’’بد قسمتی سے ہم کرہء ارض کے جس خطے میں سانس لے رہے ہیں، وہ زبانِ حال سے یہ اعلان کر رہا ہے کہ یہاں کی فضا ایک مضبوط اور منصفانہ سماجی اور سیاسی نظام سے محروم ہے۔ اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ بنیادی انسانی حقوق کے معاملے میں ہمارا معاشرہ ایک قابل رحم تصویر پیش کرتا ہے۔چنانچہ دوسرے پیشوں کی طرح ہمارا پیشہ بھی اس مجموعی صورت حال کے اثرات سے محفوظ نہیں۔ تا ہم چونکہ پریس کو مملکت کے چوتھے ستون کی حیثیت حاصل ہے، اس لیے اس پر اثر انداز ہونے والے عوامل معاشرے کی کیفیت پر زیادہ مہلک اور خوف ناک زخم لگاتے ہیں‘‘۔(احفاظ الرحمن۔ سابق صدر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس)
آزادیء صحافت سے مراد ایک ایسا ماحول پیدا کرنا ہے جس میں بلا خوف و خطر اور کسی انتقامی کارروائی کے ڈر کے بغیر عوامی مسائل پر کھل کے بات ہو سکے۔ایک آزاد میڈیا عوامی مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور متوازن رویوں کو جنم دیتا ہے۔فری میڈیا، رواداری اور آزادی ِاظہار ایک روشن خیال معاشرے کی بنیادی خصوصیات ہیں۔
پاکستان کو اپنے قیام کے بعد سے بہت سے مسائل کا سامنا رہا۔قائد اعظم قانون کی بالا دستی پر یقین رکھتے تھے ۔ان کا مطمحِ نظر پارلیمانی نظام تھا جو چار ستونوں پر کھڑا ہوتا ہے، عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ اور پریس۔قائد اعظم کی وفات کے بعد پریس اور سرکار کے تعلقات اچھے نہیں رہے۔ عامل صحافی سرکاری بدعنوانیوں کا پردہ چاک کرتے تھے اور کسی بھی حکومت کو یہ اچھا نہیں لگتا تھا۔
قیام پاکستان سے پہلے صحافی برطانوی سامراج کے خلاف آواز اٹھاتےتھے ۔مولانا ظفر علی خان’ ’زمیندار‘‘ اخبار اور مولانا محمد علی جوہر’’ہمدرد‘‘ اور’ ’ کامریڈ‘‘ نکالتے تھے۔مولانا ابوا لکلام آزاد اور حسرت موہانی بھی اپنے قلم کے جوہر دکھاتے تھے۔تحریک پاکستان کے دوران قائد اعظم نے لاہور کے صحافیوں کو اخبار نکالنے کے لیے آمادہ کیا اور مسلم لیگ کی آواز اٹھانے کے لیے ’’ڈان‘‘ اور’ ’ منشور‘‘کا اجرا ہوا۔ میر خلیل ا لرحمن نے 1940میں دہلی سے ہفت روزہ ’’جنگ‘‘ نکالا جو بعد میں روزنامہ بن گیا۔ اسی سال لاہور سے حمید نظامی نے ’’ نوائے وقت‘‘کا اجرا کیا۔فروری1947میں میاں افتخار ا لدین نے روز نامہ ’’پاکستان ٹائمز‘‘ نکالا۔وہ ایک روشن خیال اور اعلی تعلیم یافتہ شخص تھے۔
پاکستان کا قیام ایک جمہوری ملک کی حیثیت سے عمل میں آیااور آزادیٗ صحافت کو یقینی بنانے کے لیے قوانین بنائے گئے، مگر پاکستان کے قوانین میں نوآبادیاتی دور کا ورثہ یعنی اختلاف رائے کو برداشت نہ کرنے کا رحجان غالب رہا۔
’’آپ کے پاس بہت بڑی طاقت ہے۔آپ لوگوں کی رہنمائی بھی کر سکتے ہیں اور انہیں گمراہ بھی کر سکتے ہیں۔پریس کی طاقت واقعی عظیم ہے، لیکن آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ طاقت جو آپ استعمال کر رہے ہیں ، آپ کے پاس امانت ہے۔میں چاہتا ہوں آپ بالکل بے خوف ہو جائیں ۔اگر میں کوئی غلطی کروں یا مسلم لیگ اپنی پالیسی یا پروگرام میں کوئی غلط روش اپنائے تو ایک دوست کی حیثیت سے اور ایک ایسے شخص کی حیثیت سے جس کا دل مسلمان قوم کے ساتھ دھڑکتا ہے، آپ ایمانداری سے ہم پر تنقید کریں ‘‘۔(محمد علی جناح کا 1947میں مسلمان صحافیوں سے خطاب)
