پاکستان کی خاتونِ اول تہمینہ درانی سماجی کارکن ، عبدالستار ایدھی کی بیوہ اور پاکستان میں سب سے زیادہ فعال مخیر حضرات میں سے ایک ’مادرِ پاکستان‘ بلقیس ایدھی کی وفات پر شدید صدمے سے دوچار ہیں۔
تہمینہ درانی کے حالیہ سوشل میڈیا پر جاری پیغامات ان کے جذبات کی عکاسی کررہے ہیں، ایدھی گھرانے سے خصوصی رغبت رکھنے والی تہمینہ درانی اپنے غم کا اظہار کرتی دکھائی دے رہی ہیں اور بلقیس ایدھی کو زبردست خراج عقیدت بھی پیش کررہی ہیں۔
انہوں نے بلقیس ایدھی کے ہمراہ خوشگوار موڈ میں لی گئی ایک تصویر شیئر کی جس میں انہوں نے کہا کہ ’آج میں نے اس عورت کو کھو دیا جو میری ماں بنی تھی جب مجھے سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ پوری دنیا اپنا ایک قیمتی اثاثہ کھو بیٹھی۔‘
بلقیس ایدھی سے حالیہ ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے تہمینہ درانی نے کہا کہ ’میں میٹھادر سے اس یقین کے ساتھ واپس آئی تھی کہ ہم دوبارہ ملیں گے، افسوس میں آخری الوداع کہنے کے لیے واپس وہاں جارہی ہوں۔‘
انہوں نے ہیش ٹیگ ’بلقیس ایدھی‘ کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ’بلقیس ایدھی صرف ایک عورت تھی… لیکن کیا عورت تھی!‘
بعد ازاں خاتونِ اول نے بلقیس ایدھی کی میت کے ساتھ تصاویر جاری کیں جن میں فیصل، کبریٰ اور الماس ایدھی کو بھی ساتھ بیٹھے دیکھا جاسکتا ہے۔
’بلقیس کی غیرمعمولی خاموشی ہر دل میں گرج چمک کا طوفان بنی ہوئی ہے۔‘
بلقیس ایدھی کی میت کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا ناممکن کیوں تھا؟
خاتونِ اول نے بلقیس ایدھی کی میت کے ساتھ بیٹھے تصویر کے کیپشن میں لکھا کہ ’اگرچہ ہم ساری رات ان کے پاس بیٹھے تھے، لیکن ہم نے محسوس کیا کہ انہیں دیکھنا ناممکن ہے… یہ بلقیس ایدھی کے روشن و نورانی چہرے کی چمک تھی جو ہمیں ٹکٹکی باندھ کر انہیں نہیں دیکھنے دے رہی تھی۔
یاد رہے کہ پاکستان کے نامور فلاحی ادارے ایدھی فاؤنڈیشن کی شریک سربراہ بلقیس ایدھی 74 سال کی عمر میں کراچی کے نجی اسپتال میں دوران علاج چل بسیں، جہاں وہ ایک ماہ سے زیر علاج تھیں۔
ترجمان ایدھی فاؤنڈیشن کے مطابق بلقیس ایدھی عارضہ قلب سمیت دیگر امراض میں مبتلا تھیں۔
رمضان سے 2 دن پہلے انہیں دل کا دورہ بھی پڑا تھا، اس کے بعد سے وہ اسٹیڈیم روڈ پر واقع نجی اسپتال میں زیر علاج تھیں۔
انہوں نے ساری زندگی اپنے عظیم شوہر عبدالستار الستار ایدھی کے ساتھ دُکھی انسانیت کی خدمت میں گزاری۔
پاکستان کے سب سے بڑی سماجی تنظیم کے سربراہ عبدالستار ایدھی کے انتقال کے بعد بلقیس ایدھی فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن بنی تھیں۔
وہ 14 اگست 1947 کو بھارتی ریاست گجرات کے شہر بانٹوا میں پیداہوئیں اور پھر فیملی کے ساتھ ہجرت کرکے کراچی آبسیں۔
عبدالستار ایدھی سے اُن کی شادی 1966 میں ہوئی اور 50 سالہ رفاقت 2016ء میں ایدھی کے انتقال تک جاری رہی۔
حکومت پاکستان نے انہیں شاندار سماجی خدمات پر ہلال امتیاز کےا عزاز سے نوازا ، انہیں روسی حکومت کی طرف سے لینن پیس پرائز بھی ملا ۔
بھارتی لڑکی گیتا کی دیکھ بھال کرنے پر بھارت نے انہیں مدر ٹریسا ایوارڈ 2015 سے نوازا تھا۔
انہوں نے سوگواروں میں فیصل ایدھی، کبریٰ ایدھی، کتب ایدھی اور الماس ایدھی کو چھوڑا ہے۔
وزیراعظم پاکستان شہباز شریف، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بلقیس ایدھی کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے مرحومہ کی سماجی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا اور ان کی مغفرت کی دعا کی ہے۔