مختار احمد
پیارے بچو! بہت پرانے زمانے کی بات ہے۔ ایک شخص قاضی کے پاس آیاوہ بہت پریشان نظر آ رہا تھا۔ قاضی نے اس کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ "تمہیں کیا پریشانی ہے؟ "اس آدمی نےروتے ہوئے کہا "جناب میں شہر کا مشہور سوداگر ہوں"۔ قاضی نے چونک کر اسے دیکھا۔ اس کے کپڑے بے حد معمولی تھے۔ قاضی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے کہا، "کیا دیوانے ہوگئے ہو ، ایسے کپڑے تو اس کے غلام بھی ہاتھ لگانا پسند نہیں کرتے جو تم نے پہنے ہوئے ہیں"۔
اس شخص نے ایک ٹھنڈی آہ بھر کر کہا"قاضی صاحب میرے ساتھ بہت بڑا دھوکہ ہواہے۔ میں آپ کے پاس انصاف مانگنے کے لیے حاضرہوا ہوں،-قاضی نے کہا، "اچھا تم اپنی کہانی سناؤ، تمہارے ساتھ انصاف کیا جائےگا"- اس آدمی نے کہا - " کچھ عرصہ پہلے میں اپنے گھوڑے پر سوار جنگل میں شکار کی کی غرض سے گیا تھا۔
ایک ہرن کے پیچھے میں جنگل میں دور تک نکل گیااور راستہ بھول گیا، پھر مجھے ایک جھونپڑی نظر آئی، وہاں میں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جو شکل و صورت میں ہو بہو مجھ جیسا دیکھتا تھا۔ اس شخص نے میرے لیے کھانے پینے کا بندوبست کیا اور میرے بارے میں پوچھنے لگا پھراس نے مجھے شربت کا ایک گلاس دیا۔ ابھی میں نے آدھا شربت ہی پیا تھا کہ میرا سر چکرانے لگا اور میں زمین پر گر پڑا، پھر مجھے کوئی ہوش نہیں رہا- اگلے روز میری آنکھ کھلی تو میں جھونپڑی میں اکیلا تھا، اور یہ شخص وہاں سے غائب تھا۔ میرے جسم پر یہ پھٹے پرانے کپڑے تھے۔
میں جھونپڑی سے نکلا اور بڑی مشکلوں سے راستہ تلاش کرتا ہوا اپنے گھر پہنچا، مگر اس وقت میرے صدمے کی کوئی انتہا نہیں رہی جب میرے ملازموں نے بھی مجھے پہچاننے سے انکار کر دیا اور مجھے دھکے دے کر بھگا دیا اور کہا کہ، سوداگر تو گھر میں اپنی بیٹی کے ساتھ موجود ہے، تم دھوکے باز ہو۔ عین اسی وقت میرے گھر کی ایک کھڑکی کھلی اور میں نے دیکھا کہ یہ مکّار شخص میری بیٹی کے ساتھ مجھے دیکھ کر ہنس رہا ہے، پھر اس کے کہنے پر میرے ہی ملازموں نے مجھ پر تھپڑوں اور لاتوں کی بارش کر دی اور مجبوراً مجھے وہاں سے بھاگنا پڑا۔
اب میں اپنی فریاد لے کر آپ کے پاس آیا ہوں اور انصاف کا طلب گار ہوں"۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا- قاضی نے حکم دیا کہ اس شخص کو بھی عدالت میں حاضر کیا جائے۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ شخص عدالت میں ایک خوب صورت لڑکی کے ساتھ حاضر ہوا۔ اس نے حاضر ہوتے ہی کہا- "جناب میں سوداگر ہوں اور یہ میری بیٹی ہے"- قاضی نے اس خستہ حال شخص کی پوری داستان دوہرا دی، جسے سن کرسوداگر بولا۔ "حضور میں نے تو اس شخص کو پہلی مرتبہ دیکھا ہے، اس کی شکل حیرت انگیز طور پر مجھ سے مشاہبت رکھتی ہے، مگر یہ جھوٹ بولتا ہے"۔
ان دونوں کی باتیں سن کر قاضی سخت الجھن میں مبتلا ہو گیا تھا- اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ان میں سچا کون ہے۔ اس نے سوداگر کی لڑکی کو مخاطب کر کے کہا- "بیٹی، تم کیا کہتی ہو،ان دونوں میں سے تمہارا باپ کون ہے؟"۔ بیٹی نےبیش قیمت کپڑوں میں ملبوس شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ "جناب ، میرے ابّا جان تو یہ ہیں"۔ اس کا فیصلہ سن کر خستہ حال شخص آبدیدہ ہوگیا۔ قاضی نے کہا۔ "لڑکی کیا تم کوئی ثبوت پیش کرسکتی ہو کہ یہ ہی تمھارے ابّا جان ہیں؟"۔ "جی ہاں، آج سے تقریباً پانچ برس پہلے کی بات ہے، میرے ابّا جان کے ایک دشمن نے ان سے کہا تھاکہ موقع ملتے ہی وہ تلوار سے ان کی گردن اڑادے گا۔
اس کے بعد سے ابّا جان پریشان رہنے لگے۔ ان ہی دنوں میری ایک پری سے دوستی ہو گئی، جب میں نے اس کو اپنی کہانی سنائی تو اس نے میرے ابّا کی گردن پر اپنی جادو کی چھڑی لگائی اور کہا کہ دنیا کی تیز سے تیز دھار والی تلوار بھی ان کی گردن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ آپ جلاد کو بلوا ئیے اور میرے ابّا کی گردن پر تلوار چلوا ئیے، ان کی گردن نہیں کٹے گی"۔
بیش قیمت کپڑوں میں ملبوس شخص کا چہرہ سیاہ پڑ گیا تھا- قاضی نے فوراً جلاد کو بلانے کا حکم دیا۔ "تھوڑی ہی دیرمیں سیاہ فام جلاد ہاتھ میں چمکدار تلوار لیے اندر داخل ہوا، قاضی نے اسے حکم دیا کہ سوداگر کی گردن پر وار کرے، مگر ابھی جلاد نے تلوار فضا میں بلند کی ہی تھی کہ سوداگر قاضی کے قدموں پر گر پڑا اور روتے ہوئے بولا۔ "میں سوداگر نہیں ہوں۔ اصل سوداگر یہی آدمی ہے"۔ قاضی نے سپاہیوں کو نقلی سوداگر کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔لڑکی نے قاضی کو بتایا کہ وہ بھی یہ فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کہ اس کا باپ کون سا ہے، اس لیے اس نے ایک کہانی گھڑ لی۔ اس کی ذہانت کی وجہ سے ایک الجھا ہوا مقدمہ منٹوں میں حل ہوگیا تھا۔