قائد اعظم صحافت پر پابندیوں کے خلاف تھے، اسے حالات کی ستم ظریفی کہیں یا کچھ اور کہ خود قائد اعظم کی گیارہ اگست 1947 کی تقریر سنسر ہو گئی اور بعد میں آنے والی حکومتیں بھی پریس کا گلا گھونٹنے کے لیےمختلف ہتھکنڈے استعمال کرتی رہیں۔ اکتوبر 1948میں خواجہ ناظم ا لدین نے پبلک سیفٹی آرڈی نینس پر دستخط کر دیے ، اس کے ساتھ ہی1958تک نوآبادیاتی آقائوںکے پریس کے خلاف درج ذیل قوانین پاکستان میں استعمال ہوتے رہے:۔
٭دی سینٹرل پریس اسپیشل پاور ایکٹ1947کو صحافیوں کو ہراساں کرنے کےلیے استعمال کیا گیا۔
٭سیکورٹی آف پاکستان ایکٹ 1952کو حکومت کی خارجہ پالیسی کے خلاف لکھنے والوں کےلیے استعمال کیا گیا۔
٭…سیکورٹی ایکٹ 1950 کو ماہنامہ ادب لطیف کے خلاف استعمال کیا گیا اور زر ضمانت داخل کرنے پر مجبور کیا گیا۔ منٹو کی تحریریں شائع کرنے پرادب لطیف، سویرا اور نقوش جیسے جریدوں پر پابندی لگا دی گئی۔
1954میں غلام محمد نے پاکستان کی آئین ساز اسمبلی تحلیل کر دی۔ ستمبر 1954 میں پریس کمیشن بنایا گیا۔ پھر لوگوں کی آواز دبانے کے لیے پبلک آرڈر آرڈی نینس 1960 بنایا گیا۔اس قانون کی بدولت ایجنسیوں کو اخبارات کے دفاتر میں داخل ہونے اور نیوز پرنٹ کا کوٹہ روکنے کااختیار مل گیا۔ پاکستان ٹائمزکے ایڈیٹر فیض احمد فیض اور دیگرترقی پسند صحافیوں کو گرفتار کر لیا گیا اور ان کے ادارے PPL ،پاکستان پروگریسیو پیپرز لمیٹڈپر،جو ترقی پسند نظریات کا داعی تھا، قبضہ کر لیا گیا۔ 1958 میں ایوب خان نے مارشل لا لگا دیا۔
صحافیوں کےممتاز رہنما احفاظ ا لرحمن کے مطابق ایوب خان کے مارشل لا کے دوران پاکستان کے پریس کو بڑے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس دور حکومت میں 2ستمبر 1963کو سیاہ ترین قانون پریس اینڈ پبلی کیشنز امینڈمنٹ آرڈی نینس نافذ کیا گیا، ایسا سیاہ قانون برطانوی حکمرانوں نے بھی اپنے اقتدار کے دوران نافذ کرنے کی جرات نہ کی تھی۔حکمراں طبقے نے مارشل لا آرڈی نینس کے تحت آزاد اخبارات اور جرائد ،امروز اور لیل و نہار کو، جو پروگریسیو پیپرز کی ملکیت تھے ، اپنی تحویل میں لے کر مملکت کے چوتھے ستون پر بھر پور حملے کا آغاز کیا ۔اخبارات کو یکے بعد دیگرے وفادار صنعت کاروں اور تاجروں کے ہاتھوں نیلام کیا گیا۔
پریس کو کنٹرول کرنے کا بنیادی قانون دی پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈی نینس1963ایوب خان کے دور میں بنایا گیا جس نے اسی طرح کے 1960کے آرڈی نینس کی جگہ لی اور پھر بھٹو کے دور میں 1975اور 1976میں اس میں ترمیم کی گئی۔اس آرڈی نینس کا مقصد اس بات کو یقینی بناناتھاکہ پریس حکومت کی پالیسیوں کی عکاسی کرے۔یہ آرڈی نینس ہر اخبار کے پرنٹراور پبلشر کے لیےلازمی قرار دیتا ہے کہ وہ ایک مجوزہ فارم پر اس حوالے سے ڈیکلریشن کےلیے درخواست جمع کرائے، جس کی تصدیق ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کرے گاجو کسی بھی ایسے پرنٹر کو اجازت دینے سے انکار کر سکتا ہے جس کے بارے میں حکومت سمجھتی ہو کہ وہ اسے پاکستان کی سلامتی کے خلاف یا اشتعال انگیزی یا کسی کی عزت اچھالنے کے لیےاستعمال کرے گا۔