• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عارفہ سیدہ زہرا ماہر تعلیم ہیں۔اردو سے عشق کرنے والی، بہت دھیمے موثر کن لہجے میں بات کرنے والی عصرِ حاضر کی ایسی شخصیت ہیں کہ ان کی گفتگو سنتے ہوئے دھیان کسی دوسری طرف جا ہی نہیں سکتا۔ انھوں نے پہلے لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی ، پھر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔ آج کل’’ فارمن کرسچن‘‘ کالج میں تاریخ کی پروفیسر ہیں اور لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی کی سابقہ ​​پرنسپل ہیں۔

ذیل میں ان کے ایک لیکچر کا اقتباس ملاحظہ کریں۔

ایک ہزار کا پیزایا پانچ سو کی کتاب، اہمیت کس کی؟

آدمی ایک مادی وجود ہے اور انسان ایک اخلاقی۔ آدمی سے ایک انسان کیسے ہوتا ہے؟ جب درمیان میں کتاب آجاتی ہے۔ اور خواہ وہ کتاب خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے والی ہو۔ زندگی کا حوالہ لکھے ہوئے حرف یعنی کتاب کے بغیر مکمل نہیں ہے۔

کہا جاتا ہے کہ مطالعے کی عادت مر چکی ہے۔ اب جسے مرنا کہتے ہیں تو ہر کسی کے مرنے کا انتظار نہیں کرتےجب اکثریت مر چکی ہوتی ہے تو وہ مرجاتی ہے۔ اگر اقلیت زندہ رہ جاتی ہے تو اسے کوئی زندگی نہیں کہتا۔ ہم نے جان بوجھ کر خود کو علم سے دُور کیا ہے۔ ہم ہُنر کے پیچھے ہیں۔ ہم علم روزگار کے لیے حاصل کرتے ہیں، زندگی کے لیے نہیں۔ 

دل کی سیاہی پتہ نہیں کم ہوئی نہ ہوئی ،مگر بالوں کی ساری سیاہی یہی بات کہتے ہوئے گنوا دی، کہ زندگی کے لیے علم کی ضرورت ہے۔یہ جو کتاب سے، حرف سے علم سے رشتہ ہے، یہ دراصل علم کا ایک دوسرے کی طرف ورثے کے منتقل ہونے کا واحد ذریعہ ہے۔ مطالعے کی عادت ہمارے ہاں ختم ہوتی جارہی ہے ۔معاشرے سے استاد کی قدو قامت کم کر دیجیے تو کتاب تو درمیان سے خود بخود ہٹ جائےگئی۔

موجودہ دور میں معاشرے کی ترجیحات دیکھیے۔ اخبار میں اشہار آتا ہے "ایک ہزار کا پیزا سستا ہے” چار لوگ کھا سکتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ ایک پیپسی کی بوتل راحتِ جاں کے لیے مفت ساتھ آتی ہے۔ جب کوئی ہم سے یہ کہتا ہے کہ پانچ سو روپے کی کتاب خرید لو تو ہم کہتے ہیں کتابیں بہت مہنگی ہوگئی ہیں۔ ایک ہزار روپے کا پیزا چار لوگ کھاتے ہیں اور صبح تک اس کو کسی تہذیب میں شمار نہیں کیا جاتا، جبکہ پانچ سو روپے کی کتاب ایک شخص خریدتا ہے اور شاید سو لوگ اس کو استعمال کرسکتے ہیں اور وہ ہمیشہ تہذیب میں شمار کی جاتی ہے۔ 

ہم بڑی مدت سے خود فریبی میں مبتلا ہیں، معذرت کے ساتھ، مایوسی نہیں ہے لیکن کبھی کبھی اپنا چہرہ بھی دیکھ لینا چاہیے، گو کہ ہمارے چہرے ہم سے ہمیشہ ہی جھوٹ بولتے ہیں۔ ہم نے ابھی تک خود فریبی سے اپنے آپ کو الگ نہیں کیا۔ خود فریبی میں لطف یہ ہے کہ وہ نظر آتا ہے جو نہیں ہوتا اور جو ہوتا ہے وہ نظر نہیں آتا۔ صرف کتاب وہ آئینہ ہے جو وہ دکھا دیتی ہے کہ جو تھا جو ہے اور جو ہوگا اور جو ہوسکتا ہے۔