات اس وقت رونما ہوئی جب ہم میر شکیل الرحمٰن کو رخصت کرنے کے لئے کیفے ٹیریا سے باہر آئے ۔ انہوں نے گاڑی میں بیٹھنے سے قبل سب سے مصافحہ کیا ۔ مجھ سے ہاتھ ملاتے وقت انہوں نے میرا ہاتھ تھامے تھامے باقی لوگوں کی جانب رخ کیا اور بولے ۔" ان سے پوچھ لو ، جنگ کا ماحول کیسا فرینڈلی ہے ۔ بالکل کسی فیملی کی طرح !" میں ہکا بکا کھڑا رہ گیا ۔ حیران ، کہ انہوں نے شاید مجھے شروع میں ہی پہچان لیا تھا ۔ اور خوش ، کہ دو برس گزرنے کے بعد بھی مجھے خاندان کا حصہ سمجھا جا رہا تھا !
سال بھر کے اندر اندر تعلیم مکمل کرتے ہی میں جنگ گروپ سے وابستہ ہو گیا ۔ اسی پرانے صحافتی خاندان کا حصہ بن گیا ۔ اس بار میں ہفت روزہ اخبار جہاں کی ادارتی ٹیم کا حصہ بنا تھا ، لیکن یہ وہ دور تھا جب ساری ٹیمیں اپنا اپنا کام کرنے کے ساتھ ایک دوسرے سے ہمہ وقت جڑی رہتی تھیں ۔ ایڈیٹوریل، سرکولیشن ، مارکیٹنگ ، جاوید پریس ، ایڈمنسٹریشن ، کتابت ، سب شعبوں کے لوگ ایک دوسرے سے خوب شناسا رہتے تھے ۔
میں آپ کو تھکانا نہیں چاہتا کیونکہ جنگ کے صحافتی خاندان کے ساتھ چالیس برس کی داستان تو بہت طویل ہے ۔ ہاں ، یہ ضرور بتانا چاہتا ہوں کہ اس صحافتی خاندان کی کیمیا میں کوئی نہ کوئی راز ایسا ضرور ہے جو خود اس خاندان سے وابستہ لوگوں کی بھی سمجھ میں نہیں آتا ۔ یعنی یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ برس پر برس گزرتے جاتے ہیں لیکن لوگ یاد سے کیوں محو نہیں ہوتے ، فراموشی کی کھائی میں کیوں نہیں جا گرتے ۔
جب میں اس خاندان سے وابستہ ہوا تو مجھے پتا چلا کہ یہاں سال میں چھ بونس بھی ملتے ہیں جن میں ہر بونس ، ایک بنیادی تنخواہ کے برابر ہوتا تھا ۔ اسی طرح یہاں کنٹری بیوٹری پراویڈنٹ فنڈ کا نظام رائج تھا ۔ جتنے پیسے آپ کی تنخواہ سے پراویڈنٹ فنڈ کی مد میں کٹتے تھے ، اتنے ہی ادارہ بھی دیتا تھا اور یہ رقم آپ کے کھاتے میں جمع ہو جاتی تھی جو ریٹائرمنٹ یا استعفے کی صورت میں آپ کو مل جاتی تھی ۔ اسی طرح کارکن کی فیملی کے لئے ، جس میں بیوہ ماں بھی شامل ہوتی تھی ، مکمل میڈیکل کوریج ملتا تھا ۔ بلکہ یوں کہئے کہ ان لمیٹڈ میڈیکل کوریج ۔ طبی دیکھ بھال کی یہ سہولت کسی ہیلتھ انشورنس کے نظام سے نہیں ملتی تھی ، ادارہ فراہم کرتا تھا ۔
جنگ گروپ کے ساتھ کام کرنے کے دوران کئی بار ایسا ہوا کہ نئے میڈیا گروپس نے میری خدمات حاصل کرنے کے لئے رابطہ کیا ۔ سب کو یہ خوش گمانی تھی کہ اخبار جہاں کے برسوں پر محیط تجربے کے باعث میں میگزین کا کام بخوبی سنبھال سکتا ہوں ۔ کئی بار بات آگے بھی بڑھی ۔ مگر شاید جنگ فیملی کے ساتھ کام کرتے کرتے میں اپنے لئے ایسا کمفرٹ زون بنا چکا تھا کہ مجھے یہ آرام دہ ماحول چھوڑ کر جانا بہت مشکل لگتا تھا ۔ ایک بار سعودی عرب سے ایک اردو اخبار نے اشاعت شروع کی تو چھ افراد کی پہلی ٹیم میں مجھے بھی منتخب کر لیا گیا ۔