اس کے بغیر اخبار چھاپنا جرم قرار پائے گا۔آرڈی نینس کے سیکشن67کے مطابق حکومت کے ان اختیارات کو کسی کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ہماری نسل کو یاد ہے کہ پرنٹ میڈیا کے عروج کے دور میں اخبار کا ڈیکلریشن حاصل کرنا کتنا بڑا کارنامہ سمجھا جاتا تھا۔
آئی اے رحمان جو پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر اور پھر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری رہے،ان کے مطابق 1958کے مارشل لا کے دوران سارے اداروں پر ریاست کی بالا دستی قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔اس کا آغازسنیما کو کنٹرول کرنے سے ہوا۔سنسر شپ ایکٹ کو دوبارہ تحریر کیا گیااور پابندیوں کو مزید سخت بنایا گیا۔ادیبوں پر بھی حملہ ہوا جس کا نتیجہ سرکاری سر پرستی میں رائٹرز گلڈ کے قیام کی شکل میں سامنے آیا۔اس کے بعد قانونی اداروں اور بار کونسلز کی باری آئی۔پریس کو کنٹرول کرنے کےلیےپاکستان نیشنل ٹرسٹ بنایا گیا جس نے اخبارات خرید کر انہیں براہ راست سرکاری کنٹرول میں لے لیا۔
پی ایف یو جے کے سابق صدر احفاظ ا لرحمن کے مطابق اس میں ملک کے کم و بیش چودہ ہفت روزہ جرائد اور روز ناموں کو شامل کیا گیا، جن میں پاکستان ٹائمز، امروز، مارننگ نیوزاور مشرق خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس زمانے میں اہم نیوز ایجنسی اے پی پی کو حکومت نے آرڈی نینس کے تحت اپنے کنٹرول میں لے لیا ۔بہ ظاہر یہ مقصد ظاہر کیا گیا کہ ایجنسی کے مالی اور انتظامی معاملات کو درست کرنا ہے، لیکن در پردہ مقصد ایک اہم نیوز ایجنسی کو اپنے قبضے میں لے کر من مانی خبروں کا اجراء تھا۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے)نے کھل کر ان آمرانہ اقدامات پر نکتہ چینی کی ۔ 1969میں جب پریس کمیشن کا قیام عمل میں آیاتو پی ایف یو جے نے کہا :’’موجودہ قوانین کا از سر نو جائزہ لینے کے ساتھ پریس کے لیےایک نیا قانون تیار کیا جائے جو ایک آزاد اور صحتمند پریس کے فروغ کی ضمانت دے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ عدلیہ کے ذریعے ٹھوس ضمانت دی جائے کہ کسی عدالت سے ریفرنس کے بغیر انتظامیہ کسی اخبار یا صحافی کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرے گی۔‘‘
’’پی ایف یو جے نے ممکنہ طور پر بھر پور قوت کے ساتھ پریس اینڈپبلی کیشنز آرڈی نینس کی مخالفت کی۔اس نے ایڈیٹروں اور مالکان اخبارات کے اشتراک سے 9ستمبر1963 کو ایک روزہ ملک گیر ہڑتال کی۔اس کی وجہ سے کچھ عرصہ تو حکومت خاموش رہی مگر 1966میں اس نے اسی قانون کے تحت ڈھاکا کے روزنامہ اتفاق پر پابندی عائد کر دی۔ اسی زمانے میں اخبار نویسوں اور فوٹو گرافروںپر حملہ کرنے کے رحجان میں اضافہ ہوا۔
ڈھاکا میں روزنامہ مارننگ نیوزاور روزنامہ دینک پاکستان کے دفاتر کو نذر آتش کیا گیا ، روزنامہ یونٹی چٹاگانگ، روزنامہ انصاف چٹاگانگ، اور روزنامہ کوہستان راولپنڈی اور لاہور کے دفاتر پر حملے کیےگئے اور چھاپہ خانے اور دیگر قیمتی سامان تباہ و برباد کر دیا گیا۔1969 میں یحییٰ خان کا مارشل لا لگنے تک ایوب حکومت پریس کے گلے میں پھندا تنگ کرتی چلی گئی۔حکومتی اقدامات کے خلاف صحافیوں نے 10دسمبر کو کامیاب ملک گیر ہڑتال کی۔
یحییٰ اور ان کے وزیر اطلاعات شیر علی کے دور میں سیاسی انتقام آرائی نے اس وقت سر اٹھایا جب پی ایف یو جے 1969کے اواخر اور 1970کے آغاز میں حکومت کے مقرر کردہ صحافیوں کے دوسرے ویج بورڈ ایوارڈ کے مطابق صحافیوں کو عبوری امداد دلانے کے لیےاپنی تاریخی جدو جہد شروع کرنے کی تیاری کر رہی تھی۔یہ ہڑتال پندرہ اپریل سے شروع ہونے والی تھی۔ اس سے دو ہفتہ قبل 14ایڈیٹروں اور مالکان اخبارات نے جن میں ندائے ملت لاہور کے مجید نظامی، نیو ٹائمز راولپنڈی کے زیڈ اے سلہری ،چٹان کے آغا شورش کاشمیری، پی پی آئی کے معظم علی،اور زندگی کے مجیب الرحمن شامی شامل تھے ،نے ایک مشترکہ اعلان جاری کیاجو تین اپریل کو شائع ہوا۔
اس اعلان میں انہوں نے تمام ’’محب وطن‘‘صحافیوں سے اپیل کی تھی کہ وہ پی ایف یو جے کے اس’’ سیاسی کھیل‘‘ سے دور رہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ایف یو جے کا غیر معینہ مدت کےلیے ہڑتال کا اعلان ملک کے سیاسی مستقبل کےلیے خطرناک ہے‘‘۔تاہم یہ رجعت پسند عناصر ہڑتال کو نہیں رکوا سکے جس کی تقریباََ تمام سیاسی جماعتوں ، طلبا اور اساتذہ کی تنظیموںاور ٹریڈ یونینوں نے حمایت کی تھی۔ہڑتال کے بعد اسّی فی صد صحافیوں اور دیگر ملازمین کو عبوری امداد مل گئی لیکن مالکان نے تقریباََ دو سو صحافیوں اور دیگر اخباری ملازمین کو بے روزگار کر دیا۔
20دسمبر 1971کو جب پیپلز پارٹی نے عنان اقتدار سنبھالی تو پی ایف یو جے کو اس سےبہت سی توقعات تھیں۔لیکن ایوب خان کے بعدذولفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت نے بھی پریس کی آزادی کےلیے کچھ نہیں کیااور ایوب خان کی پالیسیوں اور اداروں کو برقرار رکھا۔ اقتدار سنبھالنے کے صرف دو ماہ بعد ہی حکومت نے لاہور کے دوہفت روزوں ’’پنجاب پنچ‘‘ اور ’’زندگی‘‘اور ایک ماہنامہ’’ اردو ڈائجسٹ‘‘پر مارشل لا آرڈر کے تحت پابندی لگا دی اور ایڈیٹروں کو گرفتار کر لیا۔پی ایف یو جے نے ان کی گرفتاریوں پر احتجاج کیا اور ان کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
1972میں پی پی کی حکومت نے جنگ کوئٹہ کا نیوز پرنٹ کوٹا منسوخ کر دیا۔پھر نوائے وقت اور امروز سمیت بہت سےاخباروں کو اظہار وجوہ کے نو ٹس جاری کیے ۔ اسی سال جولائی میں ڈی پی آراورپریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈی نینس کے تحت روزنامہ ’’سن‘‘کراچی پر پابندی لگا دی گئی۔پی ایف یو جے نے اس کے خلاف احتجاج کے طور پر پورے ملک میں چوبیس جولائی کو ایک دن کی ہڑتال کی۔1973-75میں پی پی پی کی حکومت نے ڈان گروپ کےاخبار،روزنامہ حریت،نوائے وقت، ہفت روزہ الفتح کے سرکاری اشتہارات بند کر دیے ۔کئی دوسرے اخبارات اور جرائدکا ، جن میں روزنامہ جسارت کراچی،روزنامہ جمہور لاہور، ہفت روزہ چٹان لاہور ، روز نامہ فرنٹیر گارجین پشاور، ہفت روزہ آئوٹ لک، کراچی شامل ہیں، نیوز پرنٹ کا کوٹہ روک کر انہیں سزا دی گئی۔
