فواد عالم شاید کرکٹ کی تاریخ کے وہ کھلاڑی ہیں جو مسلسل اچھی کارکردگی دکھا کر اور اپنے ناقدین کو غلط ثابت کرکے پاکستانی ٹیم میں آئےاور چھا گئے انہوں نے اوپر تلے غیر معمولی کارکردگی دکھا کر نہ صرف پاکستان ٹیم میں مستقل جگہ بنائی بلکہ ان کی ٹیم میں شمولیت کی وجہ سے اسد شفیق کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا۔ لیکن سری لنکا کے خلاف گال ٹیسٹ میں انہیں اچانک ٹیم سے ڈراپ کردیا گیا اور ان کی جگہ ٹیسٹ کیپ سلمان علی آغا کو مل گئی سلمان نوجوان ہیں ان کی صلاحیتوں سے انکار ممکن نہیں ہے لیکن فواد عالم کا ڈراپ ہونا اس لئے حیران کن فیصلہ تھا کیوں کہ جب سے انہوں نے پاکستان ٹیم میں کم بیک کیا تھا انہوں نے10ٹیسٹ میں57کی بیٹنگ اوسط سے چار سنچریوں کی مدد سے703 رنز بنائے۔
آسٹریلیا کے خلاف ہوم سیریز میں4اننگز کی کارکردگی کو بنیاد بناکر انہیں گیارہ کھلاڑیوں میں شامل نہیں کیا گیا۔ آسٹریلیا کے خلاف پنڈی ٹیسٹ میں فواد عالم کی بیٹنگ نہ آسکی۔ کراچی ٹیسٹ میں فواد صفر اور9رنز بناکر آوٹ ہوئے ۔لاہور ٹیسٹ میں پاکستان کو شکست ہوئی اور آسٹریلیا نے سیریز ایک صفر سے جیت لی۔ فواد عالم اس میچ میں 13اور11رنز بناسکے۔چار اننگز میں33 رنز کی کارکردگی نے انہیں ٹیسٹ ٹیم سے باہر کردیا۔نومبر2009کو آخری ٹیسٹ کھیلنے کے بعد فواد عالم نے اگست2020 میں انگلینڈ کے خلاف ساوتھمپٹن ٹیسٹ میں کم بیک کیا اور جب وہ صفر پر آوٹ ہوئے تو لگ رہا تھا کہ شائد اب ان کا کیئریئر ختم ہوچکا ہے لیکن اس کا کریڈٹ بابر اعظم اور ہیڈ کوچ مصباح الحق کا جاتا ہے کہ انہوں نے فواد کو چانس دیا جس سے ان کی دوبارہ پاکستان ٹیم میں واپسی ہوئی۔
اس سے قبل فواد عالم نے آخری مرتبہ 2015 میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی جب انھیں بنگلہ دیش کے خلاف ایک روزہ ٹیم میں شامل کیا گیا تھا۔ ماضی میں ٹی 20 کی ٹیم میں کھیلنے والے فواد نے 2010 میں آخری مرتبہ اس فارمیٹ میں پاکستان کے لیے کھیلا تھا اور اس سے ایک برس قبل نیوزی لینڈ کے خلاف انھوں نے اپنا تیسرا اور آخری ٹیسٹ میچ کھیلا تھا۔ فواد عالم نے پاکستان ٹیسٹ میں واپس آکر نیوزی لینڈ کے خلاف فائٹنگ اننگز میں102رنز بنائے اس کے بعد انہوں نے پلٹ کر پیچھے نہیں دیکھا۔ فواد عالم نےجنوبی افریقا، زمبابوے اور ویسٹ انڈیز کے خلاف سنچریاں بنائیں۔
پھر اچانک انہیں ٹیم سے یہ کہہ کر ڈراپ کردیا گیا کہ سلمان آغا آف اسپین بولنگ بھی کر لیتے ہیں۔ حالانکہ گال ٹیسٹ میں سری لنکا کی پہلی اننگز میں انہوں نے ایک بھی اوور نہیں کرایا۔کسی بھی کرکٹر کی سلیکشن کے لیے سلیکٹرز کے پاس ٹھوس دلیل اور جواز موجود ہوتا ہے اور جب کسی کرکٹر کو منتخب نہ کیا جائے تو اس کا بھی سلیکٹرز کے پاس معقول جواز ہونا چاہیے۔ لیکن فواد عالم کے معاملے میں ہمیں آج تک ایسی کوئی ٹھوس وجہ نظر نہیں آئی۔ ایک چیف سلیکٹر سے جب فواد عالم کو ٹیم میں شامل نہ کیے جانے کا سوال کیا گیا تو ان کا جواب کچھ یوں تھا: ’آپ مجھ سے ہی کیوں پوچھتے ہیں؟ مجھ سے پہلے جن چیف سلیکٹرز نے سلیکٹ نہیں کیا ان سے بھی پوچھ لیتے۔‘ایسا بھی ہوا ہے کہ فواد عالم کو قومی کیمپ میں بلایا گیا اور وہ دوسرے کھلاڑیوں سے زیادہ فِٹ قرار پائے لیکن ان کی انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی پھر بھی ایک خواب ہی رہی۔
