• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: سیمسن جاوید..... نیو کاسل
تحریک انصاف کی حکومت کوعدم اعتماد سے ساڑھے تین برس میں ہی فارغ کر دیا گیا جسے سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کی پارٹی نے امریکہ کی ساز ش قرار دیا ، پی ٹی آئی احتجاج کا راستہ اپناکر موجودہ حکومت کے لئے زیادہ سے زیادہ مشکلات پیدا کرنے کی کوششوں میں لگی ہے۔ حسبِ معمول عمران خان اور ان کے ساتھی ہر جلسے میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے خلاف عوام کے جذبات کو ابھا رنے میں بڑا کردار ادا کر رہے ہیں، اب جب کہ نئی حکومت آچکی ہے اور انتخابی اصلاحات کی بات کی جا رہی ہے توپیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے مسیحی رکن عامر نوید جیوا نے اسمبلی کے فلو رپر گفتگو کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اقلیتوں کی مخصوص نشستوں میں اضافہ کیا جائے، انہوں نے انتخابی اصلاحاتی کمیٹی میں اقلیتی رکن کی تجویز بھی پیش کی ہے۔دوسری طرف فوادچوہدری،شیخ رشید اور عمران خان کا مطالبہ ہے کہ فوری الیکشن کروائے جائیں ۔الیکشن کی صورت میں وہ انتخابی اصلاحات پر تعاون کر سکتے ہیں۔عمران خان کہاں تک موجودہ حکومت کے لئے مشکلات پیدا کرسکیں گے ۔ پانی، بجلی ،پٹرول کا بحران اور نئی حکومت کے آنے سے غیر ملکی کرنسی کے ریٹ میں اضافہ ہوا ہے جس سے مہنگائی پر کنٹرول کرنا مشکل ہوگیا ہےسیاسی اور معاشی صورتحال مزید خراب ہوتی جا رہی ہے،اس ساری صورتحال میں نئی حکومت کی حکمت عملی ابھی تک واضح نہیں ہے ،موجودہ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ پاکستان کی سیاست کو بند گلی میں لے جانے سے سے روکے اورمخالفین کو بھی قانونی راستہ اختیار کرنے کی حکمت عملی اپنانا چاہئے، اگرچہ الیکشن کمیشن نے کہہ دیاہے کہ فوری الیکشن کروانا ممکن نہیں، سیاسی تجزیہ نگارجانتے ہیں کہ جلد الیکشن ناممکن ہیں اور نہ ہی الیکشن سیاسی کشیدگی کم کرنے کا حل ہوں گے، فوج نے صاف کہہ دیا ہے کہ فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔ ہماری دعا ہے کہ خدا ہمارے ملک کو ہر خطرناک صورتحال سے بچائے۔ اقلیتیں ہمیشہ پاکستان کی وفا دار رہی ہیں اور حصول پاکستان میں قائد اعظم کا بھر پور ساتھ دیا مگر بدقسمتی سے قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے ساتھ ہی مسیحی سیاسی لیڈروں کے کردار کو غیر فعال بنا دیا گیا ،اس پر المیہ یہ ہے کہ مسلسل اقلیتوں کے انتخابی نظام پر تجربات آزما ئے جا رہے ہیں، 2002سے اقلیتیں ووٹ کے حق کا مطالبہ کر رہی ہیں مگر اْن کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی،اس مطالبہ کےپورا نہ ہونے کی ایک وجہ مذہبی اقلیتوں خود بھی ہیں کہ وہ حکومت کی طرف سے دیا گیا سلیکشن کے لولی پوپ سے بہل گئی ہیں یا کسی ایک سیاسی نقطہ پر اتفاق نہ ہونا بھی ہے۔اپر کلاس طبقہ اور خصوصاً وہ جو سلیکشن سسٹم سے سلیکٹ بار بار سلیکٹ ہو رہے ہیں وہ سلیکشن ہی کو بہتر سمجھتے ہیں ،سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے جو خود کو سیاسی کارکن کہتے ہیں وہ جداگانہ انتخابات کو سپورٹ کرتے اور حکومت سے ووٹ کے حق کا مطالبہ کر رہے ہیں تیسرا طبقہ دوھرے ووٹ کا مطالبہ کرتا ہے تاکہ وہ اپنے نمائندوں کو بھی ووٹ دیں اور اپنے حلقے کے مسلم امیدوار کو بھی ووٹ دیں تاکہ اس کی بہترشنوائی ہوسکے ۔ ایک بات طے ہیں کہ جب تک مذہبی اقلیتوں کو اپنے نمائندے خود منتخب کرنے حق نہیں دیا جاتا اقلیتوں کی حقیقی لیڈر شپ ابھر کرسامنے نہیں آ سکے گی اور ان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ سلیکٹڈ نمائندے اپنی کمیونٹی کے حقوق دلانے اور قانون سازی کروانے میں بے بس ہیں، امید تھی کہ پی ڈی ایم کی نئی بننے والی حکومت جس مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی جو پی ڈی ایم میں بڑی سیاسی جماعتیں ہیں، مذہبی اقلیتوں کے حوالے سے کوئی سیاسی پالیسی سامنے لائیں گی مگر سخت مایوسی ہوئی،اب دیکھنا یہ ہے کہ انتخابی اصلاحات کمیٹی میں اقلیتی نمائندے لئے جاتے ہیں اور کیا یہ اقلیتی نمائندے کمیٹی میں ووٹ کے حق کا مطالبہ رکھیں گے، سیاسی کارکن جو عرصہ دراز سے جداگانہ او حلقہ بندیوں کے ساتھ مطالبہ کر رہے ہیں اپنے اس مطالبے کی منظوری کے لئے اقلیتی نمائندوں پر اپنا دباؤ کس حد تک بڑھاتے ہیں۔
یورپ سے سے مزید