ایک مرحلے پر ہفت روزہ الفتح کا نیوز پرنٹ کا کوٹہ بالکل منسوخ کر دیا گیا۔اس مدت کے دوران ڈان کے چیف ایڈیٹر الطاف گوہر گرفتار کرلیے گئے، رہائی کے بعد انہیں ڈان کے ایڈیٹرکے عہدےسےسبک دوش ہونے پر مجبور کیا گیا۔پی پی پی کی حکومت یکے بعد دیگرے اخبارات اور جرائد کو بند کرنے میں مصروف رہی۔پی ایف یو جے ان اقدامات کے خلاف احتجاج کرتی رہی۔تا ہم صحافی برادری بھٹو صاحب کے دور میں نافذ ہونےوالےقانون’’کنڈیشن آف سروس ایکٹ 1973کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے جس کے تحت صحافیوں کے لیےاجرت بورڈ کی تشکیل اور اس کے فیصلے پرعمل درآمد کے لیےامپلی مینٹیشن ٹریبونل کے قیام کو قانونی تحفظ حاصل ہوا۔
بھٹو حکومت کے دور میں صحافت پربُرا وقت آیا تھا،مگر ضیا الحق کے دور آمریت میں صحافت پر جو بیتی ،اس نے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔اتنا مشکل دور صحافت پر کبھی نہیں آیا تھا۔وہاب صدیقی،جو اس وقت الفتح کے ایڈیٹر تھے ،لکھتے ہیں کہ کالونی ٹیکسٹائل ملز، ملتان کے محنت کشوں کے قتل عام کی رپورٹ الفتح نے شائع کی تو اپریل 1978میں الفتح پر پابندی عائد کر دی گئی۔ان دنوں وہاب صدیقی کیمپ جیل لاہور میں مقید تھے۔فروری 1980میں سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر الفتح کی بحالی ہوئی۔
آج جنرل ضیا ء الحق کے سابق معتقدین بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ انہوں نے جن خوف ناک لعنتوں کو جنم دیا، ان کا زہر معاشرے کی رگ رگ میں اترچکا ہے ۔ان کے دور میں منشیات اور کلاشنکوف کلچر کو فروغ حاصل ہوا۔ضیا دور میں آزادیِ صحافت کو کچلنے کے لیےسیاہ ترین قوانین نافذکیے گئے۔متعدد اخبارات کی اشاعت پر پابندی عائد کی گئی۔ متعدد ایڈیٹروں کو گرفتار کیا گیا، بے شمار صحافیوں کو اخبارات سے برطرف کیا گیااور پی ایف یو جے کے خلاف ایک پاکٹ گروپ قائم کیا گیا۔
جسے رشید صدیقی گروپ کا نام دیا گیا۔ دیگر روایتی حربوں کے علاوہ ضیا الحق کی حکومت نے اخبارات کے خلاف پریس ایڈوائس،سنسرشپ اور پری سنسر شپ جیسے ہتھکنڈے بھی بڑی ڈھٹائی سے استعمال کیے۔پری سنسر شپ کے ضابطے کے تحت رات گئے کاپیوں کی پیسٹنگ مکمل کرنے کے بعد ادارتی عملے کے ارکان اپنے شہر میں انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کے دفتر پہنچتےتھے جہاں کوئی افسر کاپیوں کا بغور مطالعہ کرتااور اسے جو خبر یا خبر کا کوئی حصہ قابل اعتراض محسوس ہوتا ، اسے کاٹ کر پھینک دیا جاتا۔کچھ عرصے بعد ہی حکومت کو محسوس ہوا کہ خالی جگہیں دیکھ کر قارئین پر برا اثر پڑے گا، چنانچہ اخبارات کو یہ حکم جاری کیا گیاکہ جب آپ کا آدمی کاپیاں لے کر آئےتو خالی جگہیں پر کرنے کےلیے کچھ FILLERSبھی ساتھ لائے۔
