اتوار کے روز قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری نے جس انداز سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کو ملک کے داخلی و پارلیمانی معاملات میں بیرونی مداخلت کا شاخسانہ اور غیر آئینی قرار دے کر بغیر ووٹنگ مسترد کرتے ہوئے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کیا، اس کے بعد واقعات کا ایک سلسلہ ہے۔ وزیراعظم نے ٹی وی اسکرین پر نمودار ہو کر غیرملکی سازش ناکام ہونے پر قوم کو مبارکباد دی۔ صدر مملکت کی جانب سے وزیراعظم کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی کی تحلیل عمل میں آئی۔ نگران عبوری حکومت کے قیام کے لیے مشاورت کی غرض سے اپوزیشن لیڈر کو خط لکھنے کی اطلاعات سامنے آئیں۔ حزبِ اختلاف نے قومی اسمبلی میں احتجاج کیا اور ایاز صادق کو اسپیکر کی نشست پر بٹھا کر تحریک عدم اعتماد کے حق میں 197اراکین کی عددی اکثریت عوام پر واضح کی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ سے معاملے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔ چیف جسٹس کی طرف سے پہلے ساتھی ججوں کو گھر پر بلا کر مشاورت پھر سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس کیس کی تین ججوں پر مشتمل خصوصی بنچ میں سماعت اور پیر سے پانچ رکنی لارجر بنچ میں سماعت کے فیصلے سمیت معاملات کی ایک تفصیل ہے جسے مختصر لفظوں میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ وطن عزیز ایک سنگین آئینی و سیاسی بحران سے دوچار ہو چکا ہے اور عدالتِ عظمیٰ کے فاضل جج صاحبان اس معاملے پر فوراً توجہ نہ دیتے تو معاملات زیادہ گمبھیر ہونے کے خدشات تھے۔ معاملات اتوار کے روز ہی اس مقام پر پہنچے محسوس ہورہے تھے جہاں سپریم کورٹ کا فوری نوٹس لینا ضروری ہو گیا تھا۔ اب عدالتِ عظمیٰ ہی اس باب میں رہنمائی کرے گی کہ الجھی ہوئی گتھی کو سلجھا کر ملک کو سنگین افراتفری اور انارکی کے خدشات سے کیسے بچایا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے تحریک عدم اعتماد بغیر ووٹنگ مسترد کیے جانے کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران ریاستی عہدیداروں کو کسی بھی ماورائے آئین اقدام سے روکتے ہوئے صدر مملکت، اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی اٹارنی جنرل، سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری دفاع، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور تمام متعلقہ سیاسی جماعتوں کو نوٹسز جاری کیے جبکہ متعلقہ عہدیداروں سے امنِ عامہ کی صورت سے متعلق رپورٹ طلب کی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل بنچ نے ایک مختصر فیصلے میں ریاستی عہدیداروں کو کسی بھی ماورائے آئینی اقدام سے روک دیا ہے جبکہ منصفِ اعلیٰ نے اپنے ریمارکس میں واضح کیا ہے کہ وزیراعظم اور کابینہ کے اقدامات عدالتِ عظمیٰ کے تابع ہوں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس معاملے کی آڑ میں ملک میں امن و امان کی صورتحال خراب نہیں ہونی چاہیے۔ چیف جسٹس کے بموجب کئی ججوں نے ان سے مل کر سوال اٹھایا کہ ڈپٹی اسپیکر بغیر فائنڈنگ کے آئین کے آرٹیکل 5کے تحت رولنگ کیسے دے سکتے ہیں۔ (واضح رہے کہ آرٹیکل 5مملکت سے وفاداری، دستوری و قانون کی اطاعت سے متعلق ہے)۔ وہ سیاسی مرحلہ جو تحریک عدم اعتماد سے شروع ہوا تھا ڈرامائی انداز میں قومی اسمبلی کی تحلیل، گورنر پنجاب کی برطرفی، ڈپٹی اٹارنی جنرل سمیت کئی اہم عہدیداروں کے استعفوں سے ہوتا ہوا بعض امور کے تصدیق و تردید کی طرف بڑھتا محسوس ہورہا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ میں تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد اسمبلی توڑنے کے اقدام سے لے کر اس مبینہ دھمکی آمیز تحریر کے اصلی ہونے سمیت متعدد سوالات سامنے آ سکتے ہیں جو درحقیقت خط نہیں ڈپلومیٹک کیبل ہے۔ اس وقت پورا معاملہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے پاس ہے۔ وہی اپنے طریق کار کے مطابق تمام فریقوں کے بیانات لے کر چھان پھٹک کرے گی اور وہی موجودہ بحران سے نکلنے کے سلسلے میں آئینی رہنمائی کرے گی۔