• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: ہارون مرزا۔۔راچڈیل
برطانیہ ، یورپ، امریکہ ،ایشیائی اور عرب ملکوں سمیت وری دنیا کو حالیہ مہنگائی کی لہر نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، باالخصوص پاکستان اور دیگر ترقی پذیر وغریب ملکوں میں مہنگائی کے اثرات نے خوفناک نتائج کو جنم دیا ہے، روس کی طرف سے یوکرین پر چڑھائی کے بعد یورپی ممالک اور برطانیہ میں گیس ، پیٹرول اور گندم کی شدید قلت سمیت قیمتوں میں عدم استحکام نے ایک غیر یقینی صورتحال کو جنم دیا ہے، پاکستان جہاں مہنگائی کے طوفان نے غریب طبقے کو دیوار کے ساتھ لگا دیا ہے، آئی ایم ایف کی سخت شرائط ماننے کے بعد مہنگائی کا ایک ایسا طوفان برپا ہے جو سنبھالے نہیں سنبھل رہا دوسری طرف پاکستان کے وزیر خزانہ نے دعویٰ کیا ہے کہ چین سے 2.3ارب ڈالر موصول ہونے کی توقع ہے ، چینی بینکوں کے کنسورشیم کے ساتھ 2.3ارب ڈالر کی فنانسنگ کا معاہدہ طے پا گیا ہے جس سے بہتری کی امید ہے، ڈالر کی اونچی پرواز نے ہر طبقے کو براہ راست متاثر کیا ہے حکومت پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان سخت ترین شرائط تسلیم کیے جانے کے بعد معاہدہ طے پاگیا ہے جس میں ایک لاکھ روپے ماہانہ تک تنخواہ لینے والوں پر ٹیکس دوبارہ متعارف کرایا گیا ہے، جولائی سے پٹرولیم پر مرحلہ وار 50روپے فی لیٹرلیوی لگانےپر اتفاق کیا گیا ہے پاکستان میں اس وقت پیٹرول کی بلند ترین قیمتوں نے غریب طبقے کی ناک میں دم کر رکھا ہے یوں تو برطانیہ سمیت یورپی ممالک میں بھی پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے اور اس کے بعد پڑنے والے اثرات سے کوئی نہیں بچ سکا مگر پاکستان چونکہ ایک ترقی پذیر ممالک ہے جہاں سفید پوش اور غریب طبقے کی بہت بڑی تعداد وسائل میں کمی کی وجہ سے سنگین مشکلات کا شکار ہے آئی ایم ایف کی شرائط کے بعد پیٹرول اور بجلی گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کی توقع کی جا رہی ہے جس سے مہنگائی کی شرح میں ایک بار پھر اضافہ ہوگاوزیرخزانہ پاکستان کے مطابق آئی ایم ایف مالیاتی اہداف پر اسٹیٹ بینک سے مشاورت کرے گا معاہدے کے بعد بجٹ کا حجم 9.9ٹریلین روپے ہو جائے گا جو کہ وزیر خزانہ کی طرف سے 10 جون کو پیش کیے گئے بجٹ کے مقابلے میں تقریباً 400ارب روپے تک بڑھ جائے گاوزیر خزانہ نے 10جون کو 9.5 ٹریلین روپے کا بجٹ پیش کیا تھا جو اس مالی سال کے نظرثانی شدہ بجٹ سے بمشکل 4 فیصد زیادہ تھا بجٹ خسارے کا ہدف بھی اپنی جگہ برقرار ہے جو 3.8 ٹریلین یا مجموعی ملکی پیداوار کا4.9فیصد ہے آئی ایم ایف اب مرکزی بینک کے ساتھ مل کر مقامی اثاثوں کے بجائے نیٹ بیرونی اثاثوں،نیٹ انٹرنیشنل ریزروز اور کرنٹ اکائونٹ خسارے کے اہداف کوحتمی شکل دےگا۔ برطانیہ میں مہنگائی میں 9.1یصد اضافے کے ساتھ 40 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی، برطانیہ کو مہنگائی کے عفریت کا سامنا ہے بینک آف انگلینڈ نے بھی خبردار کیا کہ اس سے بھی بدتر صورتحال ابھی آنا باقی ہے کیونکہ تمام جی سیون ممالک میں برطانیہ میں افراط زر کی شرح سب سے زیادہ ہے بینک آف انگلینڈ نے گزشتہ ہفتے دعوی تھا کہ اکتوبر میں جب بجلی کی قیمتیں بڑھنے والی ہیں، افراط زر میں اضافہ 11یصد تک جا سکتا ہے جب کہ آنے والے مہینوں میں افراط زر 9 فیصد سے اوپر رہنے کا امکان ہے برطانیہ کے دفتر برائے قومی شماریات کے تاریخی ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ مئی کی افراط زر مارچ 1982ے بعد سب سے زیادہ تھی اور اس میں مزید تنزلی آئیگی حالات بد سے بدتر ہوں گے اس وقت پائونڈ اسٹرلنگ جو اس سال امریکی ڈالر کے مقابلے میں بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی کرنسیوں میں سے ایک ہے 0.6 فیصد کم ہوکر1.22 پائونڈ سے نیچے آگئی یہی وجہ ہے کہ سرمایہ کار برطانیہ میں مسلسل بلند افراط زر اور کساد بازاری کے خطرے کا اندیشہ ظاہر کرتے آئے ہیں برطانیہ اس وقت بریگزٹ کی مسلسل مشکلات کا بھی سامنا کر رہا ہے جو یورپی یونین کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مزید نقصان پہنچا سکتی ہیں پاکستان کے عوام جو نہایت ہی کم قوت خرید کے ساتھ بنیادی سہولتوں کیلئے دھکے تو کھا ہی رہے تھے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کی وجہ سے جو حالیہ مہنگائی کا بم اس عوام پر گرایا گیا اس نے خاص کر نوکری پیشہ، مڈل کلاس عوام کی کمر توڑ دی ہے مہنگائی کا یہ سفر شاید پاکستانیوں کیلئے بھی اتنا کٹھن نہ ہوتا اگر اس کا شمار خوشحال ممالک میں ہوتا اگر بروقت ملک میں ڈیم بنوائے جاتے تو ہر سال بارشوں کی وجہ سے جو سیلابی ریلا غریب عوام کے گھر بار اور جانور بہا لے جاتا ہے، اس پانی کو ضائع کرنے کے بجائے ڈیمز میں بھر لیا جاتا اور ملک میں خشک سالی کی سی کیفیت نہ ہوتی آج لوڈ شیڈنگ کا بحران سر چڑھ کے نہ بولتا حالیہ مہنگائی کی لہر نے نہ صرف غریب کے منہ سے روٹی چھینی بلکہ اس مڈل کلاس طبقے کو جو ایک ایک روپیہ جوڑ کر معاشرے میں ایک معزز شہری سمجھے جانے کے خواب دیکھا کرتا تھا اسے بھی غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیا ہے ضر ورت اس امر کی ہے کہ آئی ایم ایف کے چنگل سے نکلنے کے لیے ٹھوس پالیسیاں بنائی جائیں اور قوم کو بھکاری بنانے کی بجائے پائوں پر کھڑا کرنے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں تاکہ ملک قرضوں کی دلدل سے نکل کر معاشی صورتحال پر مستحکم ہو سکے اور بیروزگاری مہنگائی جیسے بنیادی مسائل سے نمٹنے میں آسانیاں پیدا ہوں۔
یورپ سے سے مزید