• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حج اسلام کا بنیادی رُکن ایک مقدس دینی فریضہ

ڈاکٹر سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری

ارشادِ ربّانی کے بہ موجب اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کے لیے حج بیت اللہ فرض کردیا ہے جوخانۂ خدا (کعبۃ اللہ) تک پہنچنے کی طاقت رکھتے ہیں۔’’حج‘‘ دین کا بنیادی رکن اور ایک مقدس دینی فریضہ ہے۔ فریضۂ حج کی ادائیگی اور بیت اللہ میں حجا ج کرام کی حاضری لازم وملزوم ہے۔حج کا تصور ذہن میں آتے ہی خانۂ خدا کعبۃ اللہ کی عظمت وجلالت اور اس کا تصورذہن میں گھومنے لگتا ہے۔ بیت اللہ کو اللہ جل شانہ کی عبادت کے لیے تعمیر کیے جانے والے پہلے گھر کا شرف حاصل ہے۔ 

حج کی فرضیت قرآن کریم، احادیث نبویؐ اور اجماع امت سے ایسے ہی ثابت ہے، جیسا کہ نماز، روزہ اور زکوٰۃ کی فرضیت ثابت ہے، اس لیے جو شخص حج کی فرضیت کا انکار کرے، وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا ، زکوٰۃ دینا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔(صحیح بخاری)

انسانی طبیعت یہ تقاضا کرتی ہے کہ انسان اپنے وطن، اہل و عیال ، دوست ، رشتے داروںاور مال و دولت سے انسیت ومحبت رکھے اور ان کے قریب رہے۔ جب آدمی حج کے لیے جاتا ہے، تو اسے اپنے وطن ، بیوی بچوں، رشتے داروں، عزیز واقارب کو چھوڑ کر، مال و دولت خرچ کرکے فریضہ ٔ حج کی ادائیگی کے لیے جانا پڑتا ہے۔ یہ سب اس لیے کرنا پڑتا ہے کہ حج کی ادائیگی شریعت کا حکم ہے۔

یہی وجہ ہے کہ شریعت نے حج کے حوالے سے بہت ہی رغبت دلائی ہے، انسان کوکعبہ مشرفہ کے حج و زیارت پر ابھارا، مہبط وحی و رسالت کے دیدار کا شوق بھی دلایا اورسب سے بڑھ کر شریعت نے حج کا اتنا اجر و ثواب متعین فرمایا ہے کہ سفر حج رب کے حضور اعتراف ِ بندگی کا مظہر اور ایک عاشقانہ سفر بن جاتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کون سے اعمال افضل ہیں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ اور اس کے رسول ﷺپر ایمان لانا، عرض کیاگیا پھر ؟ آپ ﷺ فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ عرض کیا گیا، پھر کون سا عمل ؟آپ ﷺ نےارشاد فرمایا: حج مبرور۔(صحیح بخاری شریف،:۹۱۵۱)

حج مبرور سے مراد وہ حج ہے،جس کے دوران کوئی گناہ کا ارتکاب نہ ہوا ہو۔ وہ حج جو اللہ کے یہاں مقبول ہو۔ وہ حج جس میں کوئی ریا اورنام نمود مقصود نہ ہو اور جس میں کوئی فسق و فجور نہ ہو۔ وہ حج جس سے لوٹنے کے بعد گناہ کی تکرار نہ ہو اور نیکی کا رجحان بڑھ جائے ۔ وہ حج جس کے بعد آدمی دنیا سے بے رغبت ہوجائے اور آخرت کے سلسلے میں بھرپور دل چسپی دکھائے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ان(گناہوں)کا کفارہ ہے، جو ان دونوں کے درمیان ہوئے ہوں، اور حج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہے۔(صحیح بخاری،صحیح مسلم) 

ایک حدیث میں حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اور اس نے (اس دوران) فحش کلامی، جماع اور گناہ نہیں کیا ، تو وہ (حج کے بعد گناہوں سے پاک ہوکر اپنے گھراس طرح) لوٹا، جیسا کہ اس کی ماں نے اسے آج ہی جنا ہو۔ (بخاری شریف، :۱۵۲۱) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: بڑی عمر والے، کمزور شخص اور عورت کا جہاد: حج اور عمرہ ہے۔ (السنن الکبریٰ ، مسند احمد، للبیہقی) امّ المومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: میں نےعرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا ہم آپﷺ کے ساتھ جہاد اور غزوے میں شریک نہ ہوں؟ آپﷺ نے فرمایا: سب سے بہتر اور اچھا جہادحج مبرور ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب سے میں نے رسول اللہﷺ سے یہ سنا ہے، تو اس کے بعد سے حج نہیں چھوڑا ۔ (بخاری شریف)

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: حج اور عمرہ پر دوام برتو، کیوں کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو ختم کرتے ہیں ، جیسا کہ دھونکنی لوہے سے زنگ کو دور کردیتی ہے۔ (المعجم الاوسط، حدیث: ۳۸۱۴) ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: حج اور عمرہ ایک ساتھ کیا کرو، کیوں کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو مٹاتے ہیں، جیسا کہ بھٹی لوہے، سونے اور چاندی سے زنگ ختم کردیتی ہے اور حج مبرور کا ثواب جنت ہی ہے۔ (ترمذی شریف، : ۸۱۰)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ کے راستے کا مجاہد اورحج و عمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہیں۔ اللہ نے انہیں بلایا، لہٰذا انہوں نے اس پر لبیک کہا اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے مانگا، تو اللہ نے انہیں نوازا ہے۔ (ابن ماجہ، :۲۸۹۳) اللہ کریم ان ایام حج کو حجاج کرام کے لیے حج مبرور ومقبول اور پوری اُمت کے لیے امن ، سلامتی ،محبت واتحاد کا ذریعہ بنادے۔ (آمین)

اقراء سے مزید