• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سبط حسن

پیارے بچو! پرانے زمانے کی بات ہے ، ایک ملک میں ایک بہت ہی طاقتور انسان رہتا تھا۔ اس کا نام ہرکولیس تھا۔ وہ بچپن ہی سے بہت مضبوط اور توانا تھا۔ لوگ اس کے ننھے سے بچے کا مضبوط جسم دیکھتے تو کہتے کہ یہ بچہ بڑا ہو کو بہت ہی طاقتور شخص بنے گا۔ ایک رات وہ اور اس کا بھائی گھر سے باہر سورہے تھے۔ دو بڑے ناگ، پھنکارتے ہوئے ان دونوں کی طرف آئے۔ ان کی پھنکار سے دونوں بھائیوں کی آنکھ کھل گئی۔

ہرکولیس کے بھائی نے جو اتنا بڑا سانپ دیکھاتو وہ چلاّنے لگا۔ لیکن ہر کولیس بالکل بھی نہ گھبرایا۔ جب سانپ، ان دونوں بھائیوں کے قریب آئے اور ان پر حملہ کرنے لگے ، تو ہرکولیس نے جھٹ سے دونوں سانپوں کو ان کی گردنوں سے پکڑلیا۔ اس کے ہاتھوں میں اس قدر طاقت تھی کہ اس نے دونوں سانپوں کی گردنوں کو مسل دیا۔

ہرکولیس جب جوان ہواتو اس کی بہادری کے چرچے ہونے لگے۔ اس بات کی خبر بادشاہ کو بھی ہوگئی۔ بادشاہ نے اسے بلوا بھیجا۔ جب وہ بادشاہ کے دربار میں پہنچا تو بادشاہ اسے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ عام لوگوں سے کہیں زیادہ لمبا قد، مضبوط جسم، پھر بھی اس نےاس کی طاقت کو پرکھنے کے لیے ایک موٹاتازہ بپھرا ہوا سانڈ منگوایا اور فرمائش کی کہ وہ سانڈ کو سینگوں سے پکڑ کر گرادے تو وہ اس کی طاقت کو مان لے گا۔ 

ہر کولیس نے سانڈ کو سینگوں سے پکڑنے کی کوشش کی، مگر سانڈ نے ایسی ٹکر ماری کہ ہرکولیس دورجاگرا، اس کے بازو پرچوٹ لگی ،مگر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ ہرکولیس محل کی ایک دیوار کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ سانڈ دوڑتاہوا ، ہرکولیس کی جانب بڑھا، جونہی وہ ہرکولیس کو ٹکرمارنے لگا،اس نےاسے سینگوں سے پکڑ لیا۔ سانڈ نے بڑی کوشش کی ،مگر ہرکولیس نے اپنی کمر دیوار کے ساتھ لگا رکھی تھی۔ اس نے اپنی پوری طاقت لگا کر سانڈ کو اپنی اگلی ٹانگوں پر جھکنے پر مجبور کردیا۔ سانڈ کا پورا بدن کانپ رہا تھا اور اس کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی۔ بادشاہ بھی ہرکولیس کی طاقت دیکھ کر حیران رہ گیا۔

بادشاہ نے اسے بتایا کہ اس کی سلطنت کے ایک علاقے میں ایک خونخوار شیر آگیا ہے۔ شیر پہلے تو بھیڑ بکریاں اور دیگر مویشی کھاجاتا تھا لیکن اب اس نے انسانوں کو بھی کھانا شروع کردیا ہے۔ بادشاہ نے اس سے درخواست کی کہ وہ کسی طرح اس شیر سے لوگوں کی جان چھڑا دے۔ ہرکولیس نے بادشاہ کی بات مان لی۔

