• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یسریٰ اصمعٰی

ارے آدھی رات کو کچن میں کیوں بھئی۔ وہ میں آج کل ذی الحجہ کے روزے رکھ رہی ہوں۔ ارے ماشااللہ۔ سحری کی خشوع و خضوع سے نماز پڑھی۔ دل میں خوشی اتر گئی رمضان کے علاوہ روزہ رکھنے کا بھی اپنا ہی لطف ہے۔اوہ !نو بج گئے۔ تجوید کی آن لائن کلاس کا وقت ہوگیا ہے۔ لیپ ٹاپ کھولا جلدی سے وضو کیا ۔قرآن لے کر اسکرین کے سامنے۔ 

ٹیکنالوجی نے دین سیکھنا بھی کتنا آسان کر دیا ہے۔ اس کے باوجود جو نہ فائدہ اٹھائے وہ بڑا خسارے میں ہے۔ درست مخارج سے قرآن پڑھنے کا لطف کوئی کیا جانے۔ دیگچی کا ڈھکنا کھولنے کی دیر تھی قورمے کی لذیذ خوشبو پورے گھر میں پھیل گئی۔ جلدی سے ڈونگا بھر قورمہ نکالا۔ پڑوس میں بھیجا۔ اسلام میں ہمسائے کے بہت حقوق ہیں۔ الماری کا پٹ کھولا ۔ (اللہ کی راہ میں اپنے بہترین مال میں سے دینا پسندیدہ ترین عمل ہے) درس والی باجی کے الفاظ ذہن میں گونجے توجلدی سے اپنا ایک پسندیدہ جوڑا نکال کر کام والی کو دیا۔ 

کام والی کی خوشی دیدنی تھی دیکھ کر دل خوش ہوا۔ لگا کہ کچھ اچھا کام کیا ہے۔ ہیلو ۔ جی سنیں کب تک آئیں گے آفس سے؟ جلدی آجاتے تو قربانی کا جانور لے آتے آ ج ہی۔ اب کچھ دن تو جانور کی خدمت کے ملیں ناں۔ قربانی کے جانور کی خدمت کا بھی اجر ہے اور درس والی باجی نے بتایا ہے کہ انسیت والے جانور کی قربانی کا زیادہ ثواب ہے۔

بیٹا میری دوائیں ختم ہو گئی ہیں۔ ذرا کسی بچے کو بھیج کر منگوا تو دو۔ ایک تو ان کے کمرے کے سامنے سے گزرنا مشکل ہے شکل دیکھتے ہی کچھ یاد آ جاتا ہے۔ دل ہی دل میں کوسا۔ امی بچے سو رہے ہیں جب اٹھیں گے تب بھیج دوں گی۔ روکھے سے انداز میں جواب دیا۔ فون کی گھنٹی بجی۔ ایک تو اسے بھی کوئی کام نہیں بہت فارغ ہے۔ اکلوتی نند کا نام دیکھ کر بڑبڑاہٹ نکلی۔ ہاں بولو کیسے فون کیا؟ فون اٹھاتےہی لٹھ مار انداز میں پوچھا دوسری طرف سے پرجوش سی آواز دب سی گئی۔ 

وہ بھابھی میں سوچ رہی تھی، یہ حیدرآباد گئے ہیں تو دو دن کے لیے آپ کی طرف آ جاؤں ،بچے بھی ضد کر رہے ہیں، دوسری طرف سے سنبھل کر موقف بیان کیا گیا (کیا مصیبت ہے اس لڑکی کا اپنے گھر دل کیوں نہیں لگتا) مرضی ہے آ جاؤں دیکھ لو۔ ویسے آج کل بچوں کے ٹیسٹ چل رہے ہیں، جب سب بچے مل جاتے ہیں تو پڑھتے نہیں ہیں اور تم اپنے بھائی جان کو بھی جانتی ہو بچوں کے گریڈز کو لے کرکس قدر کونشیس رہتے ہیں۔ 

سرد سے انداز میں جواب دیا گیا۔ اوہ اچھا اچھا بھابھی چلیں کوئی بات نہیں پھر کبھی چکر لگا لوں گی۔ بچوں کو پیار کیجئے گا میری طرف سے۔ اکلوتی نند نے کھسیا کر فون رکھ دیا۔ گیلے ہاتھ پونچھتے ہوئے موبائل فون اٹھایا۔ ذرا امی کی تو خیر خبر لوں؟وہ کیسی ہیں۔ آواز سے تھکی تھکی لگ رہی ہیں۔ کھانا آپ نے کیوں پکایا ؟؟ اچھا بھابھی میکے گئی ہیں۔ توبہ، ذرا اپنی بہو کو ٹائٹ رکھا کریں جب دیکھو میکے چلی جاتی ہیں۔ 

عجیب ہی لاپرواہ طبیعت ہے بھئی۔ ہم سے تو یوں روز روز میکے کے چکر نہیں لگائے جاتے۔ کیا ؟ بھابھی کی امی بیمار ہیں۔ ارے رہنے دیں امی آپ تو اتنی بھولی ہیں۔ سب بہانے ہیں گھر گرہستی سے جان چھڑانے کے۔ آئیں گی تو میں بھابھی سے بات کروں گی۔ آپ سے تو بہو کو کچھ کہا نہیں جاتا۔ چلیں امی اجازت دیں۔ افطار کا وقت قریب ہے۔ جی جی الحمدللہ ذی الحجہ کے روزے رکھ رہی ہوں ناں۔ نفلی روزوں کا بھی اپنا ہی مزہ ہے۔ اس کے بعد تجوید کی کلاس کا سبق بھی دہرانا ہے۔ اللہ حافظ۔۔۔۔!!!!!

یہ کردار کوئی اور نہیں میں اور آپ ہی تو ہیں۔ زندگی کے کسی نہ کسی روپ اور کسی نہ کسی رنگ میں ہمارے رویے بھی کم و بیش ایسے ہی تو ہوتے ہیں، ہم ظاہری عبادات تو مکمل جوش و جذبے سے ادا کرتے ہیں, تہواروں کو بھی خوب اہتمام اور دھوم دھام سے مناتے ہیں لیکن یہ سب ہمارے اندر وہ تبدیلی اور ایمان کا وہ درجہ پیدا کرنے میں ناکام رہتے ہیں جو اللہ کو درحقیقت اپنے بندے سے مطلوب ہے۔ 

دین اسلام انسانی تربیت اور افعال و افکار میں تبدیلی کا ایک پورا نظام ان عبادات اور تہواروں کے روپ میں دیتا ہے ہر عبادت کے پیچھے اللہ نے ایک مقصد پوشیدہ رکھا ہے، جس کو ہم اپنی کوتاہ نظری سے فراموش کر کے بس اس کے ظاہری پہلو کی ادائیگی پر ہی توجہ دیتے ہیں۔ چوں کہ موقع عید الاضحی کا ہے۔ اس لیے بات بھی فی الحال اسی کی کرتے ہیں ,ہم عید الاضحی پر بہترین سے بہترین جانور اللہ کی راہ میں قربان کرتے ہیں لیکن جب بات اپنی انا اور اپنے نفس کی قربانی کی ہو تو ڈنڈی مار جاتے ہیں ۔ 

یہی وجہ ہے کہ ہماری عبادات نہ تو ہماری شخصیت میں تبدیلی لانے کا سبب بنتی ہیں نہ معاشرے میں کوئی خیر کا دیپ جلاتی نظر آتی ہیں، بس ایک لاشعوری سی کیفیت میں رسم دنیا کی طرح یہ تہوار اور قربانی کا فریضہ ادا کرتے چلے جانا، کیا واقعی سنت ابراہیمی ہے؟ آئیے اس عید الاضحی پر سوچیں کیا فقط جانور قربان کرنےسے ہمارے اندر وہ ایمانی کیفیت پیدا ہوئی جو اپنی عزیز ترین شے اللہ کی راہ میں قربان کر کے ہونی چاہیے۔ اگر دل اس کیفیت سے خالی رہا تو اپنے عمل کا جائزہ ضرور لیں کہیں قربانی کرتے ہوئے ہماری نیت میں خدانخواستہ ریاکاری و دکھاوے کا عنصر تو نہیں شامل ہوا تھا؟ 

کہیں حقوق اللہ کی ادائیگی کو ہی کافی سمجھ کر حقوق العباد اور حسن اخلاق کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کو پس پشت تو نہ ڈال دیا ؟ میرا کوئی شعوری عمل کسی کی دل آزاری کا سبب تو نہیں بنا؟ ہم کہیں کسی رشتے سے قطع تعلقی کے گناہ گار تو نہیں ہیں ؟ میرے مال کے بہترین حصے میں سے کتنا حصہ نفاق فی سبیل للہ کے لیے ہے ؟ میں اللہ کی خاطر اپنے نفس کی کیا قربانی دیتی ہوں ؟