اس وقت پاکستانی ٹیم میں فواد عالم اکیلے مایوسیوں کا شکار نہیں ہیں۔اوپنر شان مسعود بھی کہیں نہ کہیں کسی کی جانب سے ہونے والی زیادتی کا شکار بن رہے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام الحق اور عبداللہ شفیق اوپنر کی حیثیت سے اچھی کارکردگی دکھا رہے ہیں لیکن اگر ٹیم انتظامیہ چاہتی تو کسی نہ کسی فارمیٹ میں شان مسعود کو ایڈجیسٹ کرکے ان کے زخموں پر مرہم رکھ سکتی تھی۔ کاونٹی کرکٹ میں ہر فارمیٹ میں کارکردگی دکھانے والے شان مسعود سے جب سلیکشن کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ آٹھ ماہ قبل جب بہن کا انتقال ہوا تو اس کے بعد زندگی کی حقیقت کھلی۔ یہ اندازہ ہوا کہ کرکٹ ایک گیم ہے، اس کو انجوائے کریں زندگی میں کرکٹ سے بھی بڑھ کر چیزیں ہوتی ہیں۔
اس سے بڑا کیا موقع ہوسکتا ہے کہ آپ اپنی ڈومسیٹک ٹیم یا کاونٹی ٹیم یا قومی ٹیم کی نمائندگی کررہے ہیں۔ میں نے پوری زندگی تو کرکٹ نہیں کھیلنی ہے۔ اس لئے جو کرکٹ کھیل رہا ہوں اس سے انجوائے کررہا ہوں اور سلیکشن ہونے نا ہونے کا پریشر نہیں لے رہا۔ جب وقت آئے گا تو ضرور پاکستان کیلئے بھی کھیلوں گا۔ میں نے کبھی خود کو ایک جگہ محدود نہیں کیا، پاکستان کیلئے جس پوزیشن پر بیٹنگ کا موقع ملا کرنے کو تیار ہوں۔ کاونٹی کرکٹ میں انہیں اپنا کھیل بہتر کرنے کا موقع ملا۔
شان مسعود اس وقت پاکستان ٹیم کے ساتھ سری لنکا میں پانی پلانے کا کام کررہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کیلئے کسی بھی پوزیشن پر کھیلنے کا موقع ملا وہ بخوشی کھیلنے کے لئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کاونٹی کرکٹ میں مجھے اپنا کھیل تسلسل کے ساتھ بہتر کرنے کا موقع ملا۔ پاکستان کیلئے یہ اچھا سائن ہے کہ ٹاپ آرڈر بیٹرز میں کافی سخت مقابلہ ہے، مجھے اس مقابلے میں شامل ہونا ایک بہتر بیٹر بنائے گا کیوں کہ جب دیگر کھلاڑی ورلڈ کلاس پرفارمنس دیں گے تو مجھے بھی اپنا گیم بہتر کرنا ہوگا۔ میں نے جس طرح کبھی بطور بیٹسمین اپنے آپ کو محدود نہیں کیا ویسے ہی بطور بیٹر اپنی پوزیشن کو محدود نہیں کیا، پاکستان سے جس پوزیشن پر کھیلنے کا موقع ملا کھیلوں گا۔
شان مسعود نے کہا کہ وہ شکر ادا کرتے ہیں کہ ان سے رنز ہورہے ہیں اور اس بات کا بالکل بھی پریشر نہیں لیتے کہ انہیں پاکستان سے کھیلنے کا موقع نہیں مل رہا کیوں کہ ان کی نظر میں ایسے شکوے شکایت کرنا ناشکری ہے۔ میں نے پچھلے دو سال میں بہت کچھ سیکھا۔ خاص طور پر جب سے ٹیم سے باہر ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ کاونٹی کرکٹ میں ان کو اپنا کھیل بتدریج اور تسلسل کے ساتھ بہتر کرنے کا موقع ملا، یہاں ایک پراسس سے گزرنے کا موقع ملا جس سے کھیل پہلے سے بہتر ہوا۔ شان مسعود کی باتوں سے مایوسی جھلک رہی ہے۔فواد عالم اور شان مسعود کے ساتھ جو آج ہوا وہ پاکستان میں پہلی بار نہیں ہوا ہے۔
ماضی میں سری لنکا کے ایک دورے میں ایوب ڈوگر کو ٹیسٹ کیپ دے کر فیصل اقبال کو ٹیم میں شامل ہونے سے روکا گیا تھا۔ حالیہ سالوں میں کئی کھلاڑیوں کو ناکامیوں کے باوجود ٹیم میں جگہ مل رہی ہے اور لاڈلوں کو ڈراپ ہونے کی کوئی پرواہ نہیں ہے جبکہ فواد عالم کی طرح کچھ کھلاڑیوں کے سروں پر ہمیشہ تلوار لٹکتی رہے گی۔ فواد عالم کے بین الاقوامی کریئر کا آغاز 2007 میں سری لنکا کے خلاف شروع ہوا تھا، لیکن وہ ون ڈے میں پہلی ہی گیند پر صفر پر آؤٹ ہوگئے تھے۔
انھوں نے اسی سال جنوبی افریقا میں ہونے والے پہلے ورلڈ ٹی20 میں پاکستان کی نمائندگی کی، لیکن وہ صحیح معنوں میں اس وقت شہ سرخیوں میں آئے جب انہوں نے 2009 میں سری لنکا کے خلاف کولمبو میں اپنے پہلے ٹیسٹ میں 168 رنز بنائے یہ پہلا موقع تھا کہ کسی پاکستانی بیٹسمین نے ملک سے باہر اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میں سنچری بنائی ہو۔ اس اننگز کا پس منظر بھی خاصا دلچسپ ہے۔کپتان یونس خان نے گال ٹیسٹ میں غیر ذمہ دارانہ شاٹ کھیل کر اپنی وکٹ گنوانے والے سلمان بٹ کو ڈراپ کر کے فواد عالم کو کولمبو ٹیسٹ کھلانے کا فیصلہ کیا۔
کپتان نے ان سے کہا کہ تم نے اوپنر کی حیثیت سے کھیلنا ہے، جس پر فواد عالم پریشان ہوگئے۔ لیکن یونس خان نے انھیں اپنی مثال دیتے ہوئے حوصلہ دیا اور بتایا کہ وہ ساتویں، آٹھویں نمبر سے ہوتے ہوئے کس طرح ون ڈاؤن بیٹسمین کے طور پر اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ فواد عالم کی بدقسمتی یہ تھی کہ وہ کولمبو ٹیسٹ کے بعد صرف دو ٹیسٹ میچز ہی کھیل پائے، اس کے بعد انھیں کسی ٹیسٹ میں موقع نہیں دیا گیا حالانکہ تین ٹیسٹ میچوں میں ان کی بیٹنگ اوسط 66.41 تھی۔ان کا 2015 میں انگلینڈ کے خلاف متحدہ عرب امارات میں کھیلی گئی ٹیسٹ سیریز کے لیے پاکستان ٹیم میں انتخاب ہوا لیکن تین میں سے ایک بھی ٹیسٹ نہ کھیل پائے۔فواد عالم کا ون ڈے کریئر بھی 40.25 کی اوسط پر آکر رکا گیا۔
ون ڈے میچوں میں ان کی ایک سنچری اور چھ نصف سنچریوں کی مدد سے بنائے گئے رنز کی تعداد 966 ہے۔2015 کے ورلڈ کپ کے بعد بنگلہ دیش کے خلاف کھیلی گئی ون ڈے سیریز کے بعد سے فواد عالم پاکستانی ٹیم میں واپسی کے منتظر ہیں۔ اس سیریز کے تینوں میچوں میں وہ متاثرکن کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے تھے، لیکن اس کے بعد فرسٹ کلاس کرکٹ میں مسلسل شاندار کارکردگی دکھا کر وہ اپنا کیس مضبوط بناتے رہے ہیں۔اب ایک بار پھر فواد عالم کے لئے ٹیم میں واپسی کا مشن ایمپوسیبل شروع ہوچکا ہے۔
اگر سلمان علی آغا نے اچھی کارکردگی دکھا دی تو پھر فواد عالم کی واپسی مشکل ہوجائے گی۔ سعود شکیل پہلے ہی ٹیم میں واپسی کے منتظر ہیں۔فواد عالم اکتوبر میں37سال کے ہوجائیں گے۔اس وقت وہ سپر فٹ ہیں کبھی ان کے بیٹنگ انداز کو وجہ قرار دی گئی اور کبھی ان کو بلاجواز ٹیم سے باہر کیا گیا ہے۔بابر اعظم اور ثقلین مشتاق کی نیت پر شک نہیں، اس وقت فواد عالم کو ڈراپ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ماضی کے سلیکٹرز ان کی جوانی تو نہیں لوٹا سکتے لیکن حالیہ سلیکٹر،کپتان اور کوچ انہیں پورا موقع ضرور دیں ۔فرسٹ کلاس کرکٹ میں41سنچریوں کی مدد سے13ہزار سے زائد رنز بنائےہیں اس کھلاڑی کے ساتھ انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں۔ تاکہ وہ محرومیوں کا شکار ہوکر ہمیشہ کی طرح پس منظر میں نہ چلا جائے۔