قانون کی برتری کی علمبردار گلابی پتھر کی خوبصورت پر وقار پر شکوہ عمارت کورٹ روڈ (پرانا نام کنگس وے )، اور کمال اتاترک روڈ کے سنگھم پر واقع ہے ،سندھ سیکریٹریٹ اور سندھ اسمبلی کے درمیان 10ایکڑ رقبے پر تعمیر اس عمارت کو اپنے زمانے کے جدید فن تعمیر کا شاہکار کہا جاتا ہے اس کو رومن طرز تعمیر پر جو دھپور کے سرخ پتھروں سے تعمیر کیا گیا ہے اس عمارت کی بنیاد اتنی اونچی ہے کہ اس کی ایک منزل زمین دوز ہے اس کی پہلی منزل تک پہنچنے کے لئے درجنوں سیڑھیوں چڑھنا پڑتی ہیں۔
سندھ ہائی کورٹ پہلی منزل پر واقع ہے اس کی تعمیر پر 30 لاکھ 55 ہزار روپے کی لاگت آئی تھی اس کی تعمیر 1923 میں شروع ہوئی تھی اگرچہ یہ عمارت 1928 میں مکمل ہوچکی تھی تاہم اس کا باضابطہ رسم افتتاح 22 نومبر 1929 کو بمبئی کے گورنر سر فریڈریک نے کیا تھا سندھ ہائی کورٹ جس مقام پر تعمیر کیا گیا ہے وہاں برطانوی فوج کا توپ خانہ پریڈ کا میدان ہوا کرتا تھا۔
سندھ ہائی کورٹ کی اس پر شکوہ عمارت کو دیکھ کر بیتے دن یاد آگئے
1937میں سندھ کی تاریخ میں پہلی بار منعقد ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی سندھ اسمبلی کا پہلا اجلاس موجودہ ہائی کورٹ بلڈنگ میں ہوا تھا جبکہ سندھ اسمبلی بلڈنگ کی تعمیر سے پہلے بھی کئی اجلاس اس عمارت میں ہوئے تھے۔ عدالت عالیہ کے ایک کمرے میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے ستمبر 1930 کو پیرپگاڑا سید صبغت اللہ شاہ کے مقدمہ کی پیروی کی تھی جبکہ مقدمہ میں سی ایم لوبو انکے حریف سرکاری وکیل تھے۔ عدالت کےمرکزی دروازے کے سامنے 1931 میں مہاتما گاندھی کا مجسمہ نصب کیا گیا تھا۔ لیکن جنوری 1948 میں اسے کراچی میں ہندو مسلم فسادات کے دوران ہٹادیا گیا۔
مختلف تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ فسادات کے دوران قائد اعظم کا ہائی کورٹ سے گزر ہوا تو انہوں نے اپنے سیکرٹری ایس ایم یوسف سے کہا کہ وہ اس مجسمے کو کسی محفوظ مقام پر منتقل کروادیں۔ ایس ایم یوسف نے اس سلسلے میں مشہور پارسی رہنما اور کراچی کے پہلے میئر جمشید نسروان جی کی مدد مانگی۔ جمشید نے بی وی ایس پارسی اسکول کے طلبہ کے ذریعے یہ مجسمہ ہائی کورٹ کے سامنے سے نکلواکر مشہور کالم نگار ارد شیرکاوس جی کے والد کے بنگلے میں منتقل کروایا اور پھر اسے بی وی ایس اسکول میں رکھوا دیا تھا۔
اس واقعے کے دس بارہ برس بعد جب کراچی میں بھارت کا سفارت خانہ تعمیر ہوا تو گاندھی جی کا یہ مجسمہ اس سفارت خانے کی زینت بن گیا ۔ 1988 میں بھارتی سفارت خانہ اسلام آباد منتقل ہوا تو مجسمہ بھی ساتھ ہی لے جایا گیا اور اب تک وہیں موجود ہے۔ مجسمہ جس جگہ نصب تھا ان دنوں یہ مقام کبوتر چورنگی کے نام سے مشہور ہے۔ عدالت عالیہ کی تاریخی عمارت کو ہفتے میں کئی مرتبہ دیکھنے کا اتفاق ہوتا ہے تاہم پہلی مرتبہ 14اگست 1978 کو والد گرامی سید شاہ محمد خلیل اللہ جنیدی مرحوم کے ہمراہ دیکھنے کا موقع ملا تھا اس وقت میں اسکول میں زیر تعلیم تھا۔
والد صاحب مرحوم نے مجھے اس روز ریڈیو پاکستان کراچی، مہتہ پیلس اور کلفٹن میں جہانگیر کوٹھاری پریڈ سمیت کئی تاریخی عمارات دکھائی تھیں جبکہ عدالت عالیہ کی اس عمارت مین میرے چھوٹے دادا شاہ جمیل عالم مرحوم بحثیت ڈپٹی اٹارنی جنرل کافی عرصے خدمات انجام دیتے رہے ہیں آج حسب معمول سندھ سیکریٹریٹ جانا ہوا تو واپسی پر سندھ ہائی کورٹ کی اس پر شکوہ عمارت کو دیکھ کرماضی کے وہ بے فکری کے دن یاد آگئے۔