کتابیں بہت بھاری ہوتی ہیں ۔مجھے حیرانی تھی کتابیں کیوں بھاری ہوتی ہیں؟ جب کتابوں سے رابطہ شروع ہوا تو اندازہ ہوا اصل میں علم کتاب کو بھاری بناتا ہے۔ ہماری الہامی کتاب قرآن الحکیم میں اتنا کچھ ہے کہ آج تک اس کی تفسیر و تشریح پر کام ہو رہا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اتنا علم دنیا بھر میں ہے مگر اس علم سے کتنا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟ اس پر اس وقت کوئی تحقیق موجود نہیں مگر اکثر کتابوں کو آپ انٹرنیٹ کی مدد سے دیکھ توسکتے ہیں مگر مکمل رسائی ممکن نہیں ہوپاتی۔
گزشتہ چند دنوں میں مجھے کچھ ایسی تحریروں تک رسائی ملی اور وہ تحریریں علم اور عمل کے تناظر میں بہت ہی منفرد حیثیت کی حامل ہیں ۔ ان تحریروں میں سے دو کتب کی اشاعت حال ہی میں ہوئی ہے اور کسی بھی بڑے کتب خانے سے ان کو مستعاربھی لیا جا سکتا ہے، ان تحریروں نے مجھے بہت شانت کیا اور سوچا آپ کا بھی ان سے تعارف کروا دوں ۔میرے مہربان سید انو رقدوائی مرحوم نے مجھے لاہور کی ایک ایسی شخصیت سےمتعارف کروایا تھا جو روحانی دنیا کے فقیر ہیں، ان کی کئی کتب شائع ہو چکی ہیں اور پھر وہ وقت بھی آیا میں نے اور جناب انور قدوائی مرحوم نے اس فقیر شخصیت کے بارے میں ایک کتاب بھی ترتیب دی اور خود ہی شائع بھی کی اور بیشتر کتاب کو روزنامہ جنگ کے دفتر سے صاحبِ ذوق لوگوں کو مہیا بھی کی گئی، وہ کتاب اصل میں کالموں کے حوالے سے تھی، کتاب کا نام تھا ’’سید سرفراز شاہ صاحب کے حضور‘‘، حال ہی میں سید سرفراز شاہ کی نئی کتاب ’’حرفِ فقیر‘‘ منظر عام پر آئی ہے۔ کتاب کو بہت نفیس انداز میں شائع کیا گیا ہے،کتاب کے حرف آغاز میں سرفراز اے شاہ نے لکھا ہے، ’’دنیا کی بھول بھلیوں میں گم انسان کسی خوش نصیب لمحے میں جب راز ہستی کا کھوج لگانے کےلئے غوروفکر کی وادیوں میں اترتا ہےتو اس پر منکشف ہوتا ہے کہ زندگی محرم کے سوا کچھ بھی نہیں، ذاتِ الٰہی کا عرفان ہی حرف راز ہے اور اس کا راستہ عرفان نفس سے ہو کر جاتا ہے جوں جوں انسان معرفت کا سفر طے کرتا جاتا ہے اس کا رواں رواں ’’بس تو ہی تو ہے ‘‘ کی صدا بنتا چلا جاتا ہے ۔میرا جناب سرفراز اے شاہ سے رابطہ کئی برسوں سے ہے اور جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں اس تعلق کی بنیاد سید انور قدوائی مرحوم نے رکھی تھی جب سید انور قدوائی پردہ فرما گئے تو جناب سرفراز اے شاہ کی توجہ برقرار رہی اور ایک عرصہ سے ہر ہفتہ کو ان کے ساتھ محفل جمتی ہے، اس میں کچھ وقفہ بھی آیا اور وہ بھی وبا کے دنوں میں... پھر کتاب کی اشاعت کے لئے سید سرفراز اے شاہ نے جناب افضال احمد اور مجھ سے مشاورت بھی کی اور مجھے کتاب کا مسودہ دیکھنے کا موقعہ ملا ،یہ کتاب روحانیت کے تناظر میں بہترین علم اور عمل سے روشناس کراتی ہے ۔
