کل ابن انشاء مرحوم کے خطوط کا ایک مجموعہ نظرسے گزرا، اور ہنستے مسکراتے انشاء جی آنکھوں سے آنسو بن کر ٹپک پڑے۔ انہیں ہم سے جدا ہوئے ؟؟؟ سال ہو چکے ہیں لیکن جگر کی زبان میں ہمہ وقت یوں محسوس ہوتا ہے کہ
یہ چل رہے ہیں وہ پھر رہے ہیں
یہ آرہے ہیں وہ جا رہے ہیں
وہ اپنی زندگی میں مستقل سفر کرتے رہے، مشرق و مغرب کی بو قلمونیوں پر مسکراہٹوں کے پھول بکھیرتے رہے۔ اور خود ایسے سفرپر روانہ ہو گئے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔
کن کن لوگوں سے پوچھیں کتنے لوگ بتائیں گے
ملک عدم کو جانے والے لوٹ کے پھر کب آئیں گے
انشاء جی سے میری ذاتی ملاقات نہ تھی۔ کراچی میں حکیم اسرار احمد کریوی کے ساتھ ایک دوبار ان کے دفتر میں جانا ہوا تھا۔ یا پھر لندن میں سفارت خانہ پاکستان کے تعلیمی اتاشی پروفیسر نذیر احمد کے یہاں ان سے چند ملاقاتیں ہوئیں ان مختصر ملاقاتوں نے مجھے ایسے انسان دوست فنکار سے متعارف کرایا تھا جس کی تحریر ہی سے نہیں تقریر سے بھی شگفشن گل اور قلقل مینا کا اظہار ہوتا تھا۔ وہ خوش گو شاعر ، شگفتہ نثر نگار ، حساسی ادیب، زندہ دل کالم نویس اور بہت ذہینی منتظم تھے۔ ان سب سے بڑھ کر وہ ایسے انسان تھے جو اندھیروں کے نگر میں روشنیاں بکھیرتا تھا۔
ان کا سب سے بڑا کارنامہ معاشرے کی دکھی رگوں کو خندۂ گریاں سے چھوتا ہے۔ اردو پڑھنے اور سمجھنے والے (اردو نہ پڑھ سکنے والے ہزار افراد ان کا کالم سن کر زندگی سے پیار کرنے لگتے تھے) ہزارہا افراد ان کی تحریر کے منتظر رہتے تھے۔ ان کے الفاظ ریشۂ دوانیوں، ہنگاموں اور نفسانفسی کے اس قبرستان میں روشنی کی چھوٹ اور نکہت گل کی طرح مشام جان کو منور اور معطر کر دیتے تھے۔ رشید احمد صدیقی، کنھیا لال کپور ، پطرس، کرنل محمد خان، شوکت تھانوی، شفیق الرحمٰن، ابراہیم جلیس، مشتاق احمد یوسفی، احمد جمال پاشا اور مجتبیٰ حسین وغیرہ کی طرح انشاء جی بھی خود پر ہنسنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ شاعرانہ کسر نفس کے ضمنی میں انہوں نے کہا تھا کہ:
انشا! صاحب پوپھٹتی ہے
تارے ڈوبے صبح ہوئی ہے
بات تمہاری مان کے ہم
تو شب بھر بے آرام ہوئے
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی بات مان کر انہیں پڑھ کر شب بھر کے بے آراموں کو آرام بھی ملتا تھا مور بے پر کی ایام پر خندۂ استہزا کرنے کا عزم بھی۔ ہمارے نثر نگاروں اور شعراء میں ایسے چند ہی لکھنے والے ہیں جنہیں راہ ادب میں سنگ میل بن جانے کا فخر نصیب ہوتا ہے۔ میں پورے اعتماد سے کہتا ہوں کہ انشا جی سنگ میل ہی نہ تھے بلکہ سنگ آشنا بھی تھےجہاں علم و فن کے شیدائیوں کی جبیں جھک جاتی تھیں۔
انہوں نےاسلوب کا ایسا زاویہ تراشا تھا جس سے تبسم شگفتگی اور کبھی کبھی بے ساختہ قہقہوں کی ایسی کرنیں پھوٹتی تھیں کہ کچھ دیر کے لئے ہی سہی نہ صرف اپنا بلکہ کائنات کا غم بھی فراموش کر دیتا تھا۔ ’’ابن بطوطہ کے تعاقب میں‘‘ انشا جی ایسے سفر پر روانہ ہوئے جہاں سے نہ ابن بطوطہ واپس آیا تھا نہ انشاء جی واپس آئیں گے۔ لیکن جن نقوش نے ابن بطوطہ کو زندہ رکھا ہے وہی نقوش ابن انشاء کو بھی زندہ رکھیں گے۔ انشاء جی کراچی کے دیوانے تھے۔ جس کے لئے انہوں نے لکھا تھا۔
میری حیرتوں کا روما
مری حسرتوں کا دلی
مری وحشتوں کا صحرا
مرا بلدیہ کراچی
مجھے اور کون جانے
یہی دے تو دے گواہی
انشاء جی ! آج کراچی نے آپ ہی کو نہیں خود کو بھی پہچاننے سے انکار کر دیا ہے۔ اپنے ایک سفر نامے میں جنیوا سے متعلق انشاء جی نے لکھا تھا۔
’’ رات بھر بارش ہوتی رہی۔پانچ بجے صبح سڑک پر گانے کی آواز آئی۔ تین لڑکے اور دو لڑکیاں چھتری تانے ایک مکان کی سیڑھیوں پر الاپ رہے تھے۔
I Love to you ۔ آواز میں بے فکری جانے کون لوگ تھے اور اب کہاں ہونگے۔ ہم نے جی میں کہا۔ تم جہاں کے ہو ہاں کے ہم بھی ہیں۔ لیکن خاموش رہے۔ اب انہوں نے زبان حال سے کہا تم کونسی زبان بولتے ہو ہم نے کہا دل کی۔ دل کوکئی کہانیاں یاد سی آکے رہ گئیں۔ ہم نے دریچہ بند کر لیا۔ کمرے کا بھی دل کا بھی۔ آنکھوں کا بھی، جانے کب وہ لوگ برستے پانی میں رخصت ہو گے۔
دوبارہ آنکھ کھولی تو سناٹا تھا۔ انشاء جی تم نے دل کا دروازہ بند کر لیا لیکن اپنے چاہنے والوں کے دلوں سے کوچ کرو تو جانیں۔ اردو دانوں کے دلوں کے دروازے تمہارے لئے ہمیشہ وا رہیں گے۔ مجھےمعلوم ہے کہ تم نے کائنات کے حسن اور دھرتی کے روپ کو دل میں بسایا تھا، اور جب اس روپ کو مٹتے دیکھتے تھے تو جھنجھلا کر کہتے تھے۔
پھاگن آئے۔ ساون آئے اس دھرتی کا حال وہی۔ گدلا امبر۔ اجڑی کھیتی۔ پھلواری میں پھول نہ پھل ۔ باغ نے کتنی کلیاں کھوئیں۔ بستی تک پہنچی خوشبو آنکھ سے کتنے نیر بہے ہیں دامن تک پہنچا کاجل لیکن تم سے یہ امید نہ تھی کہ آئینہ خانہ دہر سے یوں آنکھیں چرا لو گے۔ انشاء جی تم فخر تھے کہ شہر جنوں نے دشت جنوں کی مسافت کے بعد بھی تم صحیح سلامت اپنوں میں آگئے ہو۔
شہر جنوں سے دشت جنوں تک کتنی مسافت بھی انشا
ایک ہمیں لوٹ آئے ہیں ورنہ یار گئے سب پار نکل لیکن یہ کیا ہوا کہ اب تم بھی اسی تاریک سفر پر روانہ ہو ئے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ تم نے ’’چاند نگر‘‘ لکھا تھا۔ اچھا کیا تھا۔ لیکن چاند نگر میں مستقل جابسنا اور اپنوں کو تڑپانا تو بڑا ظلم ہے۔ تم تو کبھی ایسے کٹھور نہ تھے۔ انشاءجی شاعر بڑے تھے یا ادیب اس کا فیصلہ تو ادب کے پارکھ، شعر کے ناقد اور فن کے مبصرہی کرینگے۔ ہمیں تو اتنا علم ہے کہ آج بھی ان کی نثر کانوں میں رس گھولتی ہے اور شعر یادوں کے دریچے وا کر دیتا ہے۔ جب بھی کسی محفل میں کوئی ؎
انشاء جی چلو اب کوچ کرو اس شہر سے دل کو لگانا کیا
نغمہ الاپتا ہے تو آنکھوں سے موتیوں کی لڑیاں ٹوٹتی ہیں اور سینوں سے آہوں کا دھواں اٹھتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کسی ادیب کے لئے عقیدت کا اس سے بڑا خراج ہو ہی نہیں سکتا۔ جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں۔ انشاء جی سے میرا دوستی کا رشتہ کبھی نہیں رہا۔ میں توان کےہزارہا چاہنے والوں کی طرح ان کا نیاز مند تھا۔ لیکن اپنی محبت، شفقت، مروت اور خلوص سے کبھی انہوں نے اس بات کا اظہار نہیں ہونے دیا کہ وہ کسی بھی طرح اپنے ملنےوالوں سے برترنہیں ۔ وہ نہ صرف دوستوں کے دوست بلکہ دشمنوں کے بھی دوست تھے۔ جنگ لندن کے غالباً اپنے آخری کالم میں ا نہوں نے لکھا تھا کہ ’’اگر ہمارا بدگو ہمارے سامنے آجائے تو ہم اس کا منہ موتیوں سے بھر دینگے‘‘۔
یہ صرف شاعرانہ اظہار خیال ہی نہیں تھا بلکہ ان کی سوچ کا انداز تھا انہوں نے نہ کبھی کسی کا برا چاہا نہ برا کیا۔ بلکہ اپنے بعض ناراض ہم عصروں سے محبت کا ایسا برتائو کیا کہ وہ بھی انشاء جی کے مرید ہوگئے۔
اردو طنز و مزاح کو انشاء جی نے کیا دیا ہے۔ اس پر مستقل کام کی ضرورت ہے۔ ہم توصرف اتنا جانتےہیں کہ جب تک دل دھڑکتے رہیں گے۔ ہونٹوں پر تبسم کے پھول کھلتے رہیں گے۔ انشاء جی زندہ رہیں گے۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی