شاعری کی دیگر خوبیاں اپنی جگہ لیکن شاعری کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ ہمیں لفظوں کے صحیح اور بر محل الفاظ کے استعمال کا شعور دیتی ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھنا چاہے کہ کسی خاص مفہوم کے لیے ٹھیک وہی لفظ کیسے لایا جائے جو لانا چاہیے اور وہ مفہوم بھی کم سے کم الفاظ میں کس طرح ادا کیا جائے تو اسے چاہیے کہ بڑے شاعروں کے کلام کا غور سے مطالعہ کرے۔
الفاظ کے استعمال میں کفایت صرف شاعری ہی نہیں بلکہ نثر کی بھی بڑی خوبیوں میں سے ہے ۔ جب کسی عبارت یا مصرعے میں کوئی لفظ ضرورت سے زیادہ استعمال کیا جائے تو وہ ایک عیب بن جاتا ہے۔ اگر کوئی ایک لفظ بھی تحریر میں زائد یا غیر ضروری استعمال کیا جائے تو تربیت یافتہ ذوق کا حامل شخص چونک پڑتا ہے۔
اس ضمن میں ایک اصطلاح حشو استعمال ہوتی ہے۔ حشو (ح پر زبر ، ش اور واو ساکن) عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے لفظی معنی ہیں بھرتی یا بھراؤ، یعنی وہ چیز جو کسی چیز میں بھری جائے ۔ علم ِ معانی کی اصطلاح میں حشو سے مراد ہے غیر ضروری لفظ جو کسی تحریر میں بھر دیا جائے۔ جب کسی لفظ کے حذف کردینے سے عبارت کے مفہوم میں خلل واقع نہ ہوتو اس لفظ کو حشو کہتے ہیں ۔ حسرت موہانی نے اپنی کتاب نکات ِ سخن میں معائب ِ سخن کے تحت لکھا ہے کہ حشو اس زائد لفظ کو کہتے ہیں جس کے حذف کرنے سے کلام میں حسن پیدا ہوجائے۔ اس کی مثال میں حسرت نے میر تقی میر کا یہ شعر درج کیا ہے:
آخر ہماری خاک تو برباد ہوگئی
اس کی ہوا میں ہم پہ تو بیداد ہوگئی
اور لکھا ہے کہ اس میں لفظ ’’ تو ‘‘بالکل زائد ہے اور اسی کو حشو کہتے ہیں اور یہی معیوب سمجھا جاتا ہے(یاد رہے کہ لفظ ’’تو‘‘ نکال دینے کے بعد وزن پورا کرنے کے لیے کوئی اور لفظ لانا پڑے گا جیسا کہ اگلی مثال سے ظاہر ہے )۔
خواجہ عبدالرئوف عشرت لکھنوی نے لکھا ہے کہ حشوِ قبیح وہ لفظ ہے جس کے نکال ڈالنے سے شعر کے معنی میں فرق نہ آئے ۔ پھر یہ مثال دی ہے:
ہم کو مٹا چکا فلکِ ظلم آفریں
اب تم مٹا رہے ہو ہمارے مزار کو
اور بتایا ہے کہ ’’پہلے مصرعے میں ’’ہم کو ‘‘ حشو ِ قبیح ہے ، اس کو نکال ڈالو تو بھی معنی قائم رہتے ہیں کیونکہ دوسرے مصرعے میں ’’ہمارے ‘‘ کا لفظ موجود ہے۔دو جگہ ایک ضمیر کا بے ضرورت لانا حشو میں داخل ہے۔ ’’ہم کو ‘‘ کے بدلے ‘‘پہلے ‘‘ لکھ دو تو شعر میں جان پڑجائے‘‘۔
دوسری اصطلاح زوائد ہے۔ یہ زائدہ کی جمع ہے اور زائد ہ یا زائد عربی میں زیادہ یا ضرورت سے زیادہ یا اضافہ شدہ کو کہتے ہیں۔شعر و ادب اور زبان کے عام استعمال میں حشوو زوائد کی بعض مثالیں بہت دل چسپ ہیں ، مثلاً:
٭گول دائرہ ؟
دائرہ تو ہوتا ہی گول ہے۔دائرے کے ساتھ لفظ گول لکھنے کی کوئی تُک نہیں۔لیکن یہ غلطی اہل ِ علم سے بھی ہوجاتی ہے۔
شمس الرحمٰن فاروقی صاحب نے جب اردو لغت بورڈ کی لغت کی پہلی جلد پر تنقید کی تو اس میں جن اندراجات پر اعتراضات کیے ان میں لفظ ’’ایمفی تھیٹر ‘‘ بھی شامل تھا۔ انھیں پہلا اعتراض تو یہ تھا کہ اس انگریزی لفظ کو اردو لغت میں لکھنے کی کیا ضرورت تھی، یہ اردو کا لفظ نہیں ہے ۔ دوسرا اعتراض انھوں نے اس کی تشریح پر کیا۔ بورڈ نے ’’ایمفی تھیٹر ‘‘کی تشریح میں لکھا ہے ـ : گول دائرے میں بنا ہوا مسقف ہال۔
فاروقی صاحب کا اعتراض یہ تھا کہ ایمفی تھیٹر نہ دائرے میں بنا ہوتا ہے ، نہ مسقف (یعنی چھت والا)ہوتا ہے ، نہ ہال ہوتا ہے۔ لیکن ’’گول دائرے ‘‘پرانھوں نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ’’یہ گول دائرہ بھی خوب رہی۔شاید چوکور دائرہ بھی ہوتا ہے ‘‘۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی