• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

راقم گزشتہ 30 برس سے ترکی میں مقیم ہے اور ایک پاکستانی ہونے کے ناتے جتنی محبت اور چاہت مجھے ملی ہے، میں کبھی اسے فراموش نہیں کرسکتا، یہ محبت اور چاہت مجھے ذاتی حیثیت میں نہیں ملی بلکہ ترکوں کے دلوں میں پاکستان اور پاکستانیوں سے محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے جوماضی میں چلی آرہی ہے۔ خلافت موومنٹ ہو یا ترکی کی جنگِ آزادی ( جسے ترک جنگِ استقلال کہتے ہیں ) جس طرح برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نےدل کھول کر مدد کی اور خواتین نے اپنے زیورات تک ترکوں پر لٹا دیے، ترک آج بھی اس قربانی کے جذبے کو نہیں بھول سکے لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ ترکوں کی طرف سے اتنی محبت چاہت اور عشق کا اظہار کیے جانے کے باوجود آج کل چند عاقبت نااندیش پاکستانی نوجوانوں نے اپنی بے ہودہ حرکتوں سے پاکستان کے نام کو بدنام کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ان اوباش اور آوارہ قسم کے چند پاکستانیوں نے ترک لڑکیوں کی بلا اجازت غیر اخلاقی وڈیوز بنائیں اور ان میں غیر اخلاقی ریمارکس دیتے ہوئے انہیں ٹک ٹاک اور دیگر سوشل میڈیا پراپ لوڈ بھی کیا، جس سے پاکستان اور ترک دوستی کو اپنی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھنے والی قوتوں نے بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئےپاکستان کے خلاف سوشل میڈیا پر اپنی مہم جاری رکھی ہوئی ہے۔ انہوں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹوئٹر پر ’’پاکستانی گیٹ آئوٹ‘‘ کا ٹرینڈ شروع کیا جو کافی دن تک جاری رہا۔ ان نوجوانوں کی اس حرکت کے نتیجے میں پاکستانی سفارتخانہ فوری طور پر حرکت میں آیا لیکن اسی دوران چند پاکستانیوں کی جانب سے دو نیپالی باشندوں کو یرغمال بنانے کے واقعہ نے جلتی پرتیل کا کام کیا۔ ترکی کے تمام میڈیا نے پاکستانیوں کی جانب سے نیپالی باشندوں کےاغوا کی خبر کو بڑے نمایاں طریقے سے پیش کیا اور پاکستان کے وہ دشمن جو طویل عرصے سے پاک ترک تعلقات کو خراب کرنے کے درپے تھے اپنے مقاصدمیں اس وقت کچھ حد تک کامیاب دکھائی دیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ ترکی کے محکمہ پولیس اور ترک وزیر داخلہ نے سوشل میڈیا پر اس ٹرینڈ کےخلاف فوری طور پر کارروائی بھی کی ہے اور ترکی کے محکمہ پولیس نے ایک سرکلر جاری کیا ہے جس میں بتایا گیا کہ اس مہم کا مقصد ملک دشمن عناصر کی جانب سے انتشار پیدا کرنا ہے اور ان عناصر کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے جبکہ ترک وزیر داخلہ سلیمان سوئیلو نے گزشتہ ہفتے نمازِ جمعہ کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ’’ ترکی کی جنگِ آزادی کے موقع پر پاکستانیوں نے جس طرح ترکی کی مدد کی ہم پاکستان کےاحسانات کابدلہ نہیں چکاسکتے‘‘۔انہوں نے کہا کہ اس وقت جان بوجھ کراس قسم کی مہم چلائی جا رہی ہے، ان کا اصل ہدف معاشرے میں کینہ، نفرت اوراشتعال انگیزی پیدا کرنا اور 2023ء کےانتخابات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کے ان اکاؤنٹس میں سے 80 فیصد بوٹ اکاؤنٹس ہیں۔ اِکا دُکا واقعات سے کسی قوم یا ملک کو بدنام نہیں کیا جاسکتا، یہاں پر اگر چند ایک پاکستانی اہم ذمہ داریاں انجام دیتے ہوئے ترک قوم کی خدمت کررہے ہیں تو ان کو کام کرنے دیں، ان کے خلاف غلط قسم کا ٹرینڈ مت چلائیں، پاکستان ہمارا دوست اور برادر ملک ہے۔ اس بیان سے حکومتِ ترکی کی پاکستان سے گہری محبت کی ایک بار پھر عکاسی ہوتی ہے۔ تاہم ترکی کی ایک سیاسی جماعت ’’ ظفر پارٹی‘‘ کے چیئرمین ’’اُمیت اؤزداع‘‘( جس کی شیخ رشید کی سیاسی جماعت کی طرح ایک ہی سیٹ ہے ) نے پاکستانی باشندوں کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا ہے جسے پاکستان دشمن میڈیا نے نمایاں کوریج دی۔ دراصل ترکی میں ایردوان کی مقبولیت کو ہضم نہ کرنے والے عناصر کی جانب سےاس قسم کی مہم چلانے کا مقصد صرف اور صرف صدر ایردوان پر دبائو ڈالنا ہے۔ اس سے قبل یہی عناصر شامی پناہ گزینوں کو ان کے ملک واپس بھیجنے کی مہم بھی چلا چکے ہیں۔

پاکستان سے محبت ترکوں کے دلوں پر نقش ہے بلکہ کہا جاتا ہے پاکستانی بچہ ترکوں سے محبت اور ترک بچہ پاکستان سے محبت لے کر اس دنیا میں آتا ہے۔ اس محبت سے متاثر ہو کر ترک سیاستدان پاکستان کے بارےمیں ایک ضرب المثل استعمال کرتے ہیں جب پاکستان کا نام لیا جاتا ہے تو بہتا پانی تک رک جاتا ہے۔( یعنی پاکستان کا نام آنے کے بعد باقی سب کچھ بے معنی ہوجاتا ہے )

حکومتِ ترکی یا پھر ترک باشندوں کی جانب سے جس قدر بھی محبت اور احترام کیا جائے وہ سر آنکھوں پر لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم پاکستان سے گہری محبت کرنے والے ملک ترکی اور ترک باشندوں کے لیے مستقل طور پر ان کی آنکھوں کا تارہ بن کر رہیں اور ایسی کسی بھی کارروائی اور حرکت سے باز رہیں۔ اگر ترکی نےان غیر قانونی طور پر مقیم پاکستانیوں کو ڈی پورٹ نہیں کیا ہے تو یہ صرف اور صرف ترکی کی پاکستان سے گہری محبت ہی کا نتیجہ ہے۔ اور آخر میں یہ بات بھی واضح کرتا چلوں کہ غیر ملکی میڈیا کے چند اداروں کی جانب سے پاکستانیوں کو ویزے دینے پر پابندی لگائی جانے یا پھر اس میں سختی کی جو من گھڑت خبریں پیش کی جا رہی تھیں اس بارے میں بھی انقرہ میں پاکستانی سفارتخانے نے حکومتِ ترکی کی پاکستانیوں کیلئےویزا پالیسی میں کسی قسم کی تبدیلی کی سختی سے تردید کی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین