• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ڈاکوؤں سے لڑنے والے پولیس اہلکار نظر انداز کیوں؟

سندھ میں اگر صوبائی محکموں کی بات کی جائے، تو محکمہ داخلہ صوبائی حکومت کے ماتحت ادارہ ہے، جو کہ تمام محکموں سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل اس حوالے سے بھی ہے کہ سندھ پولیس اس کے ماتحت کام کرتی ہے اور محمکہ پولیس دیگر محکموں کی نسبت اس لیے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ صوبے میں امن و امان کی فضا کو بحال رکھنا، عوام کی جان و مال کا تحفظ اور کسی بھی ناخوش گوار واقعے سے نمٹنے کے لیے محکمہ پولیس کے افسران اور جوان ہمہ وقت الرٹ رہتے ہیں۔ 

شہری علاقوں میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی ہو یا کچے کے جنگلات میں ڈاکوؤں کی سرکوبی ، منشیات فروشوں کے خلاف آپریشن ہو یا پھر معاشرتی برائیوں کا خاتمہ ہو، ٹریفک یا دیگر معاملات ان میں پولیس کا کردار ہمیشہ سے نمایاں رہا ہے۔ اس محکمے میں 35 سے 40 سال تک نوکری کرنے کے باوجود ہزاروں کانسٹیبل اگلے ایک بھی رینک میں ترقی کیے بغیر کانسٹیبل ہی ریٹائر ہوجاتے ہیں، آخر ان کا قصور کیا ہے۔ اس ماہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں ایس ایس پی شکارپور تنویر حسین تنیو نے 250 سے زائد پولیس اہل کاروں کو ہیڈ کانسٹیبل کے عہدوں پر ترقی دےکر ان کے خاندانوں میں عید کی خوشیاں دوبالا کردی ہیں اور اب تک ایک سال سے کم عرصے میں 500 سے زائد پولیس اہل کاروں کو ترقیاں دےکر ہیڈ کانسٹیبل بنا دیا گیا ہے۔ 

شکارپور میں ڈاکو راج کے خاتمے میں مصروف عمل ایس ایس پی تنویر حسین تنیو نے 250 سے زائد پولیس اہل کاروں کو جو عرصہ دراز سے کچے کے خطرناک جنگلات اور ضلع کے مختلف تھانوں اور مقامات پر اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہیں، ان ترقی پانے والے پولیس اہل کاروں میں خوشی کی لہر ڈور گئی ہے، پولیس کانسٹیبل بھرتی ہونے والے آج 30 سال گزرنے جانے کے بعد بھی پولیس کانسٹیبل کے طور پر اپنی خدمات انجام دیتے ہوئے باقی مدت ملازمت پوری کررہے تھے اور انہیں شاید یہ یقین بھی نہیں ہوگا کہ جس طرح ان سے پہلے ان کے ساتھی ترقی کا سپنا آنکھوں میں سجائے ریٹائر ہوچکے ہیں، وہ بھی اسی طرح ریٹائر ہوجائیں گے۔

ایسے میں ایس ایس پی تنویر حسین تنیو نے پرموشن کمیٹی کا اجلاس طلب کیا اور پولیس اہل کاروں کے پرموشن پر غور کیا گیا اور دو تین مرحلوں میں 250 سے زائد پولیس اہل کاروں جو طویل عرصے سے ہیڈ کانسٹیبل کی ترقی کے منتظر تھے، انہیں ترقی دے دی گئی اور ان کے بازوں پر ریڈ کلر کے بیج لگادیے گئے، جس کے بعد ان کی خوشی دیدنی تھی ، کیوں کہ 30 سال سے ان پولیس اہل کاروں کی آنکھیں کسی ایسے مسیحا کی تلاش میں تھیں ، جو ریٹائرمنٹ سے قبل ان کے بازوں پر ہیڈ کانسٹیبل کے بیج لگا کر ان کی مایوسی کو ختم اور ان کے خاندانوں میں ترقی کی خوشیاں بکھیر دے اور وہ دن آگیا، جب ان کی دعائیں قبول ہوئیں اور انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں رمضان المبارک کے ماہ مقدس میں آپریشن کمانڈر ایس ایس پی شکارپور نے پوليس کانسٹيبلز کو ہيڈ کانسٹیبل کے عہدے پر ترقی دے دی۔ 

