• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آزادی کیلئے اسکاٹ لینڈ میں دوسرا ریفرنڈم

سکاٹ لینڈ کی ڈائری..طاہر انعام شیخ
اسکاٹش حکومت اور اسکاٹش نیشنل پارٹی کی سربراہ نکولا سٹرجن نے برطانیہ سے آزادی کے تازہ ترین منصوبے کو پیش کردیا ہے، جس کے مطابق وہ اکتوبر2023ء میں ایک نیا ریفرنڈم کرانے کا ارادہ رکھتی ہیں، آزادی کا پہلا ریفرنڈم2014ء میں ہوا تھا، جس میں اسکاٹش عوام نے45کے مقابلے میں55فیصد سے بدستور برطانیہ کے ساتھ رہنے کے حق میں ووٹ دیئے تھے لیکن یہ شکست اتنی زیادہ فیصلہ کن نہ تھی کہ آزادی کے متوالوں کے حوصلے توڑ سکے، 2016ء کے بریگزٹ کے ریفرنڈم نے آزادی پسندوں کو ایک نئی زندگی عطا کردی۔ 38کے مقابلے میں62فیصد عوام نے یورپی یونین کے ساتھ رہنے کا فیصلہ دیا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ بریگزٹ کی وجہ سے ٹریڈ، معیار زندگی اور پبلک سروسز کو خاصا نقصان پہنچا ہے اور یوں آزادی پسندوں کو جلد ہی آزادی کے ایک دوسرے ریفرنڈم کا جواز مل گیا، ان کا کہنا تھا کہ ان کا مستقبل واضح طور پر یوکے، کے بجائے ایک آزادی ملک کے طور پر یورپی یونین کا ممبر بننے میں ہے، جس کی سنگل مارکیٹ برطانیہ سے8گنا بڑی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ 10 چھوٹے ممالک جن میں سویڈن، آئر لینڈ، ڈنمارک اور فن لینڈ وغیرہ شامل ہیں ان کو یورپی یونین میں شامل ہوکر اپنی معاشی ترقی، کاروبار میں اضافہ اور ایک بہتر معاشرے کی تعمیر میں مدد ملی۔ 2019ء میں اسکاٹش نیشنل پارٹی کی سربراہ نکولا اسٹرجن نے اعلان کیا کہ وہ دو سال کے اندر آزادی کا ایک دوسرا ریفرنڈم کرانا چاہتی ہیں لیکن کوویڈ کی وجہ سے اس ٹائم ٹیبل پر عمل نہ ہوسکا۔ نکولا سٹرجن کے لیے آزادی کا دوسرا ریفرنڈم کرانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ برطانیہ کی حکومت ہے جس کے کئی وزیراعظم بشمول بورس جانسن کہہ چکے ہیں کہ اسکاٹش نیشنل پارٹی کے رہنمائوں نے2014ء کے ریفرنڈم کے موقع پر خود عوام سے کہا تھا کہ آزادی کا یہ ریفرنڈم ایک پوری نسل کے لیے ہے۔ چنانچہ اس کا عرصہ کم از کم40سال کا ہے لہٰذا اب نئے ریفرنڈم کا کوئی جواز نہیں بنتا لیکن آزادی کے حامیوں کا کہنا تھا کہ بریگزٹ نے صورت حال کو بنیادی طور پر تبدیل کردیا، اسکاٹش حکومت کی سربراہ نکولا سٹرجن کا کہنا تھا کہ انہوں نے گزشتہ سال مئی میں اسکاٹش پارلیمنٹ کا الیکشن اس واضح اعلان کے ساتھ لڑا تھا کہ کامیابی کی صورت حال میں یہ عوام کی طرف سے ایک نئے ریفرنڈم کا مینڈیٹ ہوگا اور عوام نے ان کو یہ مینڈیٹ دے دیا اور اس وقت اسکاٹش پارلیمنٹ میں گرین اور اسکاٹش نیشنل پارٹی جو آزادی چاہتی ہیں، ان کو اکثریت حاصل ہے لیکن نکولا سٹرجن اس بات کو بھی تسلیم کرتی ہیں کہ نئے ریفرنڈم کے انعقاد کو چند چیلنجز کا سامنا ہے۔ اگر ریفرنڈم ویسٹ منسٹر کی پارلیمنٹ کی رضامندی کے بغیر کیا گیا، تو اس کو عدالتوں میں چیلنج کیا جاسکتا ہے اور اس کی حیثیت متنازع ہوسکتی ہے۔ واضح رہے کہ2014ء کا ریفرنڈم برطانوی حکومت کی مرضی کے ساتھ ہوا تھا اور اس کے لیے برطانوی پارلیمنٹ سے ریفرنڈم کرانے کے اپنے سیکشن30کے اختیارات اسکاٹش پارلیمنٹ کو منتقل کردیے تھے لیکن اب ویسٹ منسٹر کی پارلیمنٹ ایسا کرنے کو بالکل تیار نہیں۔ نکولا اسٹرجن نیا ریفرنڈم لازمی طور پر ایسے آئینی اور قانونی طریقوں سے کرانا چاہتی ہیں، جس کو پوری دنیا خصوصاً یورپین یونین قبول کرے، کیونکہ آزادی حاصل کرکے وہ یورپی یونین میں شامل ہونا چاہتی ہیں۔ اگر وہ یکطرفہ طور پر اسکاٹش پارلیمنٹ کے ذریعے نیا ریفرنڈم کراتی ہیں تو اس کی کوئی قانونی حیثیت نہ ہوگی۔ چنانچہ برطانوی حکومت کی طرف سے نئے ریفرنڈم کی اجازت نہ ملنے پر وہ دیگر متبادل قانونی راستے اختیار کررہی ہیں اور اب وہ برطانیہ کی سپریم کورٹ میں چلی گئی ہیں۔ اسکاٹ لینڈ ایکٹ کہتا ہے کہ ریزرو معاملات اسکاٹش پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔ ریزرو یا محفوظ معاملات سے مراد اسکاٹ لینڈ اور انگلینڈ کی ریاستوں کی یونین ہے۔ اسکاٹ لینڈ کے لارڈ ایڈووکیٹ اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں لے کر گئے ہیں اور ججوں سے کہا ہے کہ فیصلہ دیں کہ کیا ویسٹ منسٹر کی پارلیمنٹ کی رضامندی کے بغیر اسکاٹش پارلیمنٹ اپنے طور پر آزادی کے ریفرنڈم کا بل پاس کرسکتی ہے۔ بظاہر یہاں اسکاٹش حکومت کی کامیابی کا امکان خاصا کم نظر آتا ہے۔ چنانچہ اسکاٹش حکومت نے اس کے علاوہ بھی آزادی کے لیے کئی متبادل قانونی پلان تیار کر رکھے ہیں۔ اگر سپریم کورٹ نئے ریفرنڈم کی اجازت دینے سے انکار کرتی ہے تو اسکاٹش نیشنل پارٹی برطانیہ کے آئندہ الیکشن کو دی فیکٹو De Factoریفرنڈم کے طور پر استعمال کرنے کا ارارہ رکھتی ہے۔ اگر وہ ان الیکشن میں ووٹوں کی اکثریت حاصل کرلیتی ہے تو یہ ان کے نزدیک یوکے کی حکومت سے آزادی کے متعلق بات کرنے کا مینڈیٹ ہوگا، لیکن یہ ایک طرح کا انتہائی قدم ہوگا۔ نکولا اسٹرجن کی پہلی ترجیح برطانوی حکومت کی رضامندی ہے۔ 2014ء کی طرح کا ریفرنڈم ہے۔ ایک دوسری بات بھی خاصی اہمیت کی حامل ہے۔ نکولا اسٹرجن آزادی کا دوسرا ریفرنڈم صرف اسی مشکل میں کروائیں گی جب کہ انہیں اپنی جیت کا سو فیصد یقین ہو، کیونکہ ناکامی کی صورت میں آزادی کا معاملہ ایک لمبے عرصے کے پس پشت چلا جائے گا، بلکہ خود نکولا اسٹرجن کو بھی رضاکارانہ طور پر حکومت سے استعفیٰ دینا پڑے گا، جیسا کہ ان کے پیش رو الیکس سالمنڈ نے2014ء کا ریفرنڈم ہارنے کے بعد کیا تھا۔ حالیہ پولز کے مطابق برطانیہ سے آزادی یا برطانیہ کے ساتھ رہنے والوں کی شرح مستحکم نہیں یہ مسلسل تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ گزشتہ سال اسکاٹش پارلیمنٹ کے الیکشن کے بعد تین پولز میں آزادی کے حامیوں کی اکثریت رہی، تین برابر رہے جبکہ20میں آزادی کے مخالف آگے رہے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آزادی کی حمایت ختم ہوگئی ہے۔ یہ سلسلہ اب اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک کہ اسکاٹ لینڈ برطانیہ سے آزاد نہ ہوجائے یا پھر آزادی کی تحریک بالکل کمزور پڑ جائے۔ 
یورپ سے سے مزید