ایک اور کتاب کا ذکر ہو جائے، اس کتاب کے کچھ ابواب ماضی کے مشہور ادبی رسالے ادب لطیف میں پڑھ چکا تھا اور اس کے لکھاری ہماری اعلیٰ نوکر شاہی کے طارق محمود تھے جو چیز بھی چھپتی وہ مکمل طورپر مربوط اور مکمل ہوتی تھی لیکن پھر بھی ایک انجانی سی بے قراری ضرور رہتی کہ جو تذکرہ بیان کیا گیا، اس کا پس منظر کیا ہو سکتا ہے پھر خصوصی طور پر جس طرح سابق مشرقی پاکستان اور حالیہ بنگلہ دیش کا ذکر کیا جاتا ہے وہ تو بہت خاص سا لگتا ہے وہ وقت طارق محمود کی اعلیٰ تعلیم کے دن تھے۔ انہوں نے اپنے قیام اور طعام کی جو بھی داستان رقم کی ہے تو اس سے اندازہ ہوتا ہے انسان کبھی برا نہیں ہوتا،حالات اور جبر انسان کو بے بس کر دیتا ہے ۔یہ کتاب ابھی زیرِ مطالعہ ہے اور اس کو کئی بار پڑھنا ہوگا پھر کوئی حتمی تنقید یا تفسیر بیان کی جا سکے گی ۔
دامِ خیال کو پڑھنے او رسمجھنے میں کافی وقت بھی لگ سکتا ہے۔اس کتاب کو لاہور کے ایک معروف اشاعتی ادارے نے شائع کیا ہے، اگر میں اس کتاب پر تبصرہ کروں تو بس اتنا کہہ سکتا ہوں، ’’دامِ خیال ایک نئے اسلوب سے لکھی ہوئی جگ بیتی ہےجس نے اردو ادب کو نئی جہت دی ہے۔ فاضل مصنف نے سوچ کا منظر نامہ خوب بیان کیا ہے‘‘اور پڑھنے میں جو لطف آ رہا ہے وہ بیان سے باہر ہے، اس وقت کے مشرقی پاکستان سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اس زمانہ کے ایک انگریزی اخبار میں لکھنا بھی شروع کیا ، اس سے اندازہ ہوتا ہےکہ وہ جز وقتی صحافی بھی رہے اور پھر سب سے پہلی ملازمت بھی پاکستان ٹیلی ویژن میں ہی کی اور کچھ کام کرنے کےبعد انہوں نے نوکر شاہی کو اپنا مستقبل بنا لیا ۔
ان دنوں مجھے اپنے دوست جاوید اقبال اعوان کی ایک تحریر پڑھنے کا بھی اتفاق ہوا جو انہوں نے ہمارے دوست وجاہت مسعود کے انٹرنیٹ اخبار ہم سب کے لئے لکھی تھی، یہ بھی ان کی جگ بیتی کا ایک بھرپور باب ہے،کالم کا عنوان ہے ’’تحریکِ استحقاق اور پارلیمانی پیشیاں‘‘۔ جاوید اقبال اعوان سے پرانی رفاقت ہے، گورنمنٹ کالج لاہور کی دوستی اب تک قائم ہے، وہ اعلیٰ نوکر شاہی کے اعلیٰ ترین منصب تک گئے اور مطالعہ کے شوقین ہیں۔ کالج کے جریدے راوی میں لکھی ان کی تحریر ہی دوستی کی وجہ بنی ۔دوستوں کے دوست اور صاف گو انسان، اس کالم میں سیاسی اشرافیہ اور تحریکِ استحقاق کا خوب ذکر ہے اور پارلیمانی پیشیوں سے یوں لگتا ہے کہ وہ مشقتی ہیں آخری پیشی جب ٹلی تو لکھا، میں نے گہرے تشکر کا سانس لیا اور اوپر دیکھا اور وجد میں آکر مسکردیا، اوپر نیلی چھت تن چکی تھی ۔جاوید کی طرف ایک کتاب کا قرض بڑھ گیا ہے ۔