اگلے روز، ہرکولیس سفر کر کے اس علاقے میں پہنچ گیا، جہاں خونخوارشیر نے ظلم برپا کررکھا تھا۔ یہاں ایک بہت بڑا جنگل تھا۔ ہر کولیس نے ایک بڑے درخت کو زمین سے اکھاڑا اور اس کے تنے پر لگی شاخوں کو کاٹ کر اسے لے کر جنگل میں ایک جگہ بیٹھ گیا اور شیر کا انتظارکرنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک خونخوارشیر، دھاڑتاہوا ہرکولیس کی طرف چلا آرہا تھا۔ اس نے ، شیر کے حملہ کرنے سے پہلے ہی، درخت کا تنا اٹھایا اور شیر کے پیچھے بھاگنے لگا۔ شیر پہلے تورُکا، مگر ہرکولیس کے ہاتھ میں درخت کا تنا دیکھ کر ڈرگیا۔ اس نے سوچاکہ یقیناََیہ شخص اس سے زیادہ طاقتور ہے وہ وہاں سے بھاگنے لگا، ہرکولیس اس کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔

شیر اس قدر ڈرگیا تھا کہ وہ اپنی جان بچانے کے لیے ایک غار میں گھس گیا۔ ہر کولیس نے بھی غار میں داخل ہو گیا، شیر کی تو جیسے جان ہی نکل گئی۔ وہ غار کے ایک کونے میں دبک گیا ۔ ہر کولیس اس کے پاس آیا اور اس نے بڑی پھرتی سے شیر کا منہ پکڑ کراسے ایک طرف، جھٹکادے کراس کی گردن توڑدی، شیر وہیں ڈھیر ہوگیا۔ ہرکولیس نے شیر کو غار سے باہر نکالا اور اسے اپنے کندھوں پر اٹھا کر بادشاہ کے پاس لے آیا۔ وہ چاہتاتھا کہ بادشاہ خود اپنی آنکھوں سے شیر کے مرجانے کی تسلی کرلے۔ 

شیر اس قدر بڑاتھا کہ مرجانے کے باوجود ، لوگ اس کے قریب آنے سے گھبرارہے تھے۔ہرکولیس کی بہادری سے بادشاہ اس قدر خوش ہو ا کہ اس نے اسے ہمیشہ کے لیے اسےاپنے محل میں رکھ لیا۔ ایک دن بادشاہ نے ہرکولیس کو ایک بڑے جنّ کو مارنے کے لیے بھیجا، جس نے پوری سلطنت میں افراتفری مچارکھی تھی۔ ابھی ہرکولیس سے جنّ کومارنے کے بارے میں بات ہو ہی رہی تھی کہ شہر میں شور مچنے لگا ۔ لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے ادھر اُدھر بھاگنے لگے۔ معلوم ہو اکہ جنّ نے شہر پر حملہ کردیا ہے۔

ہرکولیس، اس طرف بھاگا، جہاں وہ جن انسانوں کو کھا رہاتھا ۔ ہرکولیس نے جنّ کو اٹھا کر زمین پر دے مارا۔ جنّ زمین سے اٹھا تو اس کا جسم پہلے سے زیادہ بڑا ہوگیا۔ ہرکولیس نے اسے اٹھا کر پھر زمین پر پٹخ دیا، مگر جنّ پہلے سے بھی زیادہ طاقتور اور بڑا ہو گیا تھا۔ ہرکولیس معاملہ سمجھ گیا۔ ا س نے نے ایک اونچی چھلانگ لگائی اورجن کی گردن سے چمٹ گیا۔ 

اس نے جن کی گردن کو اپنے دونوں ہاتھوں سے اس قدر زور سے دبایا اور اپنا شکنجہ مضبوط کرتا چلا گیا۔ جن نے بہت ہاتھ پاؤں مارے ، مگر وہ ہر کولیس کو اپنی گردن سے نہیں ہٹا سکا۔ آخر کار وہ سانس گھٹنے سے مر گیا۔ لوگوں نے اس دن خوب جشن منایا اور ہرکولیس کی بہادری کےگن گاتے رہے ، جس نے انہیں اتنی بڑی مصیبت سے نجات دلائی۔ بادشاہ ہرکولیس کے کارناموں پر بہت خوش تھا۔ اس نے اُسے بہت سے انعام و اکرام سے نوازا۔