• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رضوانہ وسیم

صارم ایک خوش شکل اور ذہین لڑکا تھا یہی وجہ تھی کہ اسکول کے ہر فنکشن میں، کھیل کے میدان اور تعلیمی سرگرمیوں میں سب سے آگے آگے رہتا تھا۔

گھر والے، رشتہ دار ، اساتذہ ز ہر اور محلے والے ہر کوئی اسے پسند کرتا تھا ، جہاں اس میں بے شمار خوبیاں تھیں وہاں ایک برائی بھی تھی۔ لوگوں کی تعریف وتوصیف کی وجہ سے وہ خود کو کسی اور ہی دنیا کی مخلوق سمجھنے لگا تھا اس لیے مغرو ہو گیا تھا۔

اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ بھی اس کا رویہ اچھا نہ تھا ۔ اس کا دوست شارق اسے اکثر سمجھاتا تھا کہ’’ صارم تم لوگوں سے اتنا اکڑ کر بات نہ کیا کرو اللہ کو یہ بات بری لگتی ہے‘‘۔ مگر صارم اپنے اسی رویے پر ڈٹا رہا وہ سمجھتا تھا کہ پورے اسکول میں اس سے زیادہ خوبصورت ذہین اور بہترین طالبعلم اور کوئی نہیں ہے۔

جو بچے پڑھائی میں کمزور تھے اور شکل میں معمولی تھے، صارم ان کا خوب مذاق اڑاتا ، روزانہ ہی اس کے ہاتھوں کسی نہ کسی لڑکے کی شامت آ جاتی تھی۔ اس کے رویے کو ٹیچرز بھی محسوس کر رہے تھے اور انہوں نے کئی بار صارم کو اپنے پاس بلا کر سمجھانے کی کوشش کی کہ’’ یہ اچھی بات نہیں ہے، سب انسان برابر ہیں کسی کو کسی پر برتری حاصل نہیں ہے،‘‘ مگر صارم ایک کان سے سُن کر دوسرے کان سے نکال دیتا وہ خود کو بہت زیادہ افلاطون سمجھنے لگا تھا وقت اسی طرح گزرتا گیا آخر امتحانات قریب آ گئے۔

سارے بچے امتحانات کی تیاری میں مصروف ہو گئے۔ صارم کیونکہ ذہین تھا، اس لیے اُس نے سوچاا کہ ابھی سے پڑھنے کی کیا ضرورت ہے میں تو ایک ہفتے میں بھی امتحان کی تیاری کر لوں گا اور آسانی سے اچھے نمبر بھی لے لوں گا اس لیے وہ سارا وقت کھیل کود میں وقت گزارتا ۔ ایک بار وہ گلی میں کرکٹ کھیل رہا تھا کہ بھاگتے میں وہ ایس گرا کہ اُس کا پاؤں بری طرح سے مڑ گیا، وہ تکلیف سے چلا رہا تھا۔ اس کے دوستوں نے فورا اس کے گھر پر اطلاع کی۔ گھر والے اسےاسپتال لے گئے، جہاں ایکسرے میں پتا چلا کہ اس کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے، لہذا اس کے پاؤں پر پلسترچڑھا دیا گیا۔ تین ماہ کے لئے پلستر بندھا تھا۔ 

اب وہ دن رات ایک بیڈ میں لیٹا رہتا تھا۔ یہ وقت گزارنا اس کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں تھا لیکن وہ مجبور تھا اب اسے رہ رہ کر اپنی زیادتیوں کا خیال آرہا تھا کہ کس طرح خود کو سب سے بر تر سمجھتا تھا، مگر آج اس کے تمام ساتھی تو آرام سے بھاگ دوڑ رہے تھے اور امتحان کی تیاری کر رہے تھے جب کہ وہ بستر پر پڑا آنسو بہا رہا تھا صارم کا دوست شارق طبیعت پوچھنے آیا تو صارم اس کے گلے لگ کر رونے لگا اور کہنے لگا مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے، حالانکہ تم نے مجھے کئی بار سمجھانے کی کوشش کی کہ غرور نہ کرو ،مگر نہ جانے میں کیوں نہیں سمجھا وہ شارق کے سامنے پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا شارق کو بھی بہت افسوس ہوا اس نے صارم کو تسلی دی کہ ،’’غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے، تمہیں احساس ہو گیا ہے تو اللہ سے سچے دل سے توبہ کرو اور ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرو۔ 

شکر ہے کہ تمہیں اس سے بڑا کوئی حادثہ پیش نہیں آ یا ،کم از کم یہ امید تو ہے کہ تین ماہ بعد انشاءاللہ تمہاری ٹانگ بالکل صحیح ہو جائے گی اور تم دوبارہ چل پھر سکو گے۔ اس حادثےکی وجہ سے اللہ نے تمھیں غرور جیسی بری عادت سے توبہ کرنے کی توفیق دے دی ہے۔ اللہ سے وعدہ کرو کہ آئندہ کبھی خود کو کسی سے برتر نہیں سمجھو گے۔ برتر توصرف اللہ کی ذات ہے۔‘‘ شا رق کی بات سن کر صارم کو بھی صبر آگیا اس نے اللہ سے توبہ کی اور بستر پر لیٹے لیٹے ہی امتحان کی تیاری شروع کر دی، تاکہ کم از کم امتحان میں اچھے نمبرز حاصل کر سکے ۔

بچو! آپ نے دیکھا کہ غرور کا سر ہمیشہ نیچا ہوتا ہے۔ ہماری ہر چیز اللہ کی عطا کی ہوئی ہے اس میں ہماری کوئی بڑائی نہیں ہے۔ اس لیے کسی بھی بات پر غرورنہیں کیجیئے گا۔