ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی
تمام علوم میں’’ علم تاریخ ‘‘کی عظمت اس لیے مسلمہ ہے کہ اس کے مطالعے سے نہ صرف انسان اور معاشرہ مستقبل کا لائحہ عمل طے کرتا ہے بلکہ کچھ تاریخی واقعات رستے سے بھولی بھٹکی قوم کے لیے اپنی منزل کے تعین میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔ یہ علم نہ صرف کسی قوم کے تہذیب و تمدن اور ثقافت کا امین ہے بلکہ نوجوان نسل کی نظریاتی علمی اور فکری پرورش کے لیے بھی ماضی سے واقفیت کو اکسیر کا درجہ حاصل ہے۔
البتہ یہ سچ ہے کسی قوم و سماج کو زوال و پستی اور شکست وریخت سے دوچار کرنے، ان کے مستقبل کو تاریک و مخدوش اور مشکوک بنانے کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ اس قوم کے نوجوانوں اور نئی نسل کو ان کے تابناک ماضی سے دور کردیا جائے تو یکایک ان کاملی قدروں سے رشتہ منقطع ہوجائے گا۔
آ ج کے نوجوانوں کا رشتہ بہت حد تک اپنے روشن ماضی سے ٹوٹ گیا ہے۔ اسی کے ساتھ فکری توازن و اعتدال، ملی ہمدردی، انسان دوستی اور تحقیقی و تنقیدی مزاج پوری طرح معدوم ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ جن خطوط کو اختیار کرنے اور ان کے مطابق اپنا نصب العین متعین کرنے کی ہدایت و تلقین کی گئی تھی، ان پر ذرہ برابر بھی توجہ نہیں ہے۔ تاریخ کے ان اوراق کو کبھی بھی نہیں بھلایا جاسکتا ہے کہ جس قوم کے نوجوانوں نے اپنی اور اپنی قوم و ملک کے مستقبل کو سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کی وہ آج بھی تاریخ میں زریں نقوش ہیں۔
وہی قومیں اور معاشرے اپنی عظمت کی آفاقیت برقرار رکھتی ہیں جس کے نوجوان سنجیدہ ہوں، ان کا علمی و عرفانی مزاج پوری طرح بالغ ہو۔ سوچنے سمجھنے کا معیار و اسلوب نہایت تحقیقی قدروں کا علمبردار ہو۔ ہمارے پاس پورا نظریہ، نظام اور تابناک ماضی موجود ہے ایسا تابناک کہ اس کی کرنیں ہر دور اور ہر زمانے میں جھلملاتی رہتی ہیں۔ جو فلسفہ اور نظام دنیا کو مسلمانوں نے دیا، اس میں تمام مسائل و مباحث کا حل موجود ہے۔
اس کی اہمیت ماضی میں بھی تھی حال میں بھی ہے اور مستقبل میں بھی رہے گی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ آج اغیار تو اغیار خود ہماری صفوں میں شامل ایسے نام نہاد مفکر و نقاد موجود ہیں جو یہ بات بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ماضی کو یاد کرنے سے اب کیا فائدہ یہ جدید دور ہے، لہذا ماضی کے اسباق و واقعات کو دہرانے کی کیا ضرورت ہے۔ المیہ یہ ہے کہ آج ہمارے پاس ایسے افراد کی خاصی کمی ہے جو ان اعتراضات کو سنجیدگی، علم ودانائی اور حکمت کے ساتھ رد کرسکیں۔
وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہم نے اپنا رشتہ صرف ماضی سے ہی نہیں توڑا ہے بلکہ اپنی شاندار علمی وتحقیقی تاریخ کو بہت حد تک نظر انداز کر دیا ہے ، جبکہ ماضی کو پیش نظر رکھ کر ہی ہم مستقبل کی بہتر تعمیر کرسکتے ہیں۔ ہمارا ماضی ہر اعتبار سے قابل فخر اور لائق اتباع ہے۔ ہمارے ورثہ میں، عدل و انصاف ہے۔ سیاسی و سماجی خدمات کے پہلو جا بجا موجود ہیں۔ اصول جہانبانی و اصول حکمرانی کا پورا لطیف احساس ہمیں ماضی سے ہی ملتا ہے۔
