مرزا حاتم علی بیگ مہرکے نام ( 1860میں لکھا گیا خط)
مرزا صاحب،
آپ کا غم فزانامہ پہنچا۔ میں نے پڑھا۔ یوسف علی خاں عزیز کو پڑھوا دیا۔ انہوں نے جو میرے سامنے اس مرحومہ کا اور آپ کا معاملہ بیان کیا، یعنی اس کی اطاعت اور تمہاری اس سے محبت، سخت ملال ہوا اور رنج کمال ہوا۔ سنو صاحب، شعرا میں فردوسی اور فقرا میں حسن بصری اور عشاق میں مجنوں یہ تین آدمی تین فن میں سردفتر اور پیشوا ہیں۔ شاعر کا کمال یہ ہے کہ فردوسی ہوجائے، فقیر کی انتہا یہ ہے کہ حسن بصری سے ٹکر کھائے، عاشق کی نمود یہ ہے کہ مجنوں کی ہم طرحی نصیب ہو۔
لیلیٰ اس کے سامنے مری تھی،تمہاری محبوبہ تمہارے سامنے مری، بلکہ تم اس سے بڑھ کر ہوئے کہ لیلیٰ اپنے گھر میں اور تمہاری معشوقہ تمہارے گھر میں مری۔ بھئی ’’مغلچے‘‘ بھی غضب ہوتے ہیں، جس پر مرتے ہیں اس کو مار رکھتے ہیں۔ میں بھی ’’مغلچہ‘‘ ہوں۔ عمر بھر میں ایک بڑی ستم پیشہ ڈومنی کو میں نے بھی مار رکھا ہے۔ خدا ان دونوں کو بخشے اور ہم تم دونوں کو بھی کہ زخم مرگ دوست کھائے ہوئے ہیں۔ مغفرت کرے۔ چالیس بیالیس برس کا یہ واقعہ ہے۔ باآنکہ کوچہ چھٹ گیا۔ اس فن سے بیگانہ محض ہوگیا ہوں، لیکن اب بھی کبھی کبھی وہ ادائیں یاد آتی ہیں۔ اس کا مرنا زندگی بھر نہ بھولوں گا۔ جانتا ہوں کہ تمہارے دل پر کیا گزرتی ہوگی۔ صبر کرو اور اب ہنگامہ عشق مجازی چھوڑ دو:؎
سعدی اگر عاشقی کنی و جوانی……عشق محمدؐ بس است و آلِ محمدؐ
اللہ بس، ماسویٰ ہوس …غالبؔ
……٭٭……٭٭……
مجروح کے نام! (1859کو لکھا گیا خط)
کیا پوچھتے ہو؟ کیا لکھوں؟ دلی کی ہستی منحصر کئی ہنگاموں پر تھی۔ قلعہ، چاندنی چوک، ہرروز مجمع جامع مسجد کا، ہر ہفتے سیر جمنا کے پل کی، ہر سال میلہ پھول والوں کا۔ یہ پانچوں باتیں اب نہیں۔ پھر کہو دلی کہاں؟ ہائی کوئی شہر قلمروہند میں اس نام کا تھا۔
نواب گورنر جنرل بہادر 15؍دسمبر کو یہاں داخل ہوں گے۔ دیکھئے کہاں اترتے ہیں اور کیوں کر دربار کرتے ہیں۔ آگے کے درباروں میں سات جاگیردار تھے کہ ان کا الگ الگ دربار ہوتا تھا۔جھجر، بہادر گڑھ، بلب گڑھ، فرخ نگر، دوجانہ، پاٹووی، لوہارو، چار معدوم محض ہیں۔
جو باقی رہے اس میں سے دوجانہ و دلوہارو تحت حکومت ہانسی حصار، پاٹووی حاضر۔ اگر حصار کے صاحب کمشنر بہادر ان دونوں کو یہاں لے آئے تو تین رئیس، ورنہ ایک رئیس، دربار عام والے مہاجن لوگ سب موجود۔ اہل اسلام میں صرف تین آدمی باقی ہیں: میرٹھ میں مصطفیٰ خاں، سلطان جی میں مولوی صدر الدین خاں، بلی ماروں میں سگِ دنیا موسوم بہ اسد۔ تینوں مردود و مطرود، محروم و مغموم:؎
توڑ بیٹھے جب کہ ہم جام و سبو پھر ہم کو کیا
آسماں سے بادۂ گلفام گو برسا کرے
……٭٭……٭٭……
میرغلام حسنین قدر بلگرامی کے نام( 1865میں لکھا گیاخط)
حضرت!
فقیر نےشعر کہنے سے توبہ کی ہے۔ اصلاح دینے سے توبہ کی ہے۔ شعر سننا تو ممکن ہی نہیں، شعر دیکھنے سے نفرت ہے۔ پچھتر برس کی عمر، پندرہ برس کی عمر سے شعر کہتا ہوں۔ ساٹھ برس بکا۔ نہ مدح کا صلہ ملا،نہ غزل کی داد، بقول انوری:؎
اے دریغا نیست ممدوحے سزا وار مدیح
وے وریغا نیست معشوقے سزا وار غزل
سب شعرا اور احباب سے متوقع ہوں کہ مجھے زمرہ شعرا میں شمار نہ کریں اور اس فن میں مجھ سے کبھی پرسش نہ ہو۔
اسد اللہ خاں المتخلص بہ غالب و المخاطب بہ نجم الدولہ، خدایش بیا مرزاد
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی