• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویرزمان خان، لندن
دنیا بھر میں امریکہ کے گن کلچر کی بات کی جاتی ہے اوردنیا اس بات پر حیران بھی ہوتی ہے کہ اسلحہ کی ہر عمر تک با آسانی رسائی کے پیش نظر ہر سال تقریباً 45000لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یعنی روزانہ 124افراد اسلحے سے تعلق رکھنے والے زخموں کی تاب نہ لا کر ہلاک ہوجاتے ہیں۔ امریکہ میں اس ایشو پر بحث بھی ہوتی ہی رہتی ہے اور بہت سے سروے بھی منعقد ہوتے ہیں لیکن جب کوئی بہت بڑا واقعہ رونما ہو جاتا ہے تو پھر چند دنوں کے لئےمعاملہ دنیا بھر کی نگاہوں میں اجاگر ہوتا ہے لیکن اسلحہ رکھنے یا اس پر قانو سازی اور اسلحہ رکھنے کے لئے کسی مخصوص شرائط کا پورا کئےجانے کا اطلاق امریکہ جیسی حکومت اور صدر امریکہ کے بس سے بھی باہر لگتا ہے، مجموعی طو پر امریکہ کی اسلحے کی صنعت 138بلین ڈالر کی ہے اسلحہ رکھنے کا بنیادی جواز تو اپنی حفاظت ہی بتایاجاتا ہے۔ اسلحہ کے روزانہ کے بڑھتے ہوئے استعمال نے امریکہ میں اساتذہ کو اپنے کلاس رومز میں اسلحہ لے کر چلنے کی اجازت دے دی ہے کیونکہ وہاں آئے دن کوئی نہ کوئی سر پھرا معصوم بچوں کی بڑی تعداد کو کسی جنون میں مبتلا ہو کر اپنی گولیوں کی نذر کردیتا ہے لیکن اس سب کے پیچھے نسل پرست تھیوری اور نظریات بھی کارفرما ہیں مثلاً گزشتہ ماہ امریکہ کی ریاست بفلو میں 13افراد کو اس لئے بھرے بازار میں داخل ہو کر قتل کردیا کہ وہ سیام فام تھے، امریکہ میں The Great Replacment Theoryجوکہ ایک نسل پرست تھیوری ہے نوجوانوں کو بہت متاثر کر رہی ہے، امریکہ میں ہر تین میں سے ایک امریکی کا یہ خیال ہے کہ وہ امیگرنٹس کی وجہ سے ان کا سیاسی کلچر اور معاشی کنٹرول کمزور تر ہوتاجا رہا ہے یہ بات حالیہ ایسوسی ایٹڈ پریس کی طرف سے کئے گئے سروے میں سامنے آئی ہے اسی طرح 2011میں نیوزی لینڈ میں 77افراد کا قتل عام اسی طرح 2019میں کرائسٹ چرچ میں 51مسلمانوں کا مسجد میں داخل ہو کر قتل عام کیا گیا دونوں واقعات اسی دی گریٹ ریپلیسمنٹ تھیوری کے ماننے والوں نے کئے ان کا خیال تھا کہ مغرب کی تہذیب کو بچانےکے لئے اس قسم کے پرتشدد واقعات کا بڑے پیمانے پر رونما ہونا بے حد ضروری ہے۔ یہ نظریات Neo Nazis سے متاثر ہیں بفلو ریاست کی سپر مارکیٹ میں حملہ آور ہونے والا 18سالہ جنونی انسان نسل پرست نظریات سے اتنا متاثر تھا کہ اس نے اپنی رائفلوں پر ان پچھلے ان بڑے بڑے نسل پرستوں اور قاتلوں کے نام کندہ کروا رکھے تھے جنہیں وہ اپنا ہیرو سمجھتا تھا اور اپنی دہشت گردی کی تشہیر کے لئے اس نے اپنے ہیلمٹ پر 60Pro کیمرہ بھی نصب کیا ہوا تھا جہاں سے اس قتل عام کی لائیو سٹر یمنگ بھی چل رہی تھی اسی طرح نیوزی لینڈ کی مسجد میں حملہ آور ہونے والے نے بھی لائیو سٹریمنگ چلا رکھی تھی بفلو میں حملہ کرنے والے 18سالہ پیٹن جنڈرون نے اس کارروائی سے پہلے لکھا تھا کہ امیگریشن توہین آمیز امور ہے اگر اس کا فوری تدارک نہ کیا گیا تو ہمارا یورپی کلچر صفحہ ہستی سےمٹ جائے گا اس کا یہ بھی خیال تھا کہ یہ سب یہودی سازش ہے جو جو یہاں امیگرینٹس کو آباد کرنا چاہتے ہیں دراصل یہ نظریات 2011میں فرانس میں کیموس نامی شخص نے ایک تقریر میں دی گریٹ ریپیلسمنٹ کے عنوان سے کئے تھے اور بعد میں اسےکتابی شکل دیدی لیکن اس کتاب کا بھی انگریزی میں ترجمہ تو نہیں ہوا البتہ ان نظریات نے امریکہ اور یورپ میں دائیں بازو کے انتہا پسند نظریات کو پروان چڑھانے میں خوب مدد کی یہی نظریات یورپ اور امریکہ میں اس کا نیٹ ورک بننےکی بنیاد بھی ہے دراصل یہ کوئی نظریہ نہیں بلکہ اسے امیگرینٹس کے خلاف منصوبہ کہنا چاہئےجس میں گوری چمڑی کو برتر نسل سمجھا جاتا ہے مہاجرین اور ہجرت کرکے آنے والوں کو اس کا حقیقی دشمن سمجھا جاتا ہے، اسے گورے کی نسل کشی بھی کہا جاتا ہے اس انتہا پسند ی نے وائٹ نیشنلسٹ کی تحریک بنائی ہے گوکہ ا س تحریک کا نظریاتی موجد اس تحریک کو تشدد پسند نہیں مانتا لیکن امریکی ایجنسیاں حالیہ مسلمانوں، یہودیوں ، ہسپانیوں اور سیاہ فاموں پر حملوں کو اس نظریئے کی بنیاد سمجھتے ہیں جس سے یہ بات باسانی ثابت ہوتی ہے کہ امریکہ اور یورپ میں ایسے حملے کسی خراب دماغی توازن رکھنے والے مریض کامعصوم عمل نہیں بلکہ ایک آئیڈیالوجی اور شعوری مؤقف سے لیس باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نسلی قتل عام ہے جسے دہشت گردی کے علاوہ کسی اور زمرے میں ڈالنا حکومتی اور عدالتی نظام کی سریحاً دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والی پالیسی ہے اس نسل پرستی کے خلاف دنیا کو آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔
یورپ سے سے مزید