پاکستان میں اقتدار جس تیزی سے آتا ہے اسی رفتار سے چلا بھی جاتا ہے۔پی سی بی چیئرمین کا تقرر کبھی کارکردگی کی بنیاد پر نہیں ہوتا ،حکومت کی آشیر باد سے چیئرمین آتے ہیں۔ اگر کارکردگی کی بنیاد پر چیئرمین کی تقرری ہوتی تو 1999میں خالد محمود کو کیوں ہٹایا جاتا حالانکہ ان کی چیئرمین شپ میں پاکستان نے ورلڈ کپ فائنل کھیلا تھا۔
رمیز راجا کا انداز اس وقت عمران خان سے زیادہ جارحانہ ہے اور کہتے ہیں کہ مجھے میڈیا پر آنے کا کوئی شوق نہیں، اس کے باوجود ایک ہفتے میں کئی بار میڈیا پر آئے اور میڈیا نمائندوں کو للکارتے رہے، سابق کپتان رمیز راجا کو سابق وزیر اعظم عمران خان نےاپنے دیرینہ دوست احسان مانی کی جگہ پی سی بی چیئرمین بنایا۔
میں رمیز راجا کو پہلی بار1984میں ملا اور اس کے بعد درجنوں ملاقاتیں اور کئی بار طویل نشتیں ہوئیں، لیکن ستمبر میں پی سی بی چیئرمین کا تاج سر پر سجانے کے بعد ان کے رویے میں غیر معمولی تبدیلی آئی ہے۔اپنے مینٹور اور کپتان عمران خان سے چند قدم آگے بڑھ کر وہ میڈیا کو جس طرح ڈکٹیٹ کررہے ہیں اور کئی بار اخلاقی حدود کراس کرجاتے ہیں۔ گذشتہ ایک ہفتے میں ان کے نادان دوستوں کے انہیں اچانک میڈیا پر بار بار آنے کا مشورہ دے دیا۔رمیز راجا ہوم ورک کے بغیر کبھی یہ کہتے ہیں کہ میڈیا میری پریس کانفرنس کی منفی خبریں لگا تا ہے۔
حالانکہ انہیں بریف کرنے والےانہیں حقائق بتانے میں ناکام رہے ہیں۔ گذشتہ ہفتے زوم میٹنگ میں رمیز راجا نے اچانک مجھے یہ کہہ دیا کہ آپ کے ٹی وی پروگرام میرے سر سے گذر جاتے ہیں اور دل کرتا ہے کہ میں ٹی وی توڑ دوں۔حالانکہ میں ٹی وی پروگرام کی میزبانی نہیں کرتا اور جن پروگراموں میں رمیز راجا پر بات کی ہے اس میں بہت کم تنقید کی ، رمیز راجا کے پاس دلیل ختم ہوگئی ہے وہ اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے میڈیا پر برس رہے ہیں۔ایسےمیں پی سی بی میڈیا ڈپارٹمنٹ نے میری وہ آڈیو بھی اپنے من پسند ٹاوٹ نما صحافی کو دے دی۔ اس آڈیو سے ایسا لگ رہا ہے کہ میں نے رمیز راجا کے خلاف کوئی مہم چلائی ہوئی ہے۔
حقائق اس کے برعکس ہیں۔ پی سی بی میڈیا ڈپارٹمنٹ اب صحافیوں کی کردار کشی کراکر اپنے باس کو خوش کررہا ہے۔ پی سی بی چیئرمین اس وقت بابر اعظم کے سب سے بڑے سپورٹر ہیں۔ بلاشبہ بابر اعظم نے پاکستان ٹیم کی فتوحات میں مرکزی کردار ادا کیا ہے میں عینی شاہد ہوں جب ستمبر کی ایک شب اسلام آباد میں ایک نشست کے دوران رمیز راجا بابر اعظم کے بارے میں کھلے عام منفی ریمارکس دے رہےتھے۔
ان کی باتوں سے لگ رہا تھا کہ اگر بابر اعظم ناکام ہوگئے تو شائد انہیں کپتانی بچانا مشکل ہوجائے گی لیکن ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ میں پاکستان ٹیم کی شاندرا کارکردگی نے رمیز راجا کی رائے تبدیل کردی۔ اب رمیز راجا کہتے ہیں کہ ستمبر 2021 سے اب تک قومی کرکٹ ٹیم کی کامیابی کا تناسب 75 فیصد رہا ہے،جو اس دوران ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والی کسی بھی ٹیم کے مقابلے میں سب سے بہتر ہے۔ اس کارکردگی کی بدولت پاکستان کرکٹ ٹیم ٹیسٹ کی موجودہ رینکنگ میں پانچویں جبکہ ون ڈے انٹرنیشنل اور ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل رینکنگ میں تیسرے نمبر پر براجمان ہے۔
اس پس منظر میں عمدہ کارکردگی کامظاہرہ کرنے والے کھلاڑیوں کو سراہنے کی پالیسی کے تحت انہیں مالی سال 23-2022 کے لیے سینٹرل کنٹریکٹ میں اضافہ کرنے پر خوشی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ملک کے لیے اعزازات اور فینز کو خوشیاں دینے والے یہ کھلاڑی قوم کا فخر ہیں اور وہ ان کھلاڑیوں کا مکمل خیال رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔ اب انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے باقاعدہ تصدیق کی ہے کہ بابر اعظم ،بھارت ویرات کوہلی سے ٹی 20 بیٹر رینکنگ میں آگے نکل گئے ہیں۔ کوہلی نے ٹاپ پر 1013 دن گزارے تھے جبکہ بابراعظم کی حکمرانی کو 1028 دن بیت چکے ہیں ، وہ اپنی محنت اور لگن سے اس بادشاہت کو مزید طول دینے میں مصروف ہیں۔
پاکستانی کپتان اس وقت ٹی 20 کے ساتھ ون ڈے کے بھی نمبر ون بیٹر ہیں، وہ پہلے ہی کھیل کے تینوں فارمیٹس میں ایک ساتھ نمبر ون پوزیشن حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کرچکے تاہم فی الحال ٹیسٹ رینکنگ میں چوتھے نمبر پر ہیں، چیئرمین پی سی بی نے مزید کہاکہ وائٹ بال کی اہمیت اور کھیل کی ترقی کو مد نظر رکھتے ہوئے انہوں نے ریڈ اور وائیٹ بال کے لیے علیحدہ علیحدہ کنٹریکٹس کو متعارف کرایا ہے۔ ان کھلاڑیوں کوآئندہ 16 ماہ میں 2 ورلڈکپ سمیت 4 انٹرنیشنل ایونٹس کھیلنے ہیں۔
بابر اعظم کو وہ نجات دہندہ سمجھتے ہیں حالانکہ پاکستان ٹیم کی اچھی کارکردگی کا کریڈٹ کھلاڑیوں کو جاتا ہے لیکن یہاں چیئرمین کامیابیوں کا کریڈٹ لے کر اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتے ہیں۔ رمیز راجا کے لئے اس وقت سب سے حساس مسئلہ یہ ہے کہ کوئی ان سے یہ پوچھ لے کہ آپ کو فارغ تو نہیں کیا جارہا وہ کہتے ہیں کہ چیئرمین کے عہدے کو سیاست سے منسلک نہ کیا جائے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے چھ ماہ قبل چئیر مین بننے کی پیشکش کررکھی تھی. میرے آپشنز کھلے ہیں، کوئی یہ مت سوچے میں کرسی سے چمٹا ہوا ہوں، چیئرمین کا عہدہ چھوڑ نہیں رہا۔
کراچی میں جب میڈیا نے ان سے سوال کیا تو انہوں نے کئی بار میڈیا کے ساتھ جارحانہ رویہ اختیار کیا ،بعض دفعہ وہ میڈیا کو ٖڈراتے رہے کہ منفی خبروں سے گریز کریں اگر پاکستان کرکٹ نیچے چلی گئی تو شائد صحافیوں کی نوکریاں بھی خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔ مجھے پتہ ہے میں کہیں نہیں جا رہا، کیا اسٹیمپ پیپر پر لکھ کر دے دوں کہ میں کہیں نہیں جارہا غیر یقینی والی باتیں میڈیا کررہا ہے۔ماضی کی روایت ہے کہ چیئرمین ،حکومت کے ساتھ چلاجاتا تھا لیکن یہ قانون نہیں ہےیہ نا ن ایشو ہے۔
میڈیا کیا چاہتا ہے کہ میری جلدی سے چھٹی ہو آپ شہ سرخیاں لگائیں،مستقل مزاجی بھاڑ میں جائے،میڈیا دونوں پارٹیوں کو خوش کرنے کی کوشش کرتا ہے میں نے جتنی لڑائیاں لڑی ہیں میری کمنٹری تو اب گئی؟ میں کرکٹ تک محدود ہوں سیاست میں آنے کا ارادہ نہیں، میری پچھلی پریس کانفرنس میں یہ کہہ دیا گیا کہ رہیں گے یا نہیں، عمران خان سے بات کررہے ہیں یا نہیں۔ میڈیا جو ہیڈ لائینز لگائے گا تو پھر کھلاڑی آپ سے کیوں بات کریں گے۔رمیز راجا نے کہاکہ اگر میڈیا چیف سلیکٹر محمد وسیم کو لیپ ٹاپ چیف سلیکٹر کہے گا تو وہ کس طرح میڈیا سے بات کرے گا۔
میڈیا پہلے کھلاڑیوں کو بھگا دیتا ہے پھر کہتا ہے کہ وہ ہم سے بات نہیں کرتا۔کئی پاکستانی کھلاڑی ،پاکستانی میڈیا سے بات نہیں کرنا چاہتے۔ کھلاڑیوں اور میڈیا کے درمیان دراڑ آگئی ہے۔ کسی کھلاڑی کا دماغ خراب ہے کہ وہ خوشگوار ماحول میں بات نہیں کرے گا۔ آپ سمجھتے ہیں کہ پی سی بی نے کھلاڑیوں کو بات کرنےسے منع کیا ہوا ہے، میری پچھلی پریس کانفرنس میں 90فیصد میڈیا نے منفی شہ سر خیاں لگائی ہیں کسی نے کرکٹ فاونڈیشن کی بات نہیں کی۔ رمیز راجا نے کہا کہ نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی ٹیموں نے پاکستان آنے سے انکار کیا میں نے اس کا مقدمہ لڑا اور جیتا۔
چیرمین شپ کے آغاز میں ہی برا موقع آیا کہ دو بڑی کرکٹ ٹیموں نے پاکستان آکر کھیلنے سے انکار کردیا لیکن آئی سی سی کی میٹنگ میں معاملہ اٹھایا تو چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی بھی ملی اور انگلینڈ، نیوزی لینڈ دوبارہ دورے کی حامی بھی بھری۔ رمیز راجا کا کہنا تھا کہ نیشنل اسٹیڈیم کراچی کے ساتھ لاہور اور ملتان میں 70،70 کمرے تعمیر کریں گے، کراچی میں ہوٹل کےلیے پی آٸی اے کی زمین پر بات چیت چل رہی ہے، یہاں پر نئی اسکرین کی تنصیب کے ساتھ ایل ای ڈی لائٹس اور نئی کرسیاں بھی لگائی جائیں گی۔250 سابق کرکٹرز کو پی سی بی میں نوکریاں دی ہیں، کرکٹ فاؤنڈیشن آئندہ تین ماہ میں اپنا کام شروع کر دے گی۔
جس کے لیے 10 کروڑ روپے منظور کیے ہیں، مزید مالی تعاون بھی ملے گا۔ میں روایتی چیئرمین نہیں، نہ چاہتا ہوں کہ کسی کی آواز بند کروں، کلب سیاست میں گھس جائوں مجھے کیا فائدہ ہورہا ہے۔ میرا سلوگن ہے کہ جہاں میدان وہاں کرکٹ، جونیئر بچوں کے لئے جو اسکیم شروع کی ہے اس کا مقصد یہ ہے ہمیں مستقبل کے اسٹارز ملیں ،ہم اپنے سسٹم میں کھلاڑیوں کو کھو دیتے ہیں۔ ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ میں ہم نے37,37 سال کے کھلاڑی کھلائے اگر کھلاڑی فٹ ہیں اور فارم میں ہیں تو عمر کی کوئی قید نہیں ۔ ماڈل کلبوں کے لئے بجٹ میں پیسے رکھے ہیں۔
میں براہ راست واٹس ایپ پر بچوں کی شکایت دور کرتا ہوں۔ مجھے پتہ ہے کہ بچہ بددل ہوگیا تو مشکل ہوجائے گی۔ ریڈ اور وائٹ بال کنٹریکٹ اس لئے کیا جارہا ہے کہ ہمارے پاس آپشن بڑھ جائیں گے۔ سلیکشن میں ہم سب ایک صفحے پر نہیں آسکتے۔ دنیا کو ہرانے کے لئے سلو پچ سے آگے نہیں بڑھ سکتے ہماری قوت فاسٹ بولنگ ہے۔ میں سلیکشن میں دخل نہیں دیتا۔
سلیکشن میں بابر اعظم کا فیصلہ ہوتا ہے کیوں کہ گراونڈ میں ٹیم کو اس نے لڑانا ہوتا۔ رمیز راجا قانون کا سہارہ لیتے ہوئے دعوی کررہے ہیں کہ ان کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں۔ پس پردہ متحرک قوتیں انہیں ہٹانے کے لئے کوشاں ہیں۔ اس دلچسپ کھیل میں دیکھیں کون بازی لیتا ہے۔ ان کے مستقبل کے حوالے سے خدشات بدستور موجود ہیں۔