یہ اور ایسے بہت سے چھوٹے چھوٹے سوالات مجھے اور آپ کو اپنے دلوں سے عام حالات میں بھی پوچھتے رہنے چاہیں لیکن خاص طور پر جب ہم اللہ کے لیے کسی اہم عبادت کا ارادہ رکھتے ہوں اور اللہ سے اس کی رحمت کے طلب گار ہوں تب تو ضرور اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے، تاکہ ہماری عبادات ہماری روح پر اثرانداز ہو سکیں اور ہماری اخلاقی تربیت کا سبب بنیں۔ 

چلیں ! اس عید گھر کے جالوں کے ساتھ دل کے جالے بھی جھاڑتے ہیں، ان کی طرف سے دل صاف کرتے ہیں جن کے لیے برسوں سے کہیں دل میں کدورت جمع ہے، مشکل ترین ہے لیکن اللہ کی راہ میں اپنے نفس کی قربانی دیتے ہوئے انہیں معاف کرتے ہیں جنھوں نے ہمارے ساتھ زیادتیاں کیں اور اپنی انا قربان کرتے ہوئے ان سے معافی مانگتے ہیں جن کے ساتھ ہم نے زیادتیاں کیں۔

اردگرد نظر دوڑاتے ہیں، عرصہ ہوا اگر کوئی ناراض ہے تو عید پر اس کوجا کر منا لیتے ہیں ۔ساتھ ہی عیدالاضحی سے قبل کوشش کریں کہ گھر کے بچوں اور بڑوں کے ساتھ فریضہ قربانی کی اہمیت سنت ابراہیمی کی فضلیت، اللہ کی فرمانبرداری کو موضوع گفتگو بنائیں، تاکہ اس عظیم واقعہ کی روح ذہنوں میں تروتازہ ہو سکے۔ تکبیرات کا چلتے پھرتے خود بھی ورد کریں اور بچوں کو بھی کروائیں، بلکہ اگر ممکن ہو تو تکبیرات لکھ کر گھر میں کسی واضح مقام پر چسپاں کر دیں ،تاکہ تمام اہل خانہ کو یاد دہانی ہوتی رہے شعوری کوشش کریں کہ عید الفحیل فقط بریانی تکوں اور زبان کے چٹخاروں کا نام بن کر نہ رہ جائے۔ 

قربانی کے درست مفہوم کو اُجاگر کرنے کے ساتھ صفائی کا شعور دینا بھی ہم عورتوں کے ہاتھ میں کافی حد تک ہے، جس طرح ہم گھروں کی صفائی کا خیال رکھتی ہیں ویسے ہی ذرا سی توجہ گھر سے باہر، گلی اور محلے کی صفائی بھی رکھی جا سکتی ہے۔ مہنگائی کے اس طوفان میں اگر اللہ نے قربانی کرنے کی استطاعت دی ہے تو اردگرد آس پڑوس عزیز رشتہ داروں کے حالات سے باخبر رہیں، بہت سے سفید پوش اس بارے مہنگائی کے باعث عید پر تنگی کا شکار ہوں گے، عید کی خوشیوں میں انہیں بھی شامل کریں، اپنی کچھ تیاریاں کم کر کے عید گفٹس کی صورت میں ان کی کچھ اس انداز میں مدد کرنے کی کوشش کریں کہ ان کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو اور سفید پوشی کا بھرم بھی رہ جائے، دھیان رہے کہ ہم تو عید پکوان سے لطف اٹھاتے رہیں اور اردگرد کہیں کسی گھر میں چولہا ٹھنڈا رہ جائے۔ 

یاد رہے کہ اللہ کے دیئے ہوئے ہمارے اس مال پر ضرورت مندوں کا حق بھی ہے۔سہیلیوں پھر تیار ہیں ناں عید کو ایک نئے جذبے سے منانے کے لیے، تاکہ اس بار یہ عید کاموں کی تھکاوٹ کے ساتھ ہمیں روح کی سرشاری اور ایمان کی حلاوت بھی دے۔ اللہ تعالی ہماری قربانیوں اور ہمارے اعمال کو قبول کریں۔ آمین۔