• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اردو کے نامور نقاد ڈاکٹر گوپی چند نارنگ امریکا میں 91سال کی عمر میں وفات پاگئےوہ 11 فروری 1931 کو بلوچستان کے علاقے دُکی میں پیدا ہوئے تھے، انہوں نے اردو تنقید میں ساختیات اور اُسلوبیات کی بحثوں کی ابتدا کی۔ اردو کے چاروں بڑے شاعروں میر، غالب، انیس اور اقبال کے علاوہ ادب، شاعری، تنقید اور ثقافتی علوم پر 60 سے زائد کتب تصنیف کیں، انھیں عہد حاضر کا صف اول کا اردو نقاد اور محقق مانا جاتا تھا۔ مرحوم کی لسانیات اور فکشن پر بھی گہری نظر تھی۔ گوپی چند کو بھارتی حکومت نے 2004 میں پدما بھوشن ایوارڈ اور حکومت پاکستان نے 2012 میں ستارہ امتیاز عطا کیا تھا۔

ہندوستان میں ایسے نابغہ ٔ اُردو ادیب و شاعر ہر زمانے میں ملتے ہیں، جن کا تعلق مذہبی اعتبار سے ہندو عقائد سے تھا، یہ اہلِ علم ہر اعتبار سے انتہائی محترم، اعلیٰ ادبی صلاحیتوں کے مالک اور نئے رجحان ساز لکھنے والے تھے، منشی پریم چند، دیاشنکر نسیم، برج زائن چکسبت، بشیشہ پرشاد ،منور لکھنوی، غلام بھیک نیرنگ، دتاتر یہ کیفی، تلوک چندمحروم، جگن ناتھ آزاد، رگھویتی سہائے فراق گورکھپوری، بلونت سنگھ، راجندر سنگھ بیری، کرشن چندر، ان میں سے ہر ادیب، افسانہ نگار اور شاعر کی اُردو زبان و ادب کی خدمات ناقابل ِ فراموش ہیں اور اُردو ادب کی تاریخ ان کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے۔ عصرِ حاضر بھی ایسی ادبی شخصیات سے خالی نہیں رہا، خصوصاً تحقیق، تنقید، تدوین اور لسانیات میں، کئی دیوقامت نام ہمیں نظرآتے ہیں۔ ڈاکٹر مالک رام، ڈاکٹر گیان چند جین، کالی داس گپتا اور گوپی چند نارنگ اِن میں بہت نمایاں ہیں۔

ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی ادبی خدمات کئی پہلوئوں سے اہم اور منفرد ہیں۔ اُردو دنیا سے ساختیات اور مابعد جدید یت کی ’’تھیوریز‘‘ کا تعارف کرانے والے وہ سرکردہ ادیب ہیں۔ پاکستان میں مابعد جدیدیت نظریات، جنہیں نظریات سے زیادہ ثقافتی صورتِ حال کہنا زیادہ درست ہوگا۔ کے حوالے سے ڈاکٹر وزیر آغاز، ڈاکٹر فہیم اعظمی، ضمیر علی بدایونی اور محمد جمیل کے اسمائے گرامی سند کا درجہ رکھتے ہیں اور ساختیات پس ساختیات کوساری جزئیات کے ساتھ جاننے والے نقاد کی حیثیت سے ان دنوں جس شخصیت کو اعتبار حاصل ہے، ان کا نام ناصر عباس نیئر ہے۔ ان کا تعلق بھی پاکستان سے ہے۔

ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے اپنی کتاب’’ساختیات پس ساختیات اور مشرقی شعریات میں ساختیات کی لسانی تھوریز کو مشرقی شعریات سے جوڑنے کی علمی کوشش کی اور مابعد جدید ادبی معیارات کی تشکیل پر کام کیا۔وہ اس میں کامیاب تو نہیں ہوئے لیکن ان کی اس عالمانہ کوشش کو ایک تاریخ ساز اہمیت ضرور حاصل ہوگئی۔ جس سے ادب کے قاری صرفِ نظر نہیں کر سکتا۔ گوپی چند نارنگ نے 64کتابیں لکھیں۔ 

جن میں پینتالیس اُردو زبان میں ہیں۔ بارہ کتابیں انگریزی زبان میں ہیں اور سات کتابیں ہندی زبان میں تحریر کی ہیں۔ تنقید میں اُن کے موضوعات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ انہوں نے افسانے پر بہترین تنقیدی لکھی، مرثیے میر انیس و دبیر کے فن کے حوالے سے بھی ان کی تحریریں اہمیت کی حامل ہیں۔ اُنہوں نے کربلا کے تلازمات اور تشبیہات کو اُردو شاعری میں ایک نئے رُخ سے دیکھا اور اس کا تنقیدی محاکہ کیا۔

انہوں نے امیر خسرو، ولی دکنی، میر، غالب، انیس و دبیر، اقبال، فراق اور سجاد ظہیر پر باقاعدہ تنقیدی کتابیں تصنیف کیں اور اُن کے فن و شخصیت کو نئے ادبی معیارات پر پرکھا۔ اُن کی تحریروں میں جدیدیت اور ترقی پسند تحریک پر بھی مباحث ملتے ہیں۔ جس کے ذریعے سے انہوں نے نئے تجزیے اور نئے نتائج مرتب کئے ہیں۔ انہوں نے ہندوستان کے قدیم وقتوں کی روشنی میں اُردو مثنویوں کا ادبی جائزہ لیا۔ اُردو لسانیات میں انہوں نے 1954ء میں دہلی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ 

اس لئے لسانیات سے ان کا شغف ہمیشہ برقرار رہا۔ تاریخی لسانیات پر ان کی تحریریں بہت معیاری اور علمی افروز ہیں۔ لیکن موضوعات کی اس ساری رنگا رنگی کے باوجود اُن کے تنقیدی سرمایے میں مرکزی حیثیت اسلوبیات کے حوالے لکھی گئیں اس کی تحریروں کو حاصل ہے۔ ہمارے یہاں تنقید کے اسلوبیاتی مکتب فکر کے جاننے اور سمجھنے والے لوگ بہت کم ہیں۔ اکثر لوگ لفظ اسلوب کے عام لغوی معنی کی روشنی میں اسے طرز ادا یا اندازِ بیان سے متعلق کوئی تنقیدی نظریہ سمجھتے ہیں۔ 

جب کہ جدید اسلوبیات محض Style نہیں بلکہ یہ ادبی اظہار کے لسانی امکانات کا علم ہے۔ جسے سائنٹیفک اصولوں پر مرتب کیا گیا ہے۔ اس میں صوتیات، جمالیات اور جدید لسانیات کے اجزاء شامل ہیں۔ گوپی چند نارنگ نے نہ صرف اسلوبیات کو اُردو دان طبقے سے متعارف کرایا بلکہ اسے فروغ بھی دیا۔

گوپی چند نارنگ کے والد گرامی دھرم چند نارنگ بہت صاحب مطالعہ شخص تھے وہ سنسکرت اور فارسی زبانوں سے بخوبی واقف تھے۔ ان کی مادری زبان سرائیکی تھی لیکن اُنہوں نے اُردو سے عشق کیا اور اُردو کی خدمت میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔ انہیں اس کا بہت افسوس تھا کہ اُردو زبان کو ہمیشہ عصبیت کا نشانہ بنایا گیا، اور اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ وہ کہتے تھے اُردو اور ہندی میس کوئی جھگڑا نہیں بلکہ ان کے آپس کے رشتے بہت مضبوط ہیں۔ اُن کی تعلیم کا ابتدائی دور کوئٹہ میں گزرا۔ 

دہلی ہجرت کر جانے کے بعد بھی انہوں نے اپنی تعلیم کا تسلسل نہیں ٹوٹنے دیا۔ 1954ء میں انہوں نے دہلی یونیورسٹی سے ایم اے اُردو کیا پھر ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد 1957ء میں سینٹ اسٹیفن کالج دہلی ہی میں لیکچرر کی ملازمت کر لی بعدازاں نارنگ صاحب نے دہلی یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کیا اور1995ء تک دہلی یونیورسٹی سے بطور پروفیسر وابستہ رہے اُنہیں مرتے وقت تک دہلی یونیورسٹی کی اعزازی پروفیسر شپ حاصل تھی۔ وہ پروفیسر ایمرطیس کے عہدے پر فائز تھے۔ 

وہ بھارتی ساہتیہ اکیڈمی کے صدر بھی تھے۔ ساختیات پر اُن کی شہرئہ آفاق تصنیف پر ساہتیہ اکیڈمی نے اپنے سب سے بڑے ادبی ایوارڈ سے نوازا۔ اُنہیں بھارت کے اعلیٰ ترین اعزازات، پدم بھوشن اور پدم ستری بھی ملے۔ پاکستان کے علمی اور ادبی حلقوں میں انہیں بے انتہا عزت و احترام حاصل تھا۔ وہ پاکستان کے ادبی سیمیناروں، اُردو کانفرنسوں اور ادبی تقریبات میں پابندی سے شرکت کرتے تھے۔ حکومت پاکستان نے اُنہیں اُن کی ادبی خدمات کے اعزاز میں ’’ستارئہ امتیاز‘‘ کا اعزاز عطا کیا۔

وہ ایک بہترین نثر نگار ہی نہیں بہت بڑے مقرر بھی تھے۔ وہ انگریزی اور اُردو دونوں زبانوں میں دلکش اور روا نی کے ساتھ خطاب کرنے پر قادر تھے۔ وہ جب تقریر کرتے توسماں باندھ اور موضوع کا حق ادا کر دیتے، بہت وسیع المطالعہ ادیب تھے، انہوں نے قدیم اُردو کلاسیک کا گہرا مطالعہ کیا تھا، فارسی اور انگریزی ادب پر بڑی عمیق نگاہ رکھتے تھے۔ سنسکرت اور ہندی کی ادبی روایت پر اُن کی علمی گرفت تھی۔ اُنہوں نے اپنے غیر جانبدارانہ مطالعے سے معروضی ادبی نتائج حاصل کئے۔ 

وہ کسی مصلحت یا خوشامد کے آدمی نہیں تھے۔ جس علمی اور ادبی حقیقت پر اُن کا یقین ہوتا کہ یہ درست ہے تو وہ اس کا برملا اظہار کرتے، بے خوفی، جرأت اور بے باکی اُن کی تحریر کے لازمات میں سے ہیں۔ اسی لئے اکثر ادباء و شعراء اُن سے شاکی رہتے، اُن کا کہنا تھا کہ موجودہ دور کے نقاد فن پارے کو چھوڑ کر اِدھر اُدھر کی علمی ادبی موشگافیوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ نقاد کا اصل فوکس کسی بھی فن پارے کے حسن و قبح سے ہونا چاہئے۔ ہمیں تخلیق کا سائنٹیفک مطالعہ کرنا چاہئے۔

اُس کا لسانی ’’جمالیاتی اور معنوی جائزہ لے کر اُس کی ادبی قدرو قیمت کا تعمیل کرنا چاہئے اور اس تنقیدی مطالعے میں اُسلوبیات ہی سب سے مددگار اور معروضی علم ہے۔ وہ اُردو ادب کی تاریخ میں اُسلوبیات کے بنیاد گزاروں میں ہیں۔