ٹیم کے چھ میں سے چار لوگ جنگ گروپ کے ہی تھے ۔ آخری وقت پر میں نے بوجوہ جانے سے معذرت کر لی جس پر سعودی نمائندے مختار الفال خاصے برہم ہوئے ۔ اسی طرح ایک مرتبہ لندن سے کوئی اردو اخبار نکلا تو بہت سے دوستوں نے جوائن کر لیا ۔ میں نے آخری وقت پر معذرت کرنے کی روایت پھر نبھائی ۔ اسلام آباد میں بے نظیر بھٹو دور میں ایسی ہی ایک پیشکش کے بعد بھی یہی ہوا ۔ ہر بار میں نے دل ہی دل میں خود پر لعن طعن بھی کی کہ جب جنگ گروپ سے علیٰحدہ ہونے کا حوصلہ نہیں ہے تو بات اتنی بڑھانے کی
ضرورت ہی کیا ہے کہ معذرت کرنے کی نوبت آئے ۔
چوبیس سال پہلے کی بات ہے ، ایک بڑا میڈیا گروپ منظر عام پر آیا ۔ ظاہر ہے ، اس نے اپنی ٹیم بنانے کے لئے جنگ گروپ میں کام کرنے والوں سے رابطے کئے ۔ تجربہ کار لوگوں کو سبھی ترجیح دیتے ہیں ۔ اڑتی اڑتی خبریں آنے لگیں کہ لوگ چھپ چھپا کر اس میڈیا گروپ کے دفتر میں جا کر انٹرویو دے رہے ہیں ۔ ہر طرف افواہیں تھیں اور ہر کیس خفیہ رکھنے کی کوششیں کی جاتی تھی ۔ کچھ لوگوں کو تقرر نامے بھی ملنے لگے تو معاملات مزید واضح ہونے لگے ۔ مجھے نہیں معلوم کہ جنگ گروپ کے لوگوں سے وہ میڈیا گروپ کیسے اور کن لوگوں کے ذریعے رابطہ کرتا تھا۔
مجھ سے البتہ اس گروپ کے مالک نے فون پر رابطہ کیا اور کسی روز اپنے دفتر آنے کی دعوت دی ۔ دوسروں کی طرح میری بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کروں ، کیا جواب دوں ۔ میں نے ان سے کہا کہ ان کے دفتر آنا میرے لئے ممکن نہیں ہے ، میں افواہوں کی زد میں آنا افورڈ نہیں کر سکتا ، آپ جو بات کرنا چاہیں فون پر کر لیں ۔ جواب میں انہوں نے پیشکش کی کہ ملاقات ان کے گھر پر رکھ لی جائے جہاں ہم دونوں کے سوا کوئی نہیں ہو گا ۔
قصہ مختصر یہ ، کہ ان کے گھر پر دو تین خفیہ ملاقاتیں ہوئیں ۔ اور بہت کامیاب ملاقاتیں ۔ مجھے وہ اچھے لگے ۔ انہیں بھی میں بہت پسند آیا ۔ ان کی آفر بھی پرکشش تھی ۔ لیکن ہؤا کیا؟ ۔ میں نے بہت غور کرنے کے بعد خود کو بالکل بے بس پایا ۔ جنگ کے صحافتی خاندان سے علیٰحدہ ہونے کا تصور ہی مجھے مضطرب کر دیتا تھا ۔ اس خاندان سے وابستگی نے ہی مجھے ایک شناخت دی تھی ، مقدور بھر شہرت دی تھی ، اور وہ اعتماد دیا تھا جو کم لوگوں کے حصے میں آتا ہے ۔ ان دنوں اسے چھوڑ کر جانا ، نا ممکن لگتا تھا ۔ مجھے خبر نہیں تھی کہ یہ بے بسی جنگ گروپ چھوڑ دینے کے بعد بھی میرے ساتھ ساتھ یوں رہے گی جیسے آدمی کا سایہ اس کے ساتھ ساتھ چلتا ہے ۔
پچاس برس کی عمر میں ، میں نے صحافت چھوڑنے کا ، اور کوئی نئی راہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اس وقت کوئی نہیں جانتا تھا کہ میں کیوں استعفی دے رہا ہوں ، کہاں جا رہا ہوں ۔ اعلیٰ انتظامیہ سے میں نے صرف یہ کہا تھا کہ میں کوئی دوسرا اخبار ، کوئی میگزین ، کوئی میڈیا گروپ یا چینل جوائن کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا ۔ دو چار ہفتے بعد لوگوں کو پتا چلا کہ میں نے واثق نعیم کی پیشکش قبول کی ہے اور سٹار مارکیٹنگ کے ایڈورٹائزنگ کے معاملات سنبھال لئے ہیں ۔
