• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جانسن کے خواتین سے نفرت سے متعلق اخباری دعوے پر سیاست میں ہلچل مچ گئی

لندن (پی اے)خواتین سے نفرت سے متعلق اخبا ر کے دعوے پر بورس جانسن نے سنڈے نیوزپیپر میں خواتین سے نفرت کرنے والا ظاہر کئے جانے کے بعد ان کے خیالات معلوم کرنے کیلئے لیبر پارٹی کی ڈپٹی لیڈر انجیلا رینر سے رابطہ کیا ہے۔ سیاستدانوں نے اس بات کی مذمت کی ہے کہ انجیلا رینر دارالعوام میں وزیراعظم سے فاصلہ رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ میل آن سنڈے نے لکھا تھا کہ کنزرویٹو پارٹی کے بعض ارکان نے یہ دعویٰ کیا تھا۔ انجیلا رینر نے اسے ایک گھنائونی مہم قرار دے کر مسترد کردیا اور کہا کہ اس کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ خواتین سیاستدانوں کو روزانہ خواتین سے نفرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اتوار کو بورس جانسن نے ٹوئٹ کر کے ان کمنٹس پر نکتہ چینی اور لکھا کہ میں انجیلا رینر سے روزانہ ہی سیاسی معاملات پر اختلاف کرتا ہوں لیکن ایک پارلیمنٹیرین کی حیثیت سے ان کا احترام کرتا ہوں اور ان کے ساتھ آج ہونے والے واقعے کی مذمت کرتا ہوں۔ ڈائوننگ اسٹریٹ کے ایک ذریعہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وزیراعظم نے انجیلا رینر سے ٹیکسٹ میسیج کے ذریعہ اپنی پہلے کی ٹوئٹ میں دیئے گئے پیغام کا اعادہ کیا۔ شیڈو چانسلر راکیل ریوز نے بی بی سی سے کہا کہ ٹوئٹ کرنے کے بجائے وزیراعظم کو اپنا گھر سنبھالنا چاہئے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ ان کے ارکان پارلیمنٹ کو اس طرح کی باتیں کرنے کی کھلی چھوٹ نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتیں کہ ایوان میں کوئی بھی خاتون رکن پارلیمنٹ یا اسٹاف ممبر کی خواتین سے نفرت یا جنسیت سے متعلق اپنی کو ئی علیحدہ کہانی نہ ہو۔ انھوں نے کہا کہ یہ دعویٰ بہت خوفناک ہے اور اس سے پارلیمنٹ کے ایک بہت بڑے مسئلے کی عکاسی ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ سچی بات تو یہ ہےکہ پارلیمنٹ میں خواتین ارکان پارلیمنٹ اور دیگر خواتین سے جو سلوک ہوتا ہے، اس سے میں تنگ آچکی ہوں اور انجیلا پر لگائے گئے اس خوفناک الزام کے بعد اگر حالات تبدیل ہوجاتے ہیں تو یہ بڑی اچھی بات ہے۔ خواتین ٹوری ارکان پارلیمنٹ سمیت متعدد سیاستدانوں نے انجیلا کی حمایت میں آواز بلند کی ہے۔ لیبر پارٹی کے قائد سر کیئر اسٹارمر نے کہا ہے کہ ٹوریز کی جانب سے سیکسزم اور خواتین سے نفرت کا اظہار شرمناک ہے۔ میل آن سنڈے نے اس حوالے سے کوئی کمنٹ نہیں کیا۔ متعدد ارکان پارلیمنٹ نے نہ صرف اس کی مذمت کی ہے بلکہ خواتین او ر مساوات کمیٹی کی سربراہ مس نوک نے ٹوئٹر پر تصدیق کی ہے کہ انھوں نے دارالعوام کے اسپیکر سر لنزے ہوئل سے رابطہ کر کے پوچھا ہے کہ اس پولٹیکل ایڈیٹر کو، جس نے یہ لکھا ہے، پارلیمنٹ میں داخلے کا پریس پاس جاری ہونا چاہئے۔ انجیلا رینر نے ٹوئٹر پر گٹر صحافت کہہ کر اس آرٹیکل کی مذمت کی ہے اور ایسی بے بنیاد اور گھنائونی خبریں پھیلانے والوں کی مذمت کی اور کہا ہے کہ اس کا مقصد پارٹی اسکینڈل میں پھنسے ہوئے بورس جانسن کی جان بچانے کی کوشش ہے، ان کا یہ گھنائونا جھوٹ مجھے میرے مقصد سے نہیں ہٹا سکتا اور مجھے ہراساں کرنے کی ان کی کوشش کامیاب نہیں ہوگی، مجھے امید ہے کہ اس طرح میرے جیسے پس منظر سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شخص کو بھی پبلک لائف میں شرکت سے روکنے میں کامیابی نہیں ہوسکتی۔ سوشل میڈیا پر رپورٹ کی بہت مذمت کی گئی ہے اور لیبر پارٹی کی ڈپٹی لیڈر کی حمایت کی گئی ہے۔ اسکاٹش فرسٹ منسٹر اور ایس این پی کی قائد نکولا سٹرجن نے ٹوئٹ میں انجیلا رینر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے خواتین کو روزانہ خواتین سے نفرت کے ماحول کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لبرل ڈیموکریٹ رکن پارلیمنٹ منیرا ولسن نے اسے توہین آمیر اسٹوری قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ مجھے یقین نہیں آرہا ہے کہ ایسی باتیں شائع ہوسکتی ہیں۔ دارالعوام میں لیبر پارٹی کے شیڈو قائد تھنگام نے کہا ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ میں مزید خواتین کی ضرورت ہے۔

یورپ سے سے مزید