• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محکمہ صحت حکومت سندھ کی جانب سے اتائی ڈاکٹروں اور جعلی حکیموں کی پریکٹس اور انسانی جانوں سے کھیلنے کے باعث ہونے والی اموات سے بچنے کے لیے سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن قائم کیا گیا، اس ادارے کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ سندھ میں بڑے شہروں کے علاوہ دیہات میں بیٹھے ہوئےاتائی ڈاکٹروں اور جعلی حکیموں کی پریکٹس کو روکنے اور ان کے ہاتھوں ہونے والی اموات کے سلسلے کو کنٹرول کرنے کے لیے یہ ادارہ بنایا گیا، لیکن بدقسمتی سے اس ادارے کے قیام کے ساتھ جو کہ بہت اعلی مقصد کے لیے بنایا گیا تھا، وہ مقاصد پورے نہیں ہوسکے، جس کے لیے حکومت سندھ محکمہ صحت نے ایک بڑا بجٹ مختص کیا اور یہ ادارہ قائم کیا۔ 

اس سلسلے میں صورت حال یہ ہے کہ سندھ میں ایک رپورٹ کے مطابق دو لاکھ ساٹھ ہزار اتائی ڈاکٹر اور جعلی حکیم انسانی زندگیوں سے کھیلنے میں مصروف ہیں، جن میں صرف کراچی میں ان کی تعداد دو لاکھ سے زائد ہے اور باقی پورے سندھ میں 60 ہزار اور بعض رپورٹوں کے مطابق ایک لاکھ سے زائد ہے، جب کہ خود ہیلتھ کیئر کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ان اتائی ڈاکٹروں اور جعلی حکیموں کے غلط علاج سے روزانہ مریض موت کے گھاٹ اتر رہے ہیں۔ 

اس سلسلے میں محکمہ ہیلتھ کیئر کمیشن کی جانب سے مشتہر کی گئی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبے میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر اور پیتھالوجی لیبارٹریوں کے علاوہ بلڈ بینکوں کی رجسٹریشن کے لیے سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن قائم کیا گیا تھا اور اس کے مینڈیٹ میں ڈاکٹروں اور پیتھالوجی لیباٹریوں کے علاوہ بلڈ بینکوں کی رجسٹریشن کرنی مقصود تھی، جب کہ اس ہیلتھ کیئر کمیشن کے مینڈیٹ میں غیر قانونی طور پر میڈیکل کی پریکٹس کرنے والے اتائی ڈاکٹروں اور جعلی حکیموں کے خلاف کارروائی کرکے ان کے کلینک اور جعلی حکمت خانوں کو سیل کرنے اورجرمانہ اور سزا دلانہ مقصود تھا۔

تاہم ناقص منصوبہ بندی اور محکمے میں افرادی قوت کی کمی اور محکمہ صحت کی عدم دل چسپی، جب کہ نچلے طبقے کے مریضوں کے علاج معالجے میں تفاوت نے محکمہ صحت کی طرح ہیلتھ کیئر کمیشن کو بھی مذاق بنا دیا۔ اس سلسلے میں ہیلتھ کیئر کمیشن کے ذرائع کے مطابق ان کی دو رکنی ٹیم کو ہر ماہ ایک ضلع میں مقامی ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفس سے ایک فوکل پرسن ڈاکٹر کے ہمراہ ڈاکٹروں لیبارٹریوں اور بلڈ بینک کی رجسٹریشن کے علاوہ اتائی ڈاکٹروں اور جعلی حکیموں کے خلاف کارروائی کرکے ان کی دکانیں سیل کر کے پولیس کے حوالے کرنے اور کیس بنا کر عدالت میں پیش کرنا ہوتا ہے۔ 

محکمہ میں افرادی قوت کی کمی کے باعث موثر کارروائی نہ ہونے سے بااثر اتائی ڈاکٹروں اور جعلی حکیموں کے حوصلے اس حد تک بلند ہوگئے کہ ضلع شہید بینظیر آباد کی تحصیل جن میں سکرنڈ، قاضی احمد دولت پور دوڑ شامل ہیں، یہاں پر ایک ہزار سے زائد اتائی ڈاکٹروں کے کلینک آباد ہیں اور اس سلسلے میں فوکل پرسن ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفس ڈاکٹر امجد بھٹی کا کہنا تھا کہ ضلع میں بے شمار عطائی ڈاکٹروں اور جعلی حکیموں کے کلینک سیل کرکے ان کو قانون کے مطابق کارروائی کرکے پولیس کے حوالے کیا گیا اور ان دکانوں کو سیل کیا، لیکن صورت حال یہ ہے کہ ان کا کہنا تھا کہ یہ سیل کیے گئے کلینک اور دکانیں ان جعلی حکیموں اور اتائی ڈاکٹر نے خود ڈی سیل کرکے کھول لیا اور اب صورت حال یہ ہے کہ ان میں وہی اتائی ڈاکٹر حکیم جن کے خلاف پرچہ درج ہے، دھڑلے سے اپنی کلینک چلانے رہے ہیں۔

