• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لانگ مارچ، PTI،حکومت کو ایچ 9 گراونڈ میں جلسےکی اجازت پر مشاورت کاحکم


سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی اور حکومت کو ایچ 9 گراونڈ میں جلسے کی اجازت پر مشاورت کا حکم دیدیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ سپریم کورٹ میں عمران خان کے لانگ مارچ کے باعث راستوں کی بندش اور چھاپوں کیخلاف کیس کی سماعت کر رہا ہے۔

وقفے کے بعد کیس کی سماعت دوبارہ شروع کی گئی تو سپریم کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے بابر اعوان پیش ہوئے، تحریک انصاف نے ایچ نائن گراؤنڈ دینے کی استدعا۔

بابر اعوان نے کہا کہ عمران خان نے 4 مطالبات رکھے ہیں، پی ٹی آئی نے جے یو آئی کو بھی دھرنے کے لیے ایچ نائن گراونڈ دیا تھا۔

بابر اعوان نے کہا کہ تمام گرفتار کارکنان کو رہا کیا جائے، تمام کنٹینرز اور رکاوٹیں ہٹائی جائیں۔

سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو پی ٹی آئی کے ایچ 9 گراؤنڈ میں جلسے کی اجازت کے مطالبے پر ہدایات لے کر عدالت کو آگاہ کرنے کا حکم دیا۔

عمران خان کے لانگ مارچ کے باعث راستوں کی بندش اور چھاپوں کیخلاف کیس کی آج کی سماعت میں  چیف کمشنر کو پی ٹی آئی جلسے کے لیے متبادل جگہ فراہم کرکے رپورٹ کرنے کا کہا گیا۔

سپریم کورٹ میں جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس میں چیف کمشنر کو حکم دیا کہ پلان ترتیب کرکے لائیں کہ جلسہ کہاں ہوگا اور ٹریفک پلان کیا ہوگا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پی ٹی آئی کو متبادل جگہ کی پیش کش کریں اور اس پر مذاکرات کے بعد عدالت کو آگاہ کریں۔

کیس کی سماعت میں طلبی کے بعد آئی جی اسلام آباد بھی سپریم کورٹ میں پیش ہوگئے،  جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ سیکریٹری داخلہ اور آئی جی اسلام آباد اپنی پالیسی پر نظر ثانی کریں۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے آئی جی اسلام آباد سے مکالمہ کیا کہ آئی جی صاحب آپ 4 دن پہلے تعینات ہوئے،آپ پر پہلے ہی بہت کیسز اور الزامات کا بوجھ ہے، اپنے آپ میں رہیں، اپنی ذمہ داریاں سمجھیں اور پوری کریں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ نے سب کا تحفظ کرنا ہے، کوئی کہیں بھی ہو، پاکستان ادھر ہی ہے، اگر پی ٹی آئی کو گرفتاری کا خطرہ ہے تو ہمیں نام بتائیں،حفاظتی حکم دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ملک ہے تو ہم ہیں،آپس کی لڑائیوں میں شہریوں کو مشکل میں مت ڈالیں۔

سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے وکیل کو قیادت سے ہدایات لے کر آگاہ کرنے کا حکم دے دیا۔

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ پی ٹی آئی نے سری نگر ہائی وے پر دھرنے کی درخواست دی جو مسترد کر دی گئی، عمران خان کی زندگی کو خطرہ ہے۔

اشتر اوصاف نے کہا کہ حساس اداروں کی رپورٹ کے مطابق عمران خان پر خودکش حملے کا خطرہ ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے مکاملے میں کہا کہ آپ اصل ایشو سے دور جا رہے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن  نے استفسار کیا کہ کیا پولیس چھاپے مار کر لیڈرز اور کارکنوں کو حفاظتی تحویل میں لے رہی ہے؟  راتوں کو گھروں میں چھاپے مارنے سے کیا ہوتا ہے؟ حکومت کو سری نگر ہائی وے کا مسئلہ ہے تو لاہور سرگودھا اور باقی ملک کیوں بند ہے؟

کیس کی سماعت میں صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے کہا کہ ایک سڑک بند ہونے سے بچانے کیلئے پورا ملک بند کر دیا گیا، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ انتظامیہ مکمل پلان پیش کرے کہ احتجاج بھی ہو اور راستے بھی بند نہ ہوں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر اتنا خطرہ ہے تو حکومت ہدایات جاری کر دے کہ کوئی مارچ نہیں ہو گا،  کیا سیاسی قیادت کو خطرہ صرف سری نگر ہائی وے پر ہی ہے؟

جسٹس مظاہر نقوی کا کہنا تھا کہ سیکریٹری داخلہ صاحب جو کچھ ملک میں ہو رہا ہے اسکی ذمہ داری لیتے ہیں؟ سیکریٹری داخلہ نے جواب دیا کہ لاء اینڈ آرڈر صوبوں کا کام ہے۔ 

جسٹس مظاہر نقوی نے سیکریٹری داخلہ سے مکالمہ کیا کہ کیا وزارت داخلہ صرف ڈاکخانے کا کام کرتی ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن  نے استفسار کیا کہ کیا وزارت داخلہ نے کوئی پالیسی ہدایات جاری کی ہیں؟

وفاقی سیکریٹری داخلہ نے بتایا کہ وزارت داخلہ نے صوبوں کو کوئی ہدایت نامہ جاری نہیں کیا، جسٹس اعجازالاحسن کا سوال کیا کہ سیکیورٹی تھریٹ کی رپورٹ کس نے دی ہے؟ سیکرٹری داخلہ نے بتایا کہ دو انٹیلیجنس ایجنسیوں اور نیکٹا نے سیکیورٹی تھریٹ رپورٹ دی ہے۔

جسٹس اعجاز نے کہا کہ ایسا پلان دیں کہ مظاہرین پرامن طریقے سے آئیں اور احتجاج کے بعد گھروں کو لوٹ جائیں، عدالت کو یقین دہانی کرائیں کہ تشدد نہیں ہو گا اور راستے بھی بند نہیں ہوں گے، سب بہاریں پاکستان کی وجہ سے ہیں۔

اس موقع پر درخواست کی سماعت میں 2:30 بجے تک کا وقفہ دے دیا گیا۔

اس سے قبل کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو حکومت سے ہدایت لینے کی اجازت دی، سیکریٹری داخلہ، چیف کمشنر، کمشنر اور آئی جی اسلام آباد کو طلب کرلیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ بنیادی طور پر حکومت کاروبار زندگی ہی بند کرنا چاہ رہی ہے کیا ہر احتجاج پر پورا ملک بند کر دیا جائے گا؟

عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ اسلام اباد میں تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ، اسکول اور ٹرانسپورٹ بند ہے، معاشی لحاظ سے ملک نازک دور اور دیوالیہ ہونے کے درپے ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ سپریم کورٹ کا آدھا عملہ راستے بند ہونے کی وجہ سے پہنچ نہیں سکا، اسکولوں کی بندش اور امتحانات ملتوی ہونے کے سرکاری نوٹیفکیشن جاری ہوئے ہیں۔

اس موقع پر سپریم کورٹ نے سماعت میں سیکریٹری داخلہ، چیف کمشنر، کمشنر اور آئی جی اسلام آباد کو طلب کرلیا، جبکہ وفاقی اور صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی بلالیا گیا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کیس کی سماعت میں 12 بجے تک کا وقفہ دیا۔

قومی خبریں سے مزید