اسلام آباد(نمائندہ جنگ/ جنگ نیوز)سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ریفرنس کی بجائے پارلیمنٹ طے کرے،ہم خالی جگہ پر نہیں کرسکتے، ووٹ کاسٹ اور شمار ہوگا پھر دیکھیں گے کیا کرنا ہے.
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آئین کا تقاضا ہے آپ پارٹی سے نا خوش ہوں پھر بھی ساتھ کھڑے ہوں، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ووٹ پارٹی خواہش پر دینا ہوتا ہے.
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا آپ پارٹی سربراہ کو بادشاہ سلامت بنانا چاہتے ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا دوسری کشتی میں جاتے ہوئے پہلا جہاز ڈبویا جاسکتا ہے.
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کہا کہ سپریم کورٹ کہہ چکی کسی کا ضمیر تنگ کررہا ہے تو استعفیٰ دے دے، کسی کو بادشاہ سلامت نہیں تو لوٹا بھی نہیں بنانا چاہتے، پارٹی پالیسی سے انحراف پر تاحیات نااہلی ہونی چاہئے، عدالت میں سماعت آج پھر ہوگی۔
نمائندہ جنگ کے مطابق سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس اور سپریم کورٹ بار کی آئینی درخواست کی سماعت کے دوران آبزرویشن دی ہے کہ یہ معاملات ریفرنس کی بجائے پارلیمنٹ میں طے ہونے چاہئیں، ہم خالی جگہیں پر نہیں کرسکتے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ آئین کا آرٹیکل 63 اے ابھرتے ہوئے سیاسی نظام کا ایک ڈسپلن ہے.
63 اے کہتا ہے کہ بیشک آپ اپنی جماعت سے ناخوش ہوں مگر پارٹی کے ساتھ کھڑے ہوں، سیاسی وفاداری تبدیل کرنے کے دو پہلو ہیں ایک سیاسی اور دوسرا آئینی، سیاسی طور پر رکن اسمبلی کو دوبارہ پارٹی کا ٹکٹ نہیں ملے گا جبکہ آئینی طور پر وہ نااہل ہوجائے گا۔
ہم آئین کی منشا کو نظر انداز نہیں کرسکتے، 63اے کا عمل آئین دیتا ہے، رکن پارلیمنٹ کا ووٹ شمار نہیں ہوگا تو اس کی توہین ہوگی، ہمارے سامنے دو سوالات ہیں کہ سیاسی وفاداری تبدیل کرنے کے بعد نااہلی کی مدت کیا ہوگی اور یہ کب سے شروع ہوگی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ معلوم نہیں عدم اعتماد پر ووٹنگ کب ہوگی لیکن عدالت چاہے گی کہ سیاسی جماعتیں آئین کے دفاع میں کھڑی ہوں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ آرٹیکل95 کے تحت ہر رکن اسمبلی کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے اور ووٹ اگر ڈالا جاسکتا ہے تو شمار بھی ہوسکتا ہے، اگر آپ اس نکتے سے متفق ہیں تو اس سوال کو واپس لے لیں۔
فاضل جسٹس نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ وزیر اعظم کے پاس اکثریت نہ رہے تو وہ ہٹ جاتا ہے، بلوچستان میں بھی تو اپنے ہی لوگوں نے عدم اعتماد کیا اور حکومت بدل گئی تھی۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمانی جمہوریت میں سیاسی جماعتوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، اگر ایک شخص پارٹی ٹکٹ پر منتخب ہوا ہے تو وہ پارٹی ڈسپلن کا پابند ہے، انہیں پارٹی مینڈیٹ کے مطابق ووٹ دینا ہوتا ہے، پارٹی لائن پر عمل کرنا ہوتا ہے۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ پارٹی کی خواہش پر ووٹ دینا ہوتا ہے، فل اسٹاپ، دیٹس اٹ، پارٹی لائن تبدیل کرنے پر گڈ بوائے بیڈ بوائے نہیں کہا جاتا، سب اپنی اپنی مرضی کریں تو سیاسی جماعت ادارہ نہیں ہجوم بن جائے گی، سیاسی جماعتیں ختم ہوجائیں گی، انفرادی شخصیات کو طاقتور بنانے سے ادارے تباہ ہوجاتے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سینیٹ الیکشن ریفرنس میں عدالت نے قرار دیا ہے کہ پارلیمنٹرین ووٹ دینے میں مرضی نہیں کرسکتے۔
ووٹ دینا پارلیمنٹرین کا حق ہے لیکن آئین نے پابند کیا ہے کہ ووٹ پارٹی کی خواہش کے مطابق دے۔
فاضل جسٹس کا کہنا تھا کہ جمہوری عمل کا مقصد روزمرہ امور کو متاثر کرنا نہیں ہوتا۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل دیتے ہوئے خواجہ طارق رحیم کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا اور بتایا کہ عدالت نے قرار دیا ہے کہ اگر کسی رکن کو ضمیر تنگ کررہا ہے تو مستعفی ہو جائے۔
دوران سماعت جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضیٰ نے پرامن رہنے کی یقین دہانی کرائی۔
جمعرات کو چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے آرٹیکل63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی آئینی درخواست کی سماعت کی۔
عدالت نے معاملے صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کرنے کے بارے میں اٹارنی جنرل کی رائے معلوم کی تو اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ یہ عدالت کی صوابدید ہے جس پر عدالت نے صوبائی حکومتوں کو بھی صدارتی ریفرنس پر نوٹس جاری کرتے ہوئے تحریری جوابات جمع کرانے کی ہدایت کی اور قرار دیا کہ تحریری جواب جمع ہونے سے سماعت میں آسانی ہوگی۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے ویڈیو لنک پر کراچی رجسٹری سے پیش ہوکر سندھ ہاؤس پر حملے کے بارے میں پولیس کارروائی پر اطمینان کا اظہار کیا۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا کہ جے یو آئی نے اجتماع اور دھرنے کیلئے جس جگہ کا انتخاب کیا ہے وہ سرینگر ہائی وے سے متصل ہے، یہی راستہ ایئر پورٹ کو بھی جاتا ہے۔
جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضیٰ نے عدالت کو بتایا کہ اس ضمن میں عدالت کے حکم کی پاسداری کی جائے گی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جمہوری عمل کی روح یہ ہے کہ احتجاج، دھرنا قانون کے اندر ہو۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت چاہے گی کہ تمام جماعتیں جمہوری اقدار کی پاسداری کریں۔ جے یو آئی کے وکیل نے کہا کہ ہمارا جلسہ اور دھرنا پرامن ہوگا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ان سے کہا کہ آپ سے حکومت والے ڈرتے ہیں۔