• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ میں اس وقت سب سے اہم چیز قانون کی حکم رانی نہ ہونا ہے، خاص طور پر ایسے عناصر کے خلاف جو کہ انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں اور انہیں موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔ صورتِ حال یہ ہے کہ پُورے سندھ میں اس وقت ڈیری کی دکانوں پر جو دودھ کے نام پر زہر فروخت کیا جا رہا ہے، اس میں دودھ نام کی سرے سے کوئی چیز ہی نہیں، بلکہ کیمیکل سے تیار کردہ اس سفید پانی کے استعمال سے کینسر جیسا مرض اور اس کے علاوہ معدے کے بے شمار امراض جنم لے رہے ہیں۔ 

اس سلسلے میں گزشتہ دِنوں ڈاکٹر طارق نورانی نے اسسٹنٹ کمشنر کے ہمراہ شہر کی دودھ دکانوں پر چھاپے مارے، تو معلوم ہوا کہ وہ دودھ نہیں، بلکہ کیمیکل تھا اور جس میں ڈاکٹر طارق نورانی کے مطابق ڈیٹرجنٹ پاؤڈر، یوریا کھاد نشاشتہ اور چینی کی آمیزش سے یہ دودھ میں زہر تیار کیا گیا تھا۔ اس دودھ کے استعمال سے انسانی جسم پر جو مضر اثرات مرتب ہوں گے، وہ تو اپنی جگہ ہے، لیکن یہ دودھ اگر چھ ماہ بھی پڑا رہے، تو خراب نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ اس دودھ کے استعمال سے چھوٹے بچے، بزرگوں اور نوجوانوں سمیت پوری آبادی مختلف قسم کے امراض کا شکار ہو رہی ہے اور صرف دودھ ہی نہیں، مکھن بنانے کے نواب شاہ سمیت پورے سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں میں کارخانے لگے ہوئے ہیں، جہاں پر یہ مکھّن بنایا جارہا ہے اور اس سلسلے میں ذرائع کے مطابق یہ مکھن نہیں، بلکہ کیمیکل سے تیار کیا گیا ایک نسخہ ہے، جس کو مکھن کا نام دیا گیا ہے۔ 

اس سلسلہ میں ذرائع کا یہ کہنا ہے مختلف ممالک سے آنے والے پام آئل میں 15 قسم کے کیمیکل ڈال کر اس کو مکھن کی شکل دی جاتی ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس مکھن کو تمام بیکری جن میں بہت مشہور اور برانڈزہونے کا دعویٰ کرنے والی بیکری ہو یا بڑی بڑی مٹھائی کی دُکانیں، یہ سب اسی مکھن کو استعمال کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں بیکری مالک نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ ان فیکٹریوں میں تیار ہونے والا مکھن تین سو چالیس روپے کلو کے چار سو روپیہ کلو اور زیادہ سے زیادہ سات سو روپے کلو فروخت کیا جا رہا ہے، جب کہ اس سلسلے میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ گائے اور بھینس کا مکھن چودہ سو روپے کلو فروخت ہو رہا ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان فیکٹریوں میں تیار ہونے والا یہ مکھن حاصل کیا چیز ہے۔ 

اس سلسلے میں امیگریشن آفس کا کہنا تھا کہ دراصل یہ مکھن نہیں، بلکہ کیمیکل ہے، جس کو مکھن کی شکل دی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے استعمال سے سب سے پہلے انسانی جسم پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس میں معدے کی بیماریاں سر فہرست اور اس کے بعد جگر اور گردے کے امراض اور اس کے علاوہ دماغی کینسر بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ اس مکھن کے علاوہ شہر میں ڈیری کی دکانوں پر جو کیمیکل شدہ دودھ فروخت ہو رہا ہے، وہ بھی اسی طرح کی امراض کو پھیلانے میں مدد گار ہو رہا ہے۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ مکھن اور دودھ کے استمال اور اس کے فروخت کے نتیجے میں جو مریض آرہے ہیں، میں ایسی بیماریاں بھی سامنے آگئی ہیں، جس کی تشخیص نہیں ہونے پا رہی ہیں۔ 

دوسری جانب اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر ڈائریکٹر کینسر اسپتال کا کہنا تھا کہ اس وقت اسپتال میں جسم کے مختلف حصوں کے کینسر میں مبتلا مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ مختلف کھانے پینے کی چیزیں جس میں دودھ مکھن اور اس کے علاوہ مسالہ جات میں جو کیمیکل استعمال ہو رہے ہیں اور جو رنگ استعمال کیا جا رہا ہے، اس کی وجہ سے بھی کینسر کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اسپتال میں مریضوں کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔ دوسری جانب سے رابطہ کرنے پر ایس ایس پی امیر سعود مگسی کا کہنا تھا کہ کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ ایک انسانیت سوز جرم ہے، لیکن انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے پولیس کے پاس کوئی ایسی بات نہیں ہے، جس کی وجہ سے یہ جُرم قابل دست اندازی پولیس ہو سکے۔ 

دوسری جانب صورت حال یہ ہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے سندھ فوڈ کنٹرول اتھارٹی تو بنا دی گئی ، لیکن اس کی غیر فعالیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاتا ہے کہ کراچی شہر کے لیے جہاں پر ہر چیز میں ملاوٹ کی جارہی ہے، دودھ مکھن مثالیں تو کیا، تمام چیزیں ملاوٹ شدہ فروخت کی جارہی ہیں، لیکن اس کو جانچنے کے لیے محکمہ فوڈ کنٹرول اتھارٹی کے ذرائع کے مطابق صرف دس موبائل رینج جن میں یہ آلات لگے ہوئے ہیں، کام کر رہی ہیں اور ان سے بھی جو عملہ تعینات ہیں، وہ بھی انتہائی کم ہیں اور اس طرح صرف کراچی شہر میں اس زہر کو فروخت کرنے والوں کی کار کردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید