فرحی نعیم
زری اپنے ہاتھ کی ٹیڑھی میڑھی لکیروں کو کافی دیر سے بڑے غور سے دیکھ رہی تھی۔ نہ جانے ان میں کیا مخفی تھا ؟لیکن لوگوں کے رویے تو بہت جلد نمایاں ہو گئے تھے۔ خوش قسمتی اور بدنصیبی کی دعائیں تو بہت دی گئی تھیں، لیکن شاید ابھی ان کے پورے ہونے کا وقت نہ آیا تھا۔ وہی شخصیت ، وہی مزاج ، وہی قسمت لیکن بابل کے گھر سے سسرال تک پہنچتے پہنچتے بہت کچھ بدل گیا تھا۔ مقدر کی لکیروں کی طرح ، وہ جو اپنی خوش بختی پر ناز کرتی تھی، اب ان ہی لکیروں میں نہ جانے کیا ڈھونڈتی رہی ہے ، شاید اپنے بخت کا ستارہ ، جو ماند پڑ گیا تھا یا بجھ گیا تھا۔
ایک لڑکی جو بڑے ارمان اور آرزوؤں کے ساتھ ایک گھر سے دوسرے گھر تک کا سفر کرتی ہے ، لیکن اس کی خواہشوں کا احترام تو دور کی بات ، اسے اتنی نا قدری کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جا بجا مسائل ہی پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ بڑی بڑی باتیں تو چھوڑیں ، اب تو بہت چھوٹی اور معمولی باتوں نے گھروں کے استحکام اور مضبوطی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
یہ ضرور سوچیں کہ زندگی کو خوشگوار بنانے اور بگاڑنے میں آپ کا بھی بڑا کردار ہوتا ہے
اگرچہ ان مسائل پر کئ مرتبہ گفتگو ہو ئی ، تقاریر کی گئیں ، صفحہ کے صفحہ سیاہ کیے جا تے رہے، لیکن قسمت کی سیاہی، ہمارے سماج کے چہرے سے دور ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ کالک اندر تک اتر چکی ہے، جس کو صاف کرنے کے لیے صرف ہاتھوں اورزبان ہی سے نہیں بلکہ اپنے رویّوں سے دور کرنا پڑے گا۔
احساس تو جیسے معاشرے سے مٹتا اور کٹتا جارہا ہے ۔ آج ہر گھر اور خاندان میں ایسی لڑکیاں موجود ہیں جن کی مختلف وجوہات کی بنا پر یا تو شادی نہ ہو سکی یا شادی ہو گئی تو وہ مختلف مسائل سے نبرد آزما ہیں۔ گھروں میں خوشی کا عنصر ناپید ہو چکا ہے۔ اکثر گھروں میں نئی ازدواجی زندگی صحیح طر ح سے شروع نہیں ہوتی کہ ختم ہونے کے قریب پہنچ جاتی ہے ، جس کا حل صرف ایک ہے ، جو سماج میں ناپسندیدہ ہے۔ لیکن اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ آج تقریباً ہر گھر کی بچی، اپنے ماحول ، اپنے مقدر سے شکوہ کناں ہے۔ آج ہمارا معاشرہ جس تضاد، تصنع اور بناوٹ کا شکار ہو چکا ہے، یہ اس تیزی سے ہمارے ارد گرد پھیل رہی ہیں کہ خوف آنے لگا ہے۔
اگر گھروں کے بکھرنے کی رفتار یہی رہی تو اگلے چند سال بعد ہمارا معاشرہ کس درجے پر پہنچ جائےگا؟یہ سوچنے والی بات ہے ۔حال ہی میں ایک خبر پڑھی کہ پڑوسی ملک کی دو سگی بہنیں جو ایک ایک بچے کی مائیں تھیں اور ایک ہی گھر میں بیاہی گئی تھیں، سسرال والوں کے ناروا سلوک اور جہیز کی کمی پر طعنوں، تشنوں کے زخم سہہ سہہ کر دونوں بہنوں نے بچّوں سمیت نہر میں کود کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر نے کا فیصلہ کرلیا۔ یہ اُن کا ایسا فیصلہ تھا،جس نے قسمت کی اُلجھی ڈور سلجھانے کی بجائے مزید اُلجھادیں۔ الزام تراشیوں کا سلسلہ ترک ہو گیا۔ اپنے بختوں سے شکوہ کرنے سے پہلے اپنے رویوں پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
کچھ سسرالی رشتوں کو تو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ نئی آنے والی لڑکی کاکنٹرول ان کے ہاتھ میں ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ بہو ان کے اشاروں پر چلے ۔وہ جیسے چاہیں ویسا ہی کرے۔ اپنی مرضی اور خواہشات کو تو وہ گہری نیند سلا دے، تاکہ اگلے کئی سال تک وہ نہ جاگ سکے۔ مقدر لکھنے والے نے لکھ دیا لیکن ساتھ یہ بھی فرمایا کہ تدبیر اور دعا سے تقدیر بھی بدل سکتی ہے۔ ہم شاید اسے سادہ لوحی کہیں یا لاعلمی اور کم علمی، ہم سمجھتے ہیں کہ زندگی شاید یہیں پر ختم ہو گئی راستے مسدود ہو گئے یا اب ہم بند گلی میں کھڑے ہو گئے ہیں ۔ حالاں کہ حالات کو بدلنے پر بھی ہم ہی قادر ہیں ہے۔
اپنی قسمت اور نصیب کو کوسنے سے بہتر ہے کہ یہ ضرور سوچ لیں کہ زندگی کو خوشگوار بنانے اور بگاڑنے میں ان کے اپنے مزاج، اخلاق اور کردار کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ زندگی کو طربیہ بنائیے یا المیہ، روتے دھوتے اور قسمت پر شاکر رہتے ہوئے اسی پر بس کر دیجئے یا بہتر اور آگے بڑھنے کی جستجو کرتے رہیں، رکیے نہیں ،ٹھہرئیے نہیں، ٹھہرا پانی جوہر بن جاتا ہے۔جب کہ بہتا پانی، پاک، صاف اور رواں۔ آگے بڑھ کر خود اپنا راستہ نکالنے والا بنیں۔