جرائم کی دُنیا میں قتل اغواء ڈکیتی اور لُوٹ مار کے علاوہ کار موٹر سائیکل چھیننے کی وارداتیں بھی اب عام سی بات ہوگئی ہے، لیکن اس کی روک تھام کے لیے پولیس کے وسائل بھی ناکافی ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک تو پولیس نفری کی کمی اور اس کے علاوہ یہ کہ نفری ہونے کے باوجود پولیس کی کارکردگی بھی ان جرائم کے خاتمے کے لیے رکاوٹ بنتی جا رہی ہے۔
اس سلسلے میں یہ حقیقت ہے کہ پولیس کے پاس وہ وسائل نہیں، جو اس وقت ایک عام جرائم پیشہ افراد استعمال کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان جرائم پیشہ افراد نے باقاعدہ ایک گینگ بناکر اور اس کے بعد جدید طریقے سے وہ ان رکاوٹوں کو عبور کرتے ہیں، جو پولیس کی جانب سے ان کی راہ میں کھڑی کی جاتی ہے۔
دل چسپ صورتِ حال یہ ہے کہ جرائم پیشہ افراد کے گروہ کے لیے سب سے رابطے کا آسان ذریعہ موبائل فون ہے، جس کے ذریعے سے وہ ریکی کرتے ہیں اور اس کے بعد اپنے ہدف تک پہنچ جاتے ہیں۔ نواب شاہ شہر میں بینکوں سے کیش لے کر جانے والے لوگوں کو لوٹنے کے واقعات بھی تواتر سے ہوئے ہیں، ہوتا یہ ہے کہ ایک شخص کاونٹر سے کیش لے کر جو ہی نکلتا ہے، تو بینک میں موجود جرائم پیشہ افراد کے گروہ، کارکن اپنے موبائل کے ذریعے فوری طور پر آگاہ کرتا ہے اور اس کے بعد باقاعدہ طور پر انہیں یہ بھی اطلاع دی جاتی ہے کہ اس شخص کے پاس کیش موجود ہے اور اس کا شناختی علامات بھی بتا دی جاتی ہے اور جس کے بعد اس کی ریکی شروع ہوتی ہے اور وہ ڈکیتی پر منظم ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ گاڑیوں کی چوری اور چھیننے کی وارداتیں بھی اسی موبائل فون کے ذریعے اطلاعات بہم پہنچا کر کی جاتی ہے، یہاں تک کہ عدالتوں میں پیشی سے آنے والے مخالفین پر حملے اور انہیں قتل کرنے کے واقعات بھی اسی موبائل فون کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ تاہم یہاں تک ان وارداتوں کا تعلق ہے، تو اس سلسلے میں پولیس کی جانب سے بھی بھرپور طریقے سے اس کے سدباب کی کوششیں جاری رہتی ہیں، لیکن چوں کہ محدود وسائل کے باعث پولیس ان تمام واقعات کے ملزمان کو گرفتار کرنے میں کام یاب نہیں ہوتی، اس لیے ان جرائم پیشہ افراد کے حوصلے بلند ہوتے ہیں اور وہ ایک واردات کے بعد دوسری واردات کی پلاننگ میں لگ جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں یہ حقیقت ہے کہ جرائم کی روک تھام کے لیے پولیس کو جس طرح کے وسائل مہیا ہونے چاہیے وہ نہیں ہوتے اور بعض اوقات صورت حال یہ ہوتی ہے کہ جرائم پیشہ گروہ کے خاتمے کے لیے پولیس افسران اور جوانوں کے پاس اس طرح کے ہتھیار نہیں ہوتے جو کہ جرائم پیشہ افراد کے پاس ہوتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے بعض مقابلوں میں پولیس کے جوان اپنی جان سے چلے جاتے ہیں۔ تاہم اس سلسلے میں صورت حال میں کافی تبدیلی آ رہی ہے اور جہاں تک پولیس ڈیپارٹمنٹ کا تعلق ہے تو اس میں جدید ترین ہتھیار اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بھی بڑھ گیا، جس کی ایک مثال نواب شاہ میں سیف سٹی پروجیکٹ کا قیام ہے۔
سابق صدر اور نواب شاہ سے منتخب ممبر قومی اسمبلی آصف علی زرداری کی ہدایت پر تین کروڑ روپے کی لاگت سے دو سو سی سی ٹی وی کیمروں اور جدید سسٹم سے آراستہ سیف سٹی پروجیکٹ کا افتتاح ایم پی اے علی حسن زرداری نے کیا۔ اس سلسلہ میں پولیس لائن میں تقریب منعقد کی گئی۔ اس موقع پر علی حسن زرداری کہنا تھا کہ شہر کو جرائم پیشہ عناصر کی سرگرمی سے محفوظ کرنے اور اس کے علاوہ کار چوری، موٹر سائیکل چھیننے کی وارداتوں کے خاتمے کے لیے سیف سٹی پروجیکٹ کا منصوبہ بنایا گیا۔
ان کا کہنا مزید تھا کہ اس سلسلے میں سابق صدر آصف علی زرداری کی ہدایت پر یہ کام شروع کیا، لیکن انہوں نے کہا کہ تین کروڑ روپے کی لاگت سے بنائے گئے اس منصوبے میں سرکاری فنڈ کا کوئی استعمال نہیں کیا گیا، بلکہ شہریوں نے اور منتخب قیادت نے جن میں سابق صدر آصف علی زرداری اور وہ خود شامل ہیں۔
انہوں نے اس میں فنڈز فراہم کیے ہیں اور اس طرح 200 سی سی ٹی وی کیمروں سے آراستہ یہ سسٹم ، شہر کی مین شاہ راہوں اور تجارتی مراکز میں لگائے گئے ہیں۔ اسلام آباد اور لاہور کے بعد یہ تیسرا شہر ہے، جہاں پر سیف سٹی پروجیکٹ لگایا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کیمروں کی مانیٹرنگ کے ذریعے جرائم پیشہ افراد پر نگاہ رکھنا آسان ہو گی۔
اس موقع پر ایس ایس پی امیر سعود مگسی نے میڈیا کو بتایا کہ سیف سٹی پروجیکٹ میں جو آلات استعمال کیے گئے ہیں، وہ انتہائی جدید ہیں ، اسلام آباد میں جو سیف سٹی پروجیکٹ لگایا گیا ہے، اس سے بھی زیادہ بہتر نواب شاہ کے کیمروں کی کارکردگی ہے۔ صرف سیف سٹی پروجیکٹ کو پولیس لائن میں قائم کنٹرول روم کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے، جب کہ ان کا کہنا تھا کہ پہلے مرحلے میں سٹی کے تمام مارکیٹیں سرکاری ادارے، اسکول اور کالج کے داخلی اور خارجی راستوں پر لگائے گئے ہیں۔ شروع میں 1000 کیمروں کی صلاحیت موجود ہے، مین سرور میں ایک ماہ کی ریکارڈنگ کی صلاحیت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جدید کیمروں میں نائٹ ویژن کی صلاحیت جو رات کی تاریکی میں کسی بھی شخص کی نشاندہی باآسانی کر سکتا ہے، موجود ہے۔ ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ شہر کے راستوں پر 27 سے زائد کیمرے نصب کیے گئے ہیں، جو انسانی شکل کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ سی سی ٹی وی کنٹرول روم میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے تربیت یافتہ اسٹاف کو تعینات کیا گیا ہے، جو 24 گھنٹے اس کی نگرانی کریں گے۔ دوسرے فیز میں داخلہ کے دیگر تحصیل باندھی دوڑ 70اور دولت پور میں یہ کیمرے نصب کیے جائیں گے۔
پروجیکٹ کے ذریعے جرائم کی وارداتوں کی نشاندہی کو یقینی بنایا جائے گا، جب کہ ان کا کہنا تھا کہ امن و امان کی صورت حال کو مستحکم رکھنے کے لیے سی سی ٹی وی کیمرہ اہم سنگ میل ثابت ہوں گے، جس سے ملزمان کی نشاندہی باآسانی ہوسکے گی۔ سی سی ٹی وی کیمرے کی مدد سے اہم پروگرام جن میں رمضان شریف، محرم کے علاوہ دیگر تقریبات شامل ہیں، ان کو مانیٹر کیا جا سکے گا۔
اُدھر شہریوں کی جانب سے بھی اس سیف سٹی پروجیکٹ کے سلسلے میں عوام نے بھی خوشی کا اظہار کیا ہے۔ تاہم اس سلسلے میں شہریوں کی بھی ذمےداری ہے کہ وہ ان کے کیمروں کی حفاظت کریں، جب کہ سیاسی جماعتیں بھی ان کے اوپر اپنے جھنڈے نصب کرنے سے گریز کریں، تاکہ این سی سی ٹی وی کیمروں کی کارکردگی متاثر نہ ہو۔