کافی مدت سے پوليس اہل کاروں کی کانسٹیبلز سے ہيڈ کانسٹيبلز کے عہدے پر ترقی نہیں ہوئی تھی، ترقی پانے والوں میں1990 سے 1993 کے بھرتی ہونے والے اہل کار بھی شامل ہیں، جنہیں 30 سے 32 سال بعد ترقی دی گئی، طویل مدت کے بعد ترقی ملنے پر پولیس اہل کاروں نے خوب گلے مل کر ایک دوسرے کو مبارک باد دی اور بڑی تعداد میں پولیس اہل کاروں نے اپنے پرموشن کی خبر کو اہل خانہ، رشتے داروں اور دوستوں کے ساتھ اپنی اس ترقی اور خوشی کی خبر کو موبائل فون اور دیگر ذرائع سے شیئر کیا اور مبارک باد کے پیغامات اپنے دامن میں سمیٹے اور بھرپور جوش و جذبے کے ساتھ اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کو مزید بہتر بناتے ہوئے مثالی امن کے قیام کے یقینی بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔

سندھ پولیس کے متعدد اضلاع میں بڑی تعداد میں ایسے پولیس اہل کار اب بھی موجود ہیں، جو سالوں سے پرموشن کی آس لگائے بیٹھے اب ریٹائرمنٹ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ پولیس کے بالا افسران کو دیگر معاملات کے ساتھ اپنے جوانوں کے ان مسائل پر بھی توجہ دینا ہوگی،جس طرح لاڑکانہ رینج میں ڈی آئی جی مظہر نواز شیخ، ایس ایس پی امجد احمد شیخ اور ایس ایس پی تنویر حسین تنیو نے چند ماہ میں اس حوالے سے بہت زیادہ کام کیا، اگر ایسا تمام اضلاع میں ہوگا اور پرموشن پالیسی کے تحت بروقت ترقیاں دی جائیں گی، تو اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے، کیوں کہ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ متعدد اضلاع میں ایسے لاتعداد کانسٹیبل ہیں، جنہیں 6 ماہ کا لوور کورس کیے ہوئے بارہ 15 سال یا اس سے زائد عرصہ ہوچکا ہے، لیکن انہیں اگلے مرحلے میں ہیڈ کانسٹیبل پر تاحال ترقی نہیں دی گئی، جس کی وجہ سے پولیس اہل کاروں میں اس حوالے سے مایوسی پائی جاتی ہے اور ان کی یہ سوچ ہوتی ہے کہ جب ترقی نہیں ملنی، تو 6 ماہ ٹریننگ سینٹر میں گھر سے باہر گزارنے کا کیا فائدہ، اس لیے بڑی تعداد میں پولیس اہل کار لوور کورس پر جاتے ہی نہیں ہیں، ایسا ہی اپر کورس میں بھی نظر آتا ہے کہ سکھر سمیت متعدد اضلاع میں آج بھی ایسی مثالیں دیکھنے کو ملیں گی کہ جو 1998 میں ایس ایچ او تھے، وہ آج 2022 میں بھی ایس ایچ او تعینات ہیں۔ 

حکومت سندھ خاص طور پر آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر کو اس جانب خصوصی توجہ دیتے ہوئے جو سپاہی سے اے ایس آئی یا سب انسپکٹر تک کے اہل کاروں اور افسران کا پرموشن سسٹم ہے، اسے فعال بنایا جائے اور سندھ کے تمام اضلاع میں بروقت ترقیاں دی جائیں، تاکہ پولیس کے نظام میں بہتری لائی جاسکے اور پرموشن نہ ہونے کے باعث جو ہزاروں ملازمین میں مایوسی پائی جاتی ہے، اس کا خاتمہ ممکن ہو خاص طور پر پولیس کانسٹیبل سے سب انسپیکٹر تک بروقت پرموشن پالیسی کے تحت عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے، جو کہ محکمہ پولیس کا اپنا اختیار ہے، اگر اس پر بروقت عمل درآمد کیا جائے گا ، تو پولیس فورس میں بھی ایک نمایاں اور مثبت تبدیلی دکھائی دے گی۔ بعض سینیر پولیس افسران کی یہ بھی تجویز ہے کہ جو 45 سے 60 سال کے درمیان کی عمر کے کانسٹیبل ہیں انہیں ترجیحی بنیادوں پر ہیڈ کانسٹیبل کے رینک پر ترقی دےکر ان کے بازوں پر سرخ بیجز سجائے جائیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ خوش گوار تبدیلی مکمل طور پر کب دکھائی دے گی۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید