لاہور (نمائندہ جنگ، مانیٹرنگ ڈیسک) پنجاب میں اسمبلی میں جنگ کے بعد افطاری کے قریب حمزہ شہباز بالآخر وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے، اجلاس شروع ہوتے ہی پی ٹی آئی اور ق لیگی نے ارکان نے ڈپٹی اسپیکر پر حملہ کرکے تشدد کیا، کرسی سے گرادیا، پرویز الٰہی بھی جوابی حملے میں زخمی ہوگئے، پولیس طلب، 4ارکان اسمبلی گرفتار، پنجاب اسمبلی دن بھر میدان جنگ بنی رہی، دن بھر لڑائی جھگڑے کے بعد پی ٹی آئی اور ق لیگ وزیراعلیٰ کے انتخاب کا بائیکاٹ کر دیا، شہباز شریف کو 197ووٹ ملے، پرویز الٰہی کو شکست ہوئی، پرویز الٰہی کا کہنا ہے کہ اسمبلی میں کیا ہونا ہے عدلیہ طے نہیں کرسکتی، دوست محمد مزاری نے کہا یہ گجرات نہیں یہاں صرف قانون چلے گا، اپوزیشن ارکان لگژری بسوں میں اسمبلی پہنچے، پی ٹی آئی ارکان کے’’ہمارے لوٹے واپس کرو‘‘ کے نعرےلگائے۔ تفصیلات کےمطابق پنجاب اسمبلی میں ہنگامہ آرائی اور مار دھاڑ کے بعد ہونے والے وزیراعلیٰ کے انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوگئے۔ تحریک انصاف اور ق لیگ کے بائیکاٹ کے بعد ایوان میں ووٹنگ کا عمل شروع ہوا، حمزہ شہباز کو 197 ووٹ پڑے جبکہ پرویز الٰہی کو کوئی ووٹ نہیں پڑا۔قبل ازیں پنجاب اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی زیر صدارت دن ساڑھے 11 بجے شروع ہونا تھا تاہم پہلے حکومتی اراکین کے اسمبلی ہال نہ پہنچنے کے باعث اجلاس تاخیر کا شکار ہو ا۔اسمبلی اراکین کو ایوان میں بلانے کیلئے گھنٹیاں بجائی جاتی رہی ہیں لیکن سخت سیکورٹی انتظامات کے دعوئوں کے باوجود حکومتی خواتین اراکین اسمبلی میں اپنے ساتھ لوٹے بھی لے آئیں اور انہوں نے لوٹے لوٹے کے نعرے لگانا شروع کر دیئے بعض مردو خواتین اراکین اسمبلی سیٹیاںبھی بجاتے رہے۔ اُن کا موقف تھا کہ منحرف اراکین کو ووٹ نہیں ڈالنے دینگے، بلے کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے کیسے اپنی وفاداری تبدیل کرسکتے ہیں، جسکے باعث ایوان میں شور شرابہ شروع ہوگیا۔بعد ازاں جب ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری پنجاب اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کیلئے ہال میں پہنچے تو حکومتی اراکین کی جانب سے انکی جانب لوٹے اچھالےگئے اور انکی ڈائس کا گھیراؤ کیا گیا، حکومتی اراکین کی جانب سے دوست محمد مزاری کو تھپڑ مارے گئے اور انکے بال بھی نوچے گئے، سیکورٹی اسٹاف اور اپوزیشن اراکین نے ڈپٹی اسپیکر کو حکومتی اراکین سے بچایا جسکے بعد وہ واپس اپنے دفتر میں چلے گئے۔ اس موقع پر آئی جی پنجاب، پولیس کمانڈوز کے ہمراہ اسمبلی پہنچ گئے، پولیس اہلکاروں کے اسمبلی میں داخلے پر پی ٹی آئی ارکان نے احتجاج کیا،پولیس کی بھاری نفری ڈپٹی اسپیکر کے چیمبر میں بھی پہنچ گئی۔ بعد ازاں اسپیکر کے احتجاج پر پولیس کو اسمبلی لابی سے باہر نکال دیا گیا، حکومتی اراکین نےآئی جی پنجاب پولیس کیخلاف تحریک استحقاق جمع کرادی، تحریک استحقاق میں کہا گیا کہ پنجاب اسمبلی کے ایوان میں پولیس کیوں آئی ،پولیس کو ایوان کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی، پولیس کو ایوان میں لاکر ایوان کا تقدس پامال کیا گیا ہے، پولیس سے آئین اور پارلیمانی روایات پامال کرنے پر جواب طلب کیا جائے۔ اسمبلی میں پیدا ہونے والی صورتحال پر سیکرٹری اسمبلی نے ڈپٹی اسپیکر کو خط لکھا کہ مہمانوں کو اسپیکر گیلری میں آنے کی اجازت نہ دی جائے، کوئی بھی شخص چھلانگ لگا کر ایوان میں داخل ہو سکتا ہے اور سیکورٹی سے متعلق جو پہلے فیصلے ہوئے تھے ان ہی پر عملدرآمد کیا جائے،جسکے مطابق 10 مہمان کسی بھی سیاسی پارٹی کے ساتھ آنے کی اجازت تھی۔ بعدازاں ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری نے پنجاب اسمبلی کا دوبارہ اجلاس بلانے کی ہدایت کردی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے زدوکوب کرکے امن وامان سبوتاژ کیا گیا، وزیراعلیٰ کے انتخاب کا اجلاس آج ہی ہوگا، تشدد میں ملوث افراد کیخلاف قانونی کارروائی ہوگی۔ میں اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے چیف سیکریٹری اورآئی جی پنجاب کو خط لکھا ہے کہ مجھے زدوکوب کرکے امن وامان سبوتاژ کیا گیا، تشدد میں ملوث افراد کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے، پنجاب اسمبلی کے آج کے اجلاس کے انعقاد کو یقینی بنایا جائے۔ اسی طرح ڈپٹی اسپیکر اور آئی جی پنجاب کے درمیان ملاقات ہوئی۔ ڈپٹی اسپیکر نے تشدد مین ملوث اراکین کیخلاف قانونی کارروائی کی ہدایت کی۔