واضح رہے کہ سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق محکمے میں افرادی قوت کی کمی کے باعث صورت حال یہ ہے کہ کئی کئی ماہ تک چھاپہ مار ٹیم ہی تشکیل نہیں دی جاسکی ہیں، جو کہ ان اتائی ڈاکٹروں اور جعلی حکیموں کی دکانوں کو سیل کریں اور غلط علاج سے موت کے منہ میں جانے والے معصوم انسانوں کی زندگی کو بچایا جا سکے ۔ ضلع شہید بینظیر آباد میں یہ صورت حال ہے کہ ہر گلی کے کونے پر ایک ایک اتائی ڈاکٹر یا جعلی حکیم بیٹھا بڑے بڑے بورڈ لگا کر جن میں وہ نہ صرف معمولی نزلہ بخار جیسی بیماریوں کا علاج کر رہا ہوتا ہے، اس کے علاوہ ہیپاٹائٹس شوگر بلڈ پریشر کینسر اور کورونا جیسی وبائی بیماریوں کا بھی جڑ سے خاتمہ کرنے کے دعوے کے ساتھ لگائے گئے بورڈ عوام الناس کو گمراہ کر رہے ہیں۔ 

اس سلسلے میں گزشتہ دنوں قاضی احمد میں ایک اتائی ڈاکٹر کے پاس نوجوان کو اس کا والد لے کر آیا، جس کو معمولی بخار تھا اور وہ نوجوان اتائی ڈاکٹر کے سامنے بیٹھا، اس پر اتائی ڈاکٹر نے اس کو انجکشن لگایا، جس سے اس کی حالت خراب ہونا شروع ہوئی، اس کے والد کا کہنا تھا کہ میں نے ڈاکٹر کو کہا کہ میرے بچے کی حالت اس انجکشن کے بعد خراب ہوئی ہے، آپ اس کا علاج کریں، تو وہ اتائی ڈاکٹر گھبرا گیا اور

اس نے کہا کہ آپ اس کو فوری طور پر سول ہسپتال لے جائیں۔ مرتضی کے والد نے روتے ہوئے بتایا کہ میں اپنے لخت جگر کو لے کر ابھی اسپتال لانے کے لیے ایمبولینس تلاش کر رہا تھا کہ اس نے دم دے دیا اور اس جہان فانی سے رخصت ہوا، جب کہ جو ناموری کے مقام پر ایک خاتون کو اس کے رشتے دار علاج کے لئیے ایک اتائی ڈاکٹر کے پاس لے کر پہنچے اور اسی طرح اس کو بھی اتائی ڈاکٹر نے جو انجکشن لگایا اس خاتون کو اس انجکشن کی وجہ سے ری ایکشن ہوا اور وہ اپنے معصوم بچوں کو روتا چھوڑ کر راہی عدم کو سدھار گئیں۔ تاہم ان اتائی ڈاکٹروں اور جعلی حکیموں کی کہانی یہیں تک نہیں ہے، بلکہ صورت حال یہ ہے کہ پیپلزمیڈیکل اسپتال میں کام کرنے والے ڈسپنسر میل اور فی میل نرسنگ اسٹاف اور نائب قاصد بھی گلی محلوں میں اپنا کلینک لیے بیٹھے ہیں اور جوں ہی دو بجتے ہیں اور ان کی اسپتال سے ڈیوٹی ختم ہوتی ہے، تو وہ اپنے کلینک پر پہنچتے ہیں، جہاں مریضوں کی قطاریں لگی ہوتی ہے۔

اس کا نظارہ شہید چوک پر بھی دیکھا جا سکتا ہے جہاں پوری قطار ان اتائی ڈاکٹروں کی موجود ہے اور جہاں درجنوں مرد اور خواتین مریض ان کی راہ تک رہے ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں پیپلز میڈیکل اسپتال کا ذکر بھی کرنا لازمی ہے جو کہ سابق صدر آصف علی زرداری، جو کہ یہاں سے ممبر قومی اسمبلی بنے ہیں، ان کے حلقے میں یہ اسپتال واقع ہے ، لیکن اس اسپتال میں لوگوں کو علاج کی کتنی سہولت میسر حاصل ہے، اس بارے میں گزشتہ دنوں صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو کے دورے کے موقع پر مریضوں اور ان کے تیمارداروں نے شکایات کے انبار لگا دیے۔ 

مریضوں کا یہ کہنا تھا کہ اس اسپتال میں کوئی دوا میسر نہیں اور نہ ہی ٹیسٹ کی سہولت موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب وہ لیبارٹری میں ٹیسٹ کے لیے جاتے ہیں، تو انہیں جواب ملتا ہے کہ کیمیکل کئی ماہ سے موجود نہیں ہے ، جب کہ دوسری جانب اسپتال میں جو کہ ایک ہزار بستر پر مشتمل ہے اور نہ صرف ضلع شہید بینظیر آباد بلکہ نوشیروفیروز اور سانگھڑ کے مریض بھی یہاں سے استفادہ کرنے کے لیے آتے ہیں، لیکن صورت حال یہ ہے کہ انہیں پرائویٹ لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کروانے پڑتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایکسرے مشین بند پڑی تھی۔ 

اس لیے کہ اس کی فلمیں ختم ہو گئی تھی۔ پیپلز میڈیکل اسپتال میں صرف ایک شعبہ ایسا ہے کہ جس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ پوری طرح مریضوں کو علاج معالجے کی سہولت مہیا کر رہا ہے اور دل کے مریضوں کے علاج کے لیے وہ شعبہ این آئی سی وی ڈی کا ہے، یہاں پر دل کے بند وال میں اسسٹنٹ لگا کر مریضوں کی زندگی بچائی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ باقی اسپتال کے مختلف شعبوں میں یہ صورت حال ہے کہ وہاں پر نہ تو ڈاکٹر موجود ہے اور نہ ہی ادویات اس لیے مریض پرائیویٹ میڈیکل سینٹروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید