• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا اسپیکر آرٹیکل 5 کا حوالہ بھی دے تو تحریک عدم اعتماد مسترد نہیں کرسکتا؟ عدالت

عدم اعتماد کے معاملے پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت میں پیپلز پارٹی کی فل کورٹ بینچ بنانے کی استدعا پر چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا اسپیکر آرٹیکل 5 کا حوالہ بھی دے تو تحریک عدم اعتماد مسترد نہیں کرسکتا؟

چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے ملک کی آئینی سیاسی صورتحال پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ 

بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس منیب اختر، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی شامل ہیں۔

آج سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر ایک میں وکلاء اور سیاسی شخصیات بڑی تعداد میں موجود تھے، عدالت کے کمرہ میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ ایک بج کر 20 منٹ پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ مقررہ وقت سے 20 منٹ تاخیر سے آیا۔

تحریک عدم اعتماد کو اسپیکر رولنگ سے مسترد کر کے اسمبلیاں تحلیل کر نے سے پیدا ہونے والی آئینی و سیاسی صورتحال پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کا آغاز ہوا تو پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے استدعا کی کہ صدراتی ریفرنس کو موجودہ از خود نوٹس کے ساتھ سنا جائے، عمران خان نے اجازت دی ہے کہ یہ عرض کروں الیکشن کروانے کے لیے تیار ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا ہمارے سامنے سیاسی بیانات مت دیں۔

پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا اس کیس میں اہم آئینی سوالات بھی ہیں، فل کورٹ بنایا جائے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ کون سے آئینی سولات پر فل کورٹ کی ضرورت ہے؟ اگر آپ کو کسی پر عدم اعتماد ہے تو بتا دیں، ہم اُٹھ جاتے ہیں، ایک مقدمے پر 2 سال تک فل کورٹ کی وجہ سے 10 لاکھ کیسز کا بیک لاگ ہوگیا، اگر آپ کے پاس میرٹ پر کہنے کو کچھ ہے تو ٹھیک ورنہ ہم اُٹھ جاتے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا رولز کے مطابق تحریک عدم اعتماد پر 3 دن بحث ہونا تھی، اسپیکر نے بحث کے لیے کون سا دن دیا؟ ڈائریکٹ ووٹنگ کا دن کیسے دیا جا سکتا ہے؟

پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق نائیک نے کہا ووٹنگ سے پہلے بحث کروانے کا مطالبہ کیا گیا لیکن اسپیکر نے اجازت نہیں دی، اختیارات سے تجاوز کر کے ملک کو آئینی بحران میں دھکیل دیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا بحث کروانے کی اجازت نہ دینا تو پروسیجرل غلطی ہوئی۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا 3 اپریل کو ڈپٹی اسپیکر صرف پریزائیڈنگ افسر تھے، رولنگ جس خط کو بنیاد بنا کر دی گئی اسے پارلیمنٹ کے سامنے نہیں رکھا گیا، رولنگ یہ کہہ رہی ہے کہ 198 ارکان قومی اسمبلی غدار وطن ہیں، تین منٹ سے کم وقت میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد مسترد کی گئی۔

چیف جسٹس نے کہا جذباتی باتیں نہ کریں، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیرقانونی کیسے ہے؟ فاروق ایچ نائیک نے کہا اگر ارکان اسمبلی کی اکثریت تحریک کے حق میں ووٹ دے تو وزیراعظم عہدے سے فارغ ہوجاتا ہے، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ آئینی خلاف ورزی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا آپ کا مدعا یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کو غیرقانونی پہلے قرار دیا جا سکتا تھا، 3 اپریل کو صرف ووٹنگ ہوسکتی تھی، مسترد نہیں کی جا سکتی تھی، کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ڈپٹی اسپیکر کے پاس رولنگ دینے کا اختیار نہیں تھا، اسپیکر کا اسمبلی کارروائی چلانے میں اہم کردار ہے۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ یہ بات بھی اہم ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کیسے اسپیکر کا رولنگ کا اختیار استعمال کر سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا ان سوالات کے جواب دینا ہوں گے کہ اسپیکر کسی بھی قرارداد کی قانونی حیثیت کب دیکھ سکتا ہے؟ کون سے مقام پر اسپیکر تحریک کے قانونی یا غیر قانونی ہونے پر رولنگ دے سکتا ہے؟ اسپیکر کے پاس کیا کوئی اختیارات نہیں کہ وہ تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرسکے؟ آرٹیکل 69 میں اسپیکر کو کس حد تک آئینی تحفظ حاصل ہے؟

فاروق نائیک کے دلائل پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ بدنیتی پر مبنی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا آپ جو کیس لے کر آئے ہیں یہ واضح طور پر پارلیمنٹ کی کارروائی سے متعلق ہے، اسمبلی کے اندر کی کارروائی میں سپریم کورٹ کیسے مداخلت کر سکتی ہے سکتی؟

فاروق ایچ نائیک نے کہا آرٹیکل 69 کی زبان میں اگر اسپیکر پروسیجرل غلطی کرے تو اس کو تحفظ حاصل ہے، ہمارا کیس اسپیکر کی پروسیجرل غلطی کا نہیں آئینی خلاف ورزی کا ہے، رولنگ میں لکھا گیا ہے کہ ممبران کا تعلق بیرون ملک سازش سے ہے، اگر اسپیکر کی رولنگ کو مسترد نہ کیا گیا تو مستقبل میں سنگین نتائج ہوں گے، صدر نے عبوری حکومت کے قیام تک عمران خان کو قائم مقام وزیراعظم مقرر کیا ہے، عدالت جلد فیصلہ دے۔

چیف جسٹس نے کہا ہم بھی جلد فیصلہ دینا چاہتے ہیں لیکن ہم ہوا میں فیصلہ نہیں دے سکتے تاہم عدالت مناسب حکم دے گی۔ اسپیکر رولنگ میں کہا گیا کہ سفارتی خط سے متعلق پارلیمانی کمیٹی میں اپوزیشن کو شرکت کا کہا گیا لیکن اپوزیشن نہیں گئی، پارلیمانی کمیٹی اور پارلیمانی کارروائی کا کیا تعلق ہوتا ہے یہ بھی بتائیے گا۔

ن لیگ کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے 6 اپریل کو ووٹنگ کروانے کا حکم دینے کی استدعا کی تو چیف جسٹس نے کہا ایڈووکیٹ جنرل پنجاب وزیراعلیٰ کے انتخاب سے متعلق ہدایات لے کر جواب جمع کروائیں۔

ازخود نوٹس کیس کی مزید سماعت منگل دن 12 بجے تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

قومی خبریں سے مزید