وہ مانتے ہیں کہ سرسید کی مقصدی تحریک کے بعد ترقی پسند تحریک کو’’ کمیونسٹ مینی فیسٹیو‘‘کے ماتحت کرنے کی کوشش کی گئی اور پروپیگنڈے کو ادب کے منصب پر فائز کر دیا گیا تو نارنگ صاحب نے بڑے باوقار دلائل کے ساتھ اس کی مخالفت کی اور ادیب کی تخلیقی آزادی کے لئے آواز بلندکی۔ 

ان کے اس تنقیدی رویئے نے جدیدیت کی تحریک کو ایک قوت عطا کی۔ اس سب کے باوجود گوپی چند نارنگ کسی ادبی گروہ یا تحریک کا حصہ نہیں بنے۔ وہ ادب کی کسی بھی سماجی اور سیاسی تقسیم کے خلاف تھے۔ وہ ادب کو ایک وحدت سمجھتے تھے اور اسی نظر سے اُس کا مطالعہ کرتے تھے۔ ہندوستان، لایعنی جدیدیت کا شور بلند ہوا اور اسے نوجوان ادیبوں کی بغاوت سے تعبیر کیا گیا تو انہوں نے اس کی بھی مخالفت کی۔ 

وہ علامت نگاری، رمزیت اور اشاریت پسندی کے قائل تھے لیکن مغربی نظریات کا سہارا لے کر علامت نگاری کے نام پر جو مہمل ادب لکھا جا رہا تھا اُنہوں نے اپنی تحریروں سے اُس کی حوصلہ شکنی کی اور ادب کےجمالیاتی بلند معنوی معیار پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا اور سچے، بامعنی اور اعلیٰ معیاری ادب کو آگے بڑھانے میں حصہ لیا۔

گوپی چند نارنگ نے اردو تنقید کے سفر کو نئی منزلوں سے آشنا کیا۔ جدید اردو تنقید جو ’’مقدمہ و شعر و شاعری‘‘ سے شروع ہوئی تھی آگے چل کر اس پر مغرب کی کئی ادبی تحریکوں نے اپنا اثر ڈالا اور تنقید کے کئی دبستان وجود میں آئے، جیسے تاثراتی تنقید، عمرانی تنقید، عملی تنقید، نفسیاتی تنقید، جمالیاتی تنقید اور مارکسی تنقید۔ 

ماضی قریب میں ایک ایسا وقت آیا کہ لگتا تھا کہ جیسے یہ سارے تنقیدی دبستان اپنے امکانات پورے کرچکے ہیں اور کسی بھی مکتبہ فکر کے پاس کہنے کو کوئی نئی بات نہیں رہ گئی ہے۔ اردو تنقید نگاری کا سفر گویا رک سا گیا تھا، اس جمود کو گوپی چند نارنگ نے توڑا۔

انہوں نے اپنی سنجیدہ اور عالمانہ طرز تنقید سے اس خلا کو پُر نہ کیا جاتا تو ہماری تنقید اکیسویں صدی میں کبھی داخل نہیں ہوسکتی تھی۔ آج اگر اردو تنقید مابعد جدید حقیقتوں سے آنکھیں چار کررہی ہے تو یہ گوپی چند نارنگ کی وجہ سے ہے۔ لسانی تھیوریوں کو اردو ادب پر منطبق کیا اور ایک نئے دبستان تنقید کی بنیاد رکھی۔

ہم اس دبستان تنقید سے اختلاف تو کرسکتے ہیں مگر اس کی تاریخی، تنقیدی اور ادبی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتے۔ گوپی چند نارنگ کے علاوہ بھی کئی ادیبوں نے جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے حوالے سے کام کیا ہے۔ لیکن اولیت کا سہرا نارنگ صاحب ہی کے سر ہے۔ انہوں نے اسلوبیات، لسانیات، جدید جمالیات اور ساختیاں، پس ساختیات کے امتزاج سے ایک بالکل نیا تنقید ی نظر یہ وضع کیا۔

ان کے تنقیدی مسلک میں جو کچھ ہے وہ تخلیق کا متن ہے اور متن سے باہر کوئی حقیقت موجود نہیں ہے۔ لہٰذا ایک ساختیاں نقاد کا مرکز توجہ صرف اور صرف فن پارہ ہوتا ہے۔ ان کے تنقیدی افکار ’’اوریجنل‘‘ نہیں تھے، مغرب سے مستعار تھے۔ مگر انہوں نے تنقید کے خزاں رسیدہ چمن میں موجہ بہار کا کام کیا۔ آج ان کی ساختیاتی فکر اور نظریہ سازی کا بڑا حصہ کڑی تنقید کی زد میں ہے۔ پھر بھی یہ سچائی اپنی جگہ ہے کہ نارنگ صاحب نے اردو تنقید کے علمی معیار کو بڑھا وا دیا ہے۔ ان کی محنت، اخلاص اور تنقیدی بصیرت نے تخلیق کو پرکھنے کے بے مثال معیارات دیے ہیں۔ اگر نارنگ صاحب نہ ہوتے تو آج اردو تنقید اپنے آپ کو دہرا رہی ہوتی اور اختراع اور ایجاد خیال سے کوسوں دور ہوتی۔

اُن کی ساٹھ سے زیادہ کتابوں میں ایسی کتابوں کی کمی نہیں جن میں زندگی، تہذیب اور ادب پر نئے زاویوں سے روشنی ڈالی گئی ہو۔ اُن کی کتابیں دکنی عہد سے لے کر عہد جدید تک اُردو ادب کے بڑے بڑے ادبی رجحانات اور تہذیبی رویوں کا احاطہ کرتی ہیں۔ اُن کا تنقیدی اسلوب ابہام سے پاک، شفاف اظہارِ بیان سے تزئین اور ابلاغ کی خوبی سے آراستہ ہے۔ 

وہ چند اہم کتابوں کے نام یہ ہیں۔ اُردو افسانہ، روایت اور مسائل امیر خسرو کا ہندوی کلام، ادب کا بدلتا منظرنامہ ، ہندوستانی قصوں سے ماخوز اُردو مثنویاں، غالب معنی آفریں، جدلیاتی وضع، شوتیا اور شعریات، تپیش نامہ ٔ تمنا، اقبال کا فن، سجاد ظہیر، اُردو کی نئی بستیاں، جدید ادبی تھیوری، سانحہ کربلا بطور شعری استعارہ، ساختیات پس ساختیات اور مشرقی شعریات، کاغذِ آتش زدہ وغیرہ شامل ہیں۔

گوپی چند نارنگ پاکستانی شعراء کے کلام کو بہت پسند کرتے تھے، راقم الحروف نے چند سال قبل اُن کا ایک تفصیلی انٹرویو کیا تھا اس میں اُنہوں نے سلیم کوثر کے ایک شعر کی بہت تعریف کی جو یہ ہے۔

یہ فقط عظمت ِ کردار کے ڈھب ہوتے ہیں

فیصلے جنگ کے تلوار سے سب ہوتے ہیں

اُن کا کہنا تھا کہ سلیم کوثر نے علامتی برائے میں کربلا کی پوری فلاسفی اس شعر میں بیان کردی ہے۔ اُن کا خیال تھا کہ پاکستان میں ہندوستان کے مقابلے میں بہت اعلیٰ درجے کی شاعری ہو رہی ہے۔ اُنہیں پاکستان کے دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں سے خصوصی محبت تھی۔ لسانیات، تنقید، تحقیق اوراُردو ادب کا یہ چمکتا سورج 15؍جون 2022ء کو امریکا میں ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا اور ہمارے دلوں پر اُداسی کے سائے چھوڑ گیا۔ لیکن ان کے لکھے ہوئے لفظوں کی روشنی ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گی، اہل ادب کو راستہ دکھاتی رہے گی۔