اصولا" تو یہاں کہانی ختم ہو جانی چاہئے ۔ آپ نے صحافت چھوڑ دی ، جنگ گروپ چھوڑ دیا ، تو تعلق کا کھیل ختم ہو جانا چاہئے ۔ لیکن پتا چلا ، جنگ کے صحافتی خاندان کا تعلق ایسا ہے کہ ان دیکھی زنجیروں میں باندھے رکھتا ہے، دل کے اندر کوئی کھونٹا نصب کر کے آزاد چھوڑ دیتا ہے ۔ کیا اسیری ہے ، کیا رہائی ہے والا معاملہ اچھی طرح سمجھ میں آ جاتا ہے۔
چودہ برس ہونے کو آئے ہیں ۔ اس دوران میں نے کبھی جنگ بلڈنگ میں قدم بھی نہیں رکھا ہے ۔ لیکن مجھے اب تک جنگ گروپ کے ، اخبار جہاں کے حوالے سے ہی پہچانا جاتا ہے ۔ اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ جنگ کے خاندان نے مجھ جیسے بہت سے لوگوں کو اب تک فراموش نہیں کیا ہے ۔ ایسے لوگوں کی فہرست بہت طویل ہے جن سے چودہ برس بعد بھی تعلق بے حد تر و تازہ لگتا ہے۔ محمد سلیمان کی ہی مثال لے لیجئے ۔ بیالیس برس قبل ہم دونوں نے جنگ گروپ سے وابستگی اختیار کی تھی ۔ سلیمان صاحب پس منظر میں رہنا پسند کرتے ہیں لیکن درحقیقت اب وہ جنگ گروپ چلانے والے اہم ترین لوگوں میں سے ایک ہیں۔
بظاہر سنجیدہ نظر آنے والے سلیمان صاحب سے میں کسی بھی وقت فون پر کوئی شوخ بات کروں تو اتنا ہی شوخ جواب آتا ہے ۔ بالکل یہی معاملہ منصور رحمٰن صاحب کا ہے ۔ مدثر مرزا ہیں جو ایڈیٹری کا رعب جھاڑنے میں نہیں ، یاروں کی طرح محفل جمانے میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔ سید سرمد علی ہیں جو ان تمام برسوں میں خاندان کے کسی فرد کی طرح ساتھ ساتھ رہے ہیں ۔ اور اسی طرح عظمی رضوی بھی ۔ پنڈی میں فاروق اقدس ہیں جو دوستی اور وضعداری نبھانے میں اپنی مثال آپ ہیں۔
سید امجد علی بھی ۔ رضیہ فرید پہلے اخبار جہاں میں آئی تھیں ، اب جنگ میگزین کی کرتا دھرتا ہیں اور ہمیشہ رابطے میں رہی ہیں ۔ نعیم اختر ہیں ۔ ہمایوں عزیز صاحب ہیں جو اب بھی دعاؤں سے نوازتے ہیں ۔ مجھ جیسے گمنام ، لا تعلق ، کسی اور شعبہ میں رہنے والے آدمی سے ان تمام لوگوں کی کوئی غرض وابستہ نہیں ہے ۔ بس ، وہی خاندان والا معاملہ ہے جو شاید ہمیں باندھے رکھتا ہے۔
حیرت اور خوشی کی ایک اور داستان ان لوگوں نے مرتب کی ہے جو جنگ گروپ سے وابستہ رہے ، پھر دوسری منزلوں کی طرف روانہ ہو گئے مگر مجھے ہمیشہ احساس دلاتے رہے کہ وہ بھی اور میں بھی ، اب تک ایک خاندان کا حصہ ہیں ۔ نثار احمد زبیری صاحب ، محمود شام صاحب ، مرحوم شفیع عقیل صاحب ، برادر نذیر لغاری ، انور سن رائے ، نصیر ہاشمی ، عارف الحق عارف ، ناصر بیگ چغتائی ، طاہر نجمی ، احمد حسن ، زاہد حسین، مظفر احمد ، مرزا خورشید مسعود ، عبد القیوم، عبد الروف، عالیہ نثار، حسن جاوید، خالد حمید خان ، خالد فرشوری، اور نہ جانے کتنے ہی لوگ ہیں جو اس صحافتی خاندان کا آج تک حصہ ہیں ، اور مجھ جیسے لوگوں کو بھی اسی فیملی میں شمار کرتے ہیں ۔
آج جنگ نے پاکستان میں اپنے پچھتر برس مکمل کئے ہیں تو اس یکسر منفرد خاندان کے ارکان کی آنکھوں میں بھی جیسے کسی جشن کی جگمگاہٹ دمکتی دکھائی دیتی ہے ، اور دل میں جلتی بجھتی یادوں کے اور دعاؤں کے ہزاروں چراغ روشن نظر آتےہیں۔