اسی طرح ہمارے اکابر علم و فن اور تحقیق وتنقید کے شہسوار تھے۔ تو کیا ہم اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے اپنے شاندار ماضی کا سہارا نہ لیں، جس میں نشیب و فراز کے ساتھ ساتھ قوموں اور ملکوں کی تعمیر وترقی اور مستقبل کی منصوبہ بندی و ترتیب وتدوین کے لیے نہایت موزوں مواد ملتا ہے جس کی افادیت و اہمیت سےنئی نسل آ شنا نہیں۔
جب تک اپنی تاریخ کا مطالعہ نہیں کریں گےتو کیسے پتا چلے گا کہ مسلمانوں نے علوم وفنون اور ادب و آرٹ کا پورا جہاں آباد کیا تھا۔ یعنی ماہر سرجری ابوالقاسم زہراوی کون تھا۔ ماہر عمرانیات ابن خلدون نے کیا کارنامہ انجام دیا۔ ابو المعاشق بلخی نے سب سے پہلے ہوائی جہاز کے تصور سے دنیا کو کیسے متعارف کرایا تھا۔ بین الاقوامی تعلقات اور بین الممالک ہم آہنگی کے حوالے سے امام محمد کی السیر الصغیر اور السیر الکبیر کی کیا افادیت ہے۔ نیز ابن ماجہ، ابوالہیثم کون تھے؟
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ تاریخ سے نوجوانوں کو جوڑا جائے انہیں بتایا جائےکہ ہمارا ماضی کس قدر تابناک تھا ۔ زندہ قومیں ہمیشہ اپنے اسلاف کے کارناموں کو نہ صرف یاد رکھتی ہیں بلکہ ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرتی ہیں۔ جو نوجوان ماضی سے واقف ہوں اور ان کی موجودہ احوال پر گہری نظر ہووہ مستقبل کے لیے موثر منصوبہ بندی کرسکتے ہیں۔
تاریخ کا مطالعہ کر کے ان ستونوں کے بارے میں جان سکتے ہیں جن پر مختلف تہذیبوں کی تعمیر کی گئی۔ مسلمانوں کی تاریخ یا ان کا ماضی فرضی قصے کہانیوں سے عبارت نہیں، بلکہ اس کے اندر عروج وارتقا کی پوری داستان موجود ہے۔ تہذیب و شائستگی اور تمدن و معاشرت کے متوازن ضابطےاور جمہوری و آئینی قدروں کا پورا نظام ہمارے شاندار ماضی میں موجود ہے۔
نئی نسل کے لیے تاریخ کے روشن اوراق کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ تاریخ کو یاد رکھنا اور اس سے سبق حاصل کرنا ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے روک سکتا ہے۔ اس کے مطالعہ کی ہر قدم پر اشد ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایک مضمون نہیں ہے بلکہ ہر قوم کی سمت و لائحہ عمل کا تعین تاریخ ہی کرتی ہے۔ اس سے بھرپور واقفیت ہونی چاہئے۔
ماضی کو پیش نظر رکھ کر مستقبل کی بہتر تعمیر کرسکتے ہیں۔ تاریخی شعور کی بدولت بحرانوں کا تجزیہ کرنے اور مسائل کی اصل وجوہات کی تہہ تک پہنچنے اور اس کے حل کی صلاحیت حاصل کرنے کے قابل ہوا جا سکتا ہے۔اس کے ذریعہ ترقی وانحطاط کی راہیں متعین ہوتی ہیں۔ اس سے تنقیدی اور نظریاتی طور سے بھی رشتہ استوار کرنا ہوگا، تب ہی نوجوانوں کو ان کے درست ہدف کی طرف گامزن کرانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