؎کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کی خصوصی نشریات میں گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان بڑی غیر روایتی قسم کی شخصیت اور سیاستدان ہیں،انہوں نے اس پورے عمل کو ایک کرکٹ میچ کے طور پر لیا، شاید وہ یہی سمجھ رہے ہیں کہ آخری اوور اچھا ہوجائے گایا آخر میں کچھ وکٹیں گر جائیں گی،کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آج ایم کیو ایم کراچی کے مفاد کے لئے ان کے ساتھ ملی ہے کیا یہ جمہوریت کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں۔ خصوصی نشریات میں تجزیہ کار منیب فاروق، شاہزیب خانزادہ، ارشاد بھٹی،شہزاد اقبال اور سلیم صافی نے اظہار خیال کیا۔ سینئر صحافی ،تجزیہ کار، منیب فاروق نےکہا کہ یہ جتنے معاہدے ہوئے ہیں یہ شیئر کئے جائیں گے اس کے گارنٹی دینے والے موجود ہیں ایک جماعت دوسری جماعت کی گارنٹیر ہے ۔ اپوزیشن نے مطالبہ کردیا ہے اور وزیراعظم پارلیمان میں اپنی اکثریت کھو چکے ہیں تو پروقار طریقہ تو یہ ہونا چاہئے کہ وزیراعظم پاکستان کو اپنے عہدے سے علیحدہ ہوجانا چاہئے۔وزیراعظم اگر کسی معجزے کا انتظار کررہے ہیں کہ کوئی معجزہ ہوجائے۔خبریں آرہی ہیں کہ قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بھی بلایا جائے گااور جلد بلایا جائے عسکری قیادت کی بھی وزیراعظم پاکستان سے ملاقات ہوئی ہے۔کیا پارلیمان میں اکثریت کھونے کے بعد وزیراعظم پاکستان کا مینڈیٹ رہ جاتا ہے کہ وہ ان اہم اجلاسوں کی صدارت کریں۔وزیراعظم عمران خان بڑی غیر روایتی قسم کی شخصیت اور سیاستدان ہیں۔انہوں نے اس پورے عمل کو ایک کرکٹ میچ کے طور پر لیا ہے اور شاید وہ یہی سمجھ رہے ہیں کہ آخری اوور اچھا ہوجائے گایا آخر میں کچھ وکٹیں گر جائیں گی۔ اس طرح نہیں ہوتا یہ ایک اور پروسس ہے جب آپ کو واضح طو رپر پتہ چل جائے تو کچھ چیزیں زندگی میں پروقار طور پر بھی کرنی چاہئیں۔ کچھ لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ نواز شریف ، شہباز شریف کی سیاست ختم ہوگئی کسی پر مقدمات بنانے سے گھیرا تنگ کرنے سے سیاست ختم نہیں ہوتی۔سیاست ختم ہوتی ہے تو جب کسی ایک شخصیت کو لوگ پسند کرنا بھول جائیں ان کو ووٹ کرنا بھول جائیں تو تب سیاست ختم ہوتی ہے۔ اس لئے عمران خان کو بھی خود پر اور اپنی جماعت پر اتنا اعتما دہونا چاہئے کہ بے شک ان کی حکومت نہیں رہی ان کو اپنے آپ کو ری پوزیشن کرنا چاہئے۔ان کی سیاست بہت باقی ہے ان کو چاہئے کہ خود کو پوزیشن کریں اپوزیشن میں ایک جارحانہ رول ادا کریں ۔ سینئر صحافی ،تجزیہ کار، شاہ زیب خانزادہ نےکہا کہ اب تو یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ پر اعتماد بھی تھے اور واضح بھی کررہے تھے ایک جو پوری کی پوری صورتحال تھی کہ اتحادی کہاں جائیں گے ۔اب وزیراعظم کی حکومت اکثریت کھوچکی ہے اب نیشنل سیکورٹی کمیٹی کا اجلاس بلانے کی خبر بھی سامنے آرہی ہے عسکری قیادت سے ملاقات کرنے کی خبر بھی سامنے آرہی ہے۔یہ بھی بار بار کہا جارہا ہے کہ آخری وکٹ تک لڑیں گے تو جن اصولوں کی وہ بات کرتے ہیں پہلی بات وہ یہ کرتے تھے کہ میرے اراکین کو مجھ پر اعتماد نہیں ہوگااتحادیوں کو اعتماد نہیں ہوگاتو میں اپوزیشن میں جاکر بیٹھ جاؤں گا وہ بات غلط ثابت ہورہی ہے۔ان کی جماعت کے سب لوگ بھی ان کے ساتھ نہیں ہیں وہ پھر حکومت میں رہ کر فائٹ کرنا چاہتے ہیں اور آخری وقت تک فائٹ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ میں کسی سے بلیک میل نہیں ہوں گا اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کروں گاجس کو سب سے بہترین وزیراعلیٰ کہتے تھے اس سے استعفیٰ لے کر پرویز الٰہی سے وعدہ کرچکے ہیں ۔ ایم کیو ایم کو ہر چیز کی آفر کرچکے ہیں وزارتوں کے علاوہ گورنر شپ کی آفر کی بھی خبر آئی۔ پہلے وہ تقاریر میں بالواسطہ کہتے تھے کہ نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے وہ جب اس بات کا بار بار اظہار کررہے ہیں کہ عسکری قیادت کو بھی یہ خط دکھا دیا گیا ہے۔