ایک مرتبہ علامہ اقبال اپنے چند دوستوں کے ہمراہ گھومتے پھرتے شہر سے باہر نکل گئے۔ سڑک کے کنارے ایک بوڑھا کسان، پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ہل چلا رہا تھا۔ پاس ہی ایک کھیت میں گندم کی سنہری خوشوں کی مشعلیں روشن تھیں۔ اقبال نے کسان سے پوچھا ،’’بابا! گندم کےیہ کھیت کس کے ہیں؟‘‘
بوڑھا کسان بولا،’’یہ کھیت تو میرے ہیں لیکن ا ن کے سینے پر لہلہانے والی یہ گندم نہ جانے کس کی ہے۔‘‘
اس جواب پر اقبال نے تجسس وتاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا،’’اگر صرف زمین کے یہ ٹکڑے ہی تمھارے ہیں اور ان میں اُگنے والی کوئی چیز تمھاری نہیں تو تم اس قدر محنت کیوں کررہے ہو؟‘‘
اقبال کے متحرک ومتجّس ذہن میں ضرور یہ خلش پیدا ہوئی ہوگی کہ جب سرمایہ دار کے لیے محنت کے بغیر اپنے سرمائے سے منافع حاصل کرنا حرام ہےتو پھر زمیندار کے لیے یہ کس طرح جائز ہوسکتا ہے کہ ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر گھر بیٹھے اور کسان کی سال بھر کی محنت کی کمائی میں شریکِ غالب بن جائے؟ غالباََ اسی وقت سے ان کے دل میں اس نظامِ معیشت کے خلاف ایک چنگاری سی سلگ رہی ہوگی، جو بعد میں شعلہ بن کر یوں بھڑکی :
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشئہ گندم کو جلا دو