لندن (شہزاد علی / خبر ایجنسی) برطانیہ کا سیاسی بحران مزید شدت اختیار کر گیا۔
بھاری تعداد میں وزراء کے استعفیٰ اور وزیر اعظم کی قیادت پر عدم اعتماد کے بعد بورس جانسن نے گزشتہ روز کنزرویٹو لیڈر کے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا تاہم کہا کہ وہ موسم خزاں تک وزیر اعظم کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہیں گے تاکہ گرمیوں میں ٹوری قیادت کے مقابلے کی اجازت دی جا سکے۔
کنزرویٹو پارٹی کو اب نیا لیڈر کا انتخاب کرنا ہوگا اور اس عمل کے لیے کئی ہفتے اور مہینے بھی لگ سکتے ہیں۔وزیر اعظم ہاؤس، 10ڈاوننگ سٹریٹ، کے سامنے خطاب کرتے ہوئے بورس جانسن نے کہا کہ وہ عہدہ چھوڑنے پر افسردہ ہیں۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ سیاست میں کوئی بھی ذرہ برابر نا گزیر نہیں ہوتا۔
بورس جانسن کے پارٹی قیادت سے مستعفی ہونے سے قبل کنزرویٹیو پارٹی کے بیک بینچ ارکان پارلیمان کی طاقتور1922 کمیٹی کے ڈپٹی چیئرمین نے بھی آج اپنے ان ساتھیوں کی آواز میں آواز ملائی جو بورس جانسن سے بطور وزیر اعظم فوری مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
وِیلڈن سے رکنِ پارلیمان نصرت غنی کا کہنا ہے کہ نائب وزیر اعظم ڈومینِک راب کو عبوری مدت کے لیے فوراً ہی بورس جانسن سے اختیارات لے لینے چاہئیں۔ماضی میں وزیر اعظم کے دست راست مگر اب سیاسی حریف ڈومینِک کمِنگز نے کنزویٹیو ارکان پارلیمان سے کہا ہے کہ وہ بورس جانسن کو نگراں وزیر اعظم بنانے کی بجائے فوری طور پر ان کے عہدے سے ہٹا دیں۔
حزب اختلاف کی جماعت لیبر پارٹی کے سربراہ کیئر سٹارمر نے بھی وزیر اعظم سے فوری طور پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا عبوری وزیر اعظم رہنا ملک کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا۔بعض اراکین پارلیمان انتخابی عمل کو مختصر کرنے پر زور دے رہے ہیں جس میں پارٹی اراکین کو نیا قائد منتخب کرنے کے لیے موسم خزاں (اکتوبر) تک انتظار کی بجائے ایک ماہ کا وقت دیا جائے۔
اس دوران پارٹی کا نیا رہنما چننے کا مرحلہ طے کیا جائے گا، جس کے بعد اکتوبر میں ٹوری پارٹی کانفرنس سے قبل بورس جانسن کی جگہ نیا وزیر اعظم منتخب کیا جائے گا۔کچھ ٹوری ایم پیز کا کہنا ہے کہ بورس جانس کو ابھی جانا چاہیے اور ان کے لیے رہنا ناممکن ہے۔ ساتھ ہی یہ بحث پھر شروع ہوگئی ہے کہ بورس جانسن کی جگہ کون لے سکتا ہے؟ اب یہ فیصلہ کرنے کے لیے قیادت کا انتخاب ہو گا کہ کنزرویٹو رہنما اور وزیر اعظم کون بنے گا۔
انہیں ٹوری ایم پیز کی حمایت حاصل کرنی ہوگی، حتمی دو امیدوار کنزرویٹو ممبران کی بیلٹ پر جائیں گے لیکن ممکنہ امیدوار کون ہیں؟ ان میں سے زیادہ تر ایم پیز اور وزراء نے ابھی تک یہ نہیں کہا کہ کیا وہ ٹوری لیڈر اور پی ایم کی نوکری چاہتے ہیں 50 سے زائد حکومتی وزراء اور معاونین مستعفی ہو چکے ہیں۔
لیبر لیڈر کیئر اسٹارمر نے جانسن کے مستعفی ہونے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ کنزرویٹو نے بحران کے دوران ملک میں افراتفری پھیلا دی ہے۔سٹارمر کا کہنا تھاانھیں جانا ہوگا، وہ چمٹے نہیں رہ سکتے۔
سکریٹری خارجہ لز ٹرس جو کئی دنوں سے خاموش ہیں، غیر ملکی دورہ مختصر کرکے لندن واپس آرہی ہیں۔ گذشتہ صبح ندیم زہاوی نے جنہیں ابھی دو دن پہلے ہی چانسلر کا عہدہ دیا گیا تھا نے بھی جانسن سے کہا ہے کہ انہیں جانا ہوگا ۔ جب کہ نئے سیکریٹری تعلیم مشیل ڈونیلان اور شمالی آئرلینڈ کے سیکریٹری برینڈن لیوس نے کابینہ سے استعفیٰ دے دیا۔
کابینہ، بورس جانسن نے گریگ کلارک کو مائیکل گو کی جگہ نیا لیولنگ اپ سیکرٹری مقرر کیا ہے۔ کٹ مالتھ ہاؤس ڈچی آف لنکاسٹر کے چانسلر بن گئے، جو وزیر اعظم کے بعد کابینہ کے دفتر میں سب سے سینئر وزیر ہیں۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ جانسن نے ایک مکمل متبادل کابینہ کا تقرر کیا ہے، لہذا جب ہم دوسرے نام سنیں گے تو ہم آپ کو اپ ڈیٹ کریں گے۔
بورس جانسن نمبر 10 میں وقت کے لحاظ سے تھریسا مے سے بالکل پیچھے ہیں۔ بورس جانسن کو وزیراعظم کے طور پر مزید 28 دن گزارنے ہوں گے اگر وہ ڈاؤننگ سٹریٹ میں تھریسا مے کے دور کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
اگر جانسن 4 اگست تک عہدے پر برقرار رہتے ہیں استعفیٰ دینے کے اپنے ارادے کے اشارے کے باوجود وہ اپنے فوری پیشرو کو پیچھے چھوڑ چکے ہوں گے۔تاہم وہ ڈاؤننگ اسٹریٹ میں اپنے وقت کے لیے ابھی ایک اور علامتی سنگ میل تک پہنچ گئے ہیں۔
گریگ کلارک کو نیا لیولنگ اپ سیکرٹری اور جیمز کلیورلی کو ایجوکیشن سیکرٹری نامزد کیا گیا ہے۔ لیکن کچھ ٹوری ایم پیز ان پر زور دے رہے ہیں کہ وہ حکومت کو مفلوج ہونے سے بچنے کے لیے ابھی چلے جائیں۔
لیبر لیڈر سر کیر اسٹارمر نے کہا کہ مسٹر جانسن کو نمبر 10 میں چمٹے رہنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر کنزرویٹو ان سے چھٹکارا حاصل نہیں کرتے ہیں۔