اقتدار میں آنے کے کچھ ہی عرصے بعد جنرل ضیا ا لحق نے روز نامہ مساوات پر پابندی لگا دی اور ساتھ ہی پی ایف یو جے کو کچلنے کا بیڑا اٹھا لیا۔1977-78کے دوران آزادیء صحافت کے لیےسرگرم پی ایف یو جے کے کارکنوںپرعذاب کےدروازے کھول دیےگئے۔ اس دوران چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے چار سو سے زیادہ عامل صحافیوں ، اخباری کارکنوں اور ان کی حمایت میں سرگرم طلبا، مزدوروں اور ہاریوں کو گرفتار کیا گیا۔چار صحافیوں کو کوڑے لگائے گئے۔
بے نظیر بھٹو کے دور میں مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈی نینس کے تحت شام کے چھ اخبارات کی اشاعت پر پابندی لگائی گئی، جن کا تعلق کراچی سے تھا۔کے یو جے کی تحریک پر ایک ایکشن کمیٹی کا قیام عمل میں آیاجس میں اے پی این ایس اور سی پی این ای کے نمائندے بھی شامل تھے۔ یہ تحریک کامیاب رہی اور بہت جلد یہ پابندی اٹھا لی گئی۔
نواز شریف کی حکومت کے دورمیں دو بڑے واقعات رونما ہوئے۔فرائیڈے ٹائمز کے ایڈیٹر نجم سیٹھی کو گرفتار اور ہراساں کیا گیااور روزنامہ جنگ کی انتظامیہ کو دھمکیوں کا نشانہ بنایا گیاتا کہ حکومت کی من مانی شرائط قبول کر لی جائیں۔ دونوں معاملات میں پی ایف یو جے اور ایپنک نے بھر پور انداز میں ملک گیر تحریک منظم کی، جس کے نتیجے میں حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔
پرویز مشرف نے نجی ٹی وی چینلز کےلیےراستہ کھولا۔اس کے لیے لائسنس جاری کرنے اوران چینلزکو ریگولیٹ کرنے کے لئے پیمرا، یعنی Pakitan electronic media regulatory authority بنائی گئی۔یہ سوشل میڈیاکادورہے، گزشتہ سال اکتوبر میں پاکستان کی وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن نے غیر قانونی آن لائن مواد کو ہٹانے یا بلاک کرنے کے نام پر ایسے ضوابط بنائے ہیں جن سے حکام کو سوشل میڈیا پر ڈالی جانے والی کسی بھی عبارت کو کنٹرول یا سنسر کرنے کا اختیار مل گیا ہے۔ہمارے سینئر جناب محمود شام کا کہنا ہے کہ مشرف دور میں پرائیویٹ ٹی وی چینلوں کی اجازت کے بعد سے تو میڈیا ورکرز کی ملازمت غیر یقینی ہو گئی ہے۔
پی ایف یو جےیا اس کے یونٹوں کا اب موثر کردار نہیں رہا ہے۔ ٹی وی چینل میں ملازمت کی سیکورٹی بالکل نہیں ہے۔ کنٹریکٹ سسٹم ریگولر ملازمین پر غلبہ پا چکا ہے۔عمران خان کے دور میں میڈیا مالکان نے میڈیا کے واجبات کی عدم ادائیگی اور سرکاری اشتہارات میں کمی کا بہانہ بنا کرکے کئی اخبارات بند کر دئے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں اخباری کارکنوں کو یکمشت فارغ کر دیا گیا ہے۔ تنخواہیں کئی ماہ تاخیر سے ملتی ہیں۔پی ایف یو جے کے کئی دھڑے بن گئے ہیں۔
پاکستانی صحافت اب اس موڑ پر پہنچ گئی ہے کہ پاکستان کو صحافیوں کے لیےخطرناک ترین ملک قرار دیا جاچکاہے۔ ہر سیاسی جماعت جب حزب اختلاف میں ہوتی ہے تو اسے میڈیا بہت اچھا لگتا ہے، مگر جب حکومت میں آتی ہے تو وہی میڈیا اسے برا لگنے لگتا ہے۔ صحافیوں کو ریاستی اداروں کی جانب سے اغوا کرلیایا اٹھا لیا جاتا ہے، یوں ریاستی اداروں کی طرف سے صحافی برادری میں خوف و ہراس پیدا کیا جاتا ہے۔لیکن با ضمیر صحافی ڈرنے اور گھبرانے والے نہیں۔ وہ آزادیِ اظہار کا پرچم سر بلند رکھیں گے۔(نوٹ:اس مضمون کی تیاری میں احفاظ ا لرحمن کی کتاب ’’سب سے بڑی جنگ‘‘ سے مدد لی گئی)۔