رمشا خان
والدین کی اکثریت کو اپنی اولاد کے حوالے سے یہ شکایات ہیں کہ وہ نماز کی پابندی نہیں کرتی، قرآن پاک کی تلاوت روز نہیں کرتی، پڑھائی میں دل چسپی نہیں لیتی، ہر وقت ٹی وی، نیٹ، موبائل، کھیل وغیرہ میں مصروف رہتی ہے لیکن بات یہ ہے کہ یہ شکایات کم از کم وہ والدین تو نہ کریں جن کے بچّے ابھی چھوٹے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی انسان ہر وقت تنہا نہیں رہ سکتا۔ بڑے جب تنہا ہوتے ہیں تو وہ اپنی تنہائی دور کرنے کیلئے کسی کتاب کا مطالعہ شروع کر دیتے ہیں، کسی دوست کو فون کر لیتے ہیں، خواتین سلائی کڑھائی وغیرہ میں مصروف ہو جاتی ہیں، بالکل اسی طرح چھوٹے بچّوں کو بھی اپنی تنہائی دور کرنے کے لیے کوئی مصروفیت چاہئے ہوتی ہے۔
اس سلسلے میں والدین کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ ان کو باقاعدہ کوئی کارآمد منصوبہ بندی کرنی چاہئے اور اس پر عمل درآمد بھی کروانا چاہئے۔ مثلاً بچّوں کے اسکول سے واپسی پر تھوڑا سا وقت دینی تعلیم کو دیں۔ کہا جاتا ہےتم میں بہترین انسان وہ ہیں جو قرآن پڑھنا سیکھیں اور دوسروں کو بھی اس کی تعلیم دیں۔ پھر بچیاں ہوں تو انہیں گھر داری سکھائیں آٹا گوندھنا سکھائیں، کبھی انہیں چاول میں سے کنکر اور دیگر بے کار چیزیں چننا سکھائیں۔
پڑھائی میں دیکھیں کہ وہ کن کن مضامین میں کمزور ہیں۔ پھر جسمانی اور ذہنی کھیلوں میں ان کی دلچسپی جانچیں اور ان کو ان کی دلچسپی کے کھیل کھیلنے کے مواقع دیں۔ بچّوں کو تفریح کی غرض سے کسی پارک وغیرہ لے جائیں۔ انہیں قدرت کے نظارے دکھائیں ہفتے میں نہیں تو مہینے میں کچھ دیر کے لئے رشتے داروں کے گھر لے جائیں۔
نماز کا وقت ہو تو انہیں نماز کی تاکید کریں۔ قرآن پاک کی تلاوت ان کو اپنے ساتھ بٹھا کر کروائیں۔ ٹی وی، نیٹ وغیرہ استعمال کرنے دیں، مگر صرف مقررہ اوقات میں اور ان پر نظر بھی رکھیں۔ جب والدین اولاد کیلئے کوئی باقاعدہ و کارآمد منصوبہ بندی نہیں کرتے اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں تو وہ خود صحیح و غلط کا تعین نہیں کر پاتے۔ انہیں اپنے نفع و نقصان کا ادراک نہیں ہوتا۔
عموماً والدین خود خواندہ ہونے کے باوجود اپنے چھوٹے بچّوں کو پڑھا نہیں پاتے جبکہ یہی بچّے جب ٹیوٹر سے پڑھتے ہیں تو بہت اچھے نتائج حاصل کرتے ہیں۔ اسی طرح مدرسے میں بہ آسانی قرآن کی تلاوت سیکھ لیتے ہیں بلکہ بعض بچّے تو قرأت اور حفظ کرانا بھی سیکھ لیتے ہیں۔ آخر والدین یہ کام کیوں نہیں کر پاتے؟
ٹیوشن یا مدرسے میں موجود استاد اپنے سارے کام چھوڑ کر اپنا پورا وقت، توجّہ آپ کے بچّوں کو دیتے ہیں، ان کی تصحیح و رہنمائی کرتے ہیں۔ بقول ہمارےاساتذہ کے ہم اپنا خون نچوڑتے ہیں تب کہیں جا کر یہ بچّے اچھے نتائج حاصل کرتے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ والدین اپنے بچّوں کو وقت نہیں دے رہے جبکہ ان سے بڑی بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔
ذرا سوچیں جب آپ نے انہیں نماز پڑھنی نہیں سکھائی تو وہ کیسے پڑھیں گے۔ بچے پر نماز فرض ہو جائےتو آپ کو خود آگے بڑھ کر اپنے سامنے انہیں وضو کروانا چاہیے۔ نماز پڑھوانی چاہیے اور یہ ایک مستقل عمل ہے۔ جب آپ یہ مستقل کریں گی تو تب جا کے ایک وقت آئے گا کہ آپ کی یہ ذمہ داری ایک دن ختم ہو جائے گی، کیونکہ بچے نمازی بن چکے ہوں گے۔ قرآن پاک کے لئے بھی آپ کو روز ان کو اپنے پاس بٹھا کر پڑھوانا ہوگا پھر وہ روز پڑھیں گے۔
اگر آپ ان کو اپنا وقت دیں اور خود ہی اپنے بچوں پر محنت کریں اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی تمام مطلوبہ چیزوں کا خیال رکھیں اور ان کو بروئے کار لائیں۔ اب یہ ممکن ہے کہ انہیں سب مضمون آپ خود نہیں پڑھا پائیں تو آپ انہیں ٹیوشن بھیجیں، مدرسے بھیجیں مگر اگر صرف ایک ڈیڑھ گھنٹے بھی آپ انہیں اپنا آپ دیں ٹیوشن، مدرسے میں انہوں نے کیا،کیا۔ ان سے گفتگو گریں ، وہاں کی کمی کو تاہی کو خود پوری کریں۔
اپنے اندر یہ جذبہ پیداکریں کہ آپ نے اپنے بچوں کو وقت دینا ہے۔ اس سے آپ اور آپ کے بچوں دونوں کو بہت فائدہ پہنچے گا۔ کیونکہ اس سے آپ کو اپنے بچوں کے بارے میں زیادہ آگہی ہوگی، اُن کی اندر چھپی صلاحیتیں پتہ چلیں گی۔ ان کے مسئلے مسائل پتہ چلیں گے، جن کو آپ سے بڑھ کر کوئی حل نہیں کرسکتا۔ آپ کا اپنا ذہن کھلے گا کہ اب آپ نے بچوں کی تربیت کے لئے کیا کرنا ہے۔ آپ کو اپنے مقاصد خود بخود پتہ چلتے چلے جائیں گے۔ اس صورت میں آپ اپنے بچوں سے زیادہ لطف اندوز بھی ہوں گی اور ایسا صرف ماں انہیں باپ بھی اپنا فرض سمجھ کر کریں۔
عموماً ایسا ہوتا ہے کہ بچے اسکول سے آئے، انہوں نے کھایا پیا، ٹیوشن گئے سو گئے کارٹون دیکھنے بیٹھ گئے۔ والدین کو کچھ پتہ ہی نہیں چلتا، آپ بچوں کو وقت دیں گے تو فاصلہ ختم ہوجائے گا۔ آپ اپنے بچوں کے دوست بن جائیں گے۔ اس سے بڑھ کر خوشی کی بات اور کیا ہوگی کیونکہ دوست بن جانے کی صورت میں تو وہ آپ سے اپنے دل کی ہر بات کریں گے۔ اس صورت میں آپ کو ان کی اصلاح کا زیادہ موقع ملے گا۔ وہ آپ کے مشوروں پر عمل بھی کریں گے۔
آپ سے زیادہ سیکھیں گے بھی، کیونکہ والدین کی صرف یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ اُولاد کو اچھا کھلائیں، اچھا پہنائیں اور بہتری اسکول میں داخلہ دلوائی اور انہیں اچھی ٹیوشن دلائیں والدین کو اپنی اُولادکو ایک اچھا مسلمان، ایک اچھا انسان اور ذمہ دار شہری بھی بنانا ہے۔ ان کی تربیت ایسی کرنی ہے کہ یہ خوشگوار زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ آپ کے لئے بہترین صدقہ جاریہ بھی بنیں۔