• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

‎برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل نے کہا تھا کہ جمہوریت حکومت کی بدترین شکل ہے سوائے ان تمام شکلوں کے جنہیں اس سے پہلے وقتاً فوقتاً آزمایا جاتا رہا ہے۔ ویسے تو ونسٹن چرچل خود بھی ایک متنازع شخصیت ہیں اور برصغیر کے لوگوں کے حوالے سے اُس کے خیالات بھی اچھے نہیں تھے۔ برصغیر میں اُنہوں نے بےشمار مظالم ڈھائے جن میں سے ایک 1943ء کا بنگالی قحط بھی ہے، جس میں بےشمار لوگ ہلاک ہوئے۔ تاہم چرچل کی جمہوری نظام کے حوالے سے یہ بات بالکل درست ہے اور آج کے حالات پر بالکل موزوں بیٹھتی ہے۔

‎جمہوریت ایک ایسی ایجاد ہے جس نے سب کو ایک سطح پر لاکھڑا کیا۔ باقی کسی حوالے سے نہیں تو کم از کم ووٹ ڈالنے کی حد تک سب کو ایک ہی سطح پر ضرور کھڑا کر دیا۔ جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جس میں ہر چند سال بعد حکمراں عوام کے سامنے احتساب کیلئے پیش ہوتے ہیں۔ جمہوریت نے ریاست کے کئی ایک ستون بنا کر اُن کو ایک دوسرے پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے کا نظام بھی وضع کیا۔ بےشک اِس نظام میں بہت سی خامیاں ہیں جن میں بہتری کی گنجائش موجود ہے لیکن کوئی اور نظام کسی بھی ملک یا معاشرے کے تمام افراد کو اِس طرح اپنے ملک یا معاشرےکے بارے میں فیصلہ کرنے کا ایسا اختیار نہیں دیتا۔

‎جمہوریت کی کامیابی کیلئے دو چیزیں اہم ہیں۔ ایک تو اِس کا تسلسل، کیونکہ جیسے جیسے جمہوری نظام چلتا ہے ویسے ویسے یہ پختہ ہوتی ہے، جس سے جمہوریت کی اصل روح سے لوگ روشناس ہوتے ہیں۔ دوسری چیز ہے اعتبار۔ ہر ووٹرکا اِس نظام پر یہ اعتبار ہونا ضروری ہے کہ اُس کا ووٹ شمار کیا جائے گا اور اُس کے ووٹ سے کوئی فرق ضرور پڑے گا یعنی اُس کا ووٹ موثر ثابت ہوگا۔ ہمارے ہاں حقیقی جمہوریت کا تسلسل تو خیر کبھی قائم ہی نہیں ہو سکا لیکن اب زیادہ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا جمہوریت پر سے اعتبار بھی اُٹھتا چلا جا رہا ہے۔ اِس میں سرِدست سب سے بڑا کردار اُنہی سیاستدانوں کا ہے جنہیں یہی جمہوریت کسی نہ کسی طرح فائدہ پہنچا رہی ہے اور برسوں سے پہنچاتی آئی ہے۔

‎سیاسی جماعتوں بالخصوص پی ٹی آئی نے جس طرح جمہوری نظام اور سیاستدانوں کو پس پشت ڈالا ہے، وہ جمہوری نظام اور سیاستدانوں، دونوں کیلئے نقصان دہ ہے۔ پی ٹی آئی نے دیگر سیاسی جماعتوں اور بڑے سیاسی رہنمائوں کیساتھ نہ بیٹھ کر ماضی کی طرح غیرجمہوری قوتوں کو سیاسی فیصلے کرنے کی دعوت دی، جس سے حکومت اور سیاستدانوں کی ساکھ کو نقصان پہنچا ۔ دوسری سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو لوٹا، چور اور غدار جیسے القابات سے نوازنا، پھر اِنہی سیاستدانوں کا پی ٹی آئی میں شامل ہو کرپارسا بن جانا، پی ٹی آئی کا پولرائزیشن اور گالم گلوچ کا کلچر متعارف کروانا، یہ سب عوامل جمہوریت کیلئے نقصان دہ ہیں۔

‎اسی حکومت،الیکشن کمیشن اور الیکشن کمیشنر کےخلاف دھاندلی کے سنگین الزام لگانے کے باوجود پنجاب کے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی نے سویپ کیا ہے اور پاکستانی سیاست میں حقیقتاً ایک نئی عوامی طاقت بن کر سامنے آئی ہے۔اِس کی وجوہات پر طویل بحث ہو سکتی ہے لیکن میرے اندازے میں اِس کی سب سے بڑی وجہ پی ٹی آئی کا جارحانہ اور پختہ بیانیہ تھا جبکہ پی ڈی ایم بالخصوص مسلم لیگ (ن) کنفیوژن کا شکار ہو کر کوئی مضبوط بیانیہ نہ بنا سکی۔ مشکل معاشی فیصلوں کا بوجھ بھی اپنے سر لیا لیکن عوام کو یہ باور کروانے میں بری طرح ناکام رہی کہ یہ مشکل فیصلے کیوں کئے گئے۔ اِس کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے حامیوں بالخصوص شہری نوجوانوں کو جنہیں یہ سوشل میڈیا روبوٹس اور(Bots)کہہ کہہ کر نظر انداز کرتی رہی، یہ اپنی جانب بالکل راغب نہ کر سکی۔ سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی پی ٹی آئی اور (ن) لیگ کے الیکشن سیل کی تصاویر دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کا الیکشن سیل کافی منظم تھا ، جس کاتمام حکومتی مشینری میسر ہونے کے باوجود مقابلہ نہ ہو پایا۔ جبکہ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کا الیکشن سیل اُس طرح منظم نظر نہ آیا۔

لیکن جیت سے پہلے تک الیکشن میں دھاندلی دھاندلی کرنا اِس نظام سے لوگوں کا اعتبار اُٹھادیتا ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکنان کے ذہنوں میں جب یہ سوچ ڈال دی جائے کہ اگر ہماری مکمل جیت ہوئی تو الیکشن شفاف تھے اور ہم اگر ہار گئے تو دھاندلی ہوئی تھی۔ یہ سوچ مزید پولرائزیشن کو پروان چڑھاتی ہے۔ لیکن اِس ضمن میں سارا ملبہ پی ٹی آئی پر ڈالنا بھی غلط ہے، ہماری جمہوریت کو کمزور کرنے میں سب سیاسی جماعتوں کا ہاتھ ہے۔ اِس مسئلے کا ایک پہلو سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کا فقدان بھی ہے۔

‎اگر سیاسی جماعتیں عوام کو ڈیلیور کر رہی ہوں اور چیزیں بہتر سمت میں جا رہی ہوں، یہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ چلیں اور ایک دوسرے کو برداشت کریں تو جمہوریت کا بول بالا ہوگا۔ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب کوئی ایک سیاسی جماعت غیرسیاسی عناصر کے ساتھ مل کر حکومت گرانے کی ‎کوشش کرتی ہے۔

‎پنجاب کے ضمنی الیکشن میں کافی خوش آئند چیزیں بھی ہوئیں ہیں جنہیں آگے بڑھانا چاہئے۔ اِس موقف کو سب سیاسی جماعتوں نے تسلیم کیا ہے۔ ہلکی پھلکی جھڑپوں کے باوجود مجموعی طور پر پولنگ کا عمل کافی خوشگوار رہا۔ ہارنے والوں نے ہار کو تسلیم کیا اور الیکشن کو متنازع نہیں کہا۔ ہم نے عوام کا جوش اور ولولہ بھی دیکھا۔ جس طرح بوڑھے اور معذور لوگ ووٹ ڈالنے آئے اور جس طرح پولیس اور پولنگ اسٹیشن کے عملے نے اُن کی مدد کی، یہ ایک خوش آئند امر ہے۔

‎اب ملک کے بہتر مستقبل اور پاکستان میں جمہوریت کے تسلسل کی خاطر تمام سیاسی جماعتوں کو پولرائزیشن اورغلط معلومات پھیلانے کے سلسلہ کو ترک کرنا پڑے گا اور ایک دوسرے کیساتھ مل بیٹھ کر فیصلے کرنا پڑیں گے۔ جب بھی سیاستدان اور سیاسی جماعتیں اِس نہج تک پہنچ جاتی ہیں کہ جمہوریت ڈانواں ڈول ہو جائے تو وہ غیرسیاسی عناصر کیلئے راہ ہموار کرتی ہیں جس سے نقصان اِنہی سیاسی جماعتوں کے سا تھ ساتھ ملک کا ہوتا ہے۔ جمہوریت دنیا کا بدترین نظام ہے لیکن اِس سے بہتر نظام بھی ہمارے پاس کوئی نہیں۔اِس لئے اِس نظام کو خطرے میں ڈالنے والے جان لیں کہ جمہوریت سے فاشزم کا سفر زیادہ طویل نہیں ہوتا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین