• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر منظر ایوبی ایسے شہر میں پیدا ہوئے جو صدیوں سے علم و ادب اور شعروسخن کا گہوارہ رہا ہے اس شہر میں لاتعداد عالم، فاضل، ادیب و شاعر پیدا ہوئے، جنہوں نے دنیائے ادب میں بہت بڑا مقام حاصل کیا۔ جی ہاں یہ شہر یو پی بھارت کا مشہور شہر بدایوں ہے اور وہ شخصیت بدایوں شہر میں پیدا ہونے والے عزیز احمد ایوبی کی ہے آپ کہیں گے یہ کون ہیں جی جناب یہ دبستان کراچی کے مشہورشعراء میں سے ایک ہیں ۔ عزیز احمد ایوبی آگے چل کر ایک بڑے شاعر کا روپ میں ہمارے سامنے (منظر ایوبی) کی حیثیت سے سامنے آئے ۔

عزیزاحمد ایوبی نام تھا تخلص منظراور قلمی نام منظر ایوبی تھا۔ پروفیسر منظر ایوبی بدایوں میں 4؍اگست 1932ء میں پیدا ہوئے ان کا تعلق بدایوں کے ایک متوسط زمیندار خاندان سے تھا۔ جب آپ کی عمر 10سال کی ہوئے تو آپ کے والد کا انتقال ہوگیا والد کی وفات کے بعد زمینوں کی دیکھ بھال سارا بوجھ ان کی والدہ کے کندھوں پر آگیا پھر زمین کے خاندانی مسائل و تنازعات بھی کھڑے ہوگئے۔ جس سے ان کے خاندان کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اسی زمانے میں ملک تقسیم ہو گیا اور ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے جس کے نتیجے میں خاندان کی جائیدادیں گھر اور مکان سب کچھ لٹ گیا۔

اس پریشانی کے عالم میں ان کا خاندان 1950ء میں ہجرت کرکے لاہور آگیا۔ منظر ایوبی کی ابتدائی تعلیم بدایوں کے ایک دینی مدرسے میں ہوئی۔ اس کے ساتھ انہوں نے تھوڑی عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ آپ نے 1948ء میں میٹرک اور 1950ء میں انٹر کامرس کا امتحان بدایوں میں پاس کیا۔ اس کے بعد یہ خاندان 1950ء میں ہجرت کرکے پاکستان آگیا پاکستان آکر انہوں نے لاہور سے ادیب و فاضل اور پھراُردو کالج کراچی سے 1954ء میں بی کام کیا۔

1959 کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اردو کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد محکمہ مال ملازمت اختیار کر لی، جہاں انہوں نے 1950ء سے لےکر 1960ء تک خدمات انجام دیں، بعدازاں انہوں نے درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا اور محکمہ تعلیم سے منسلک ہوگئے وہ گورنمنٹ ڈگری کالج اور دوسرے مختلف کالجز میں پڑھاتے رہے۔ 1994ء میں ملازمت سے ریٹائرڈ ہوگئے۔

ادبی و علمی ماحول میں منظر ایوبی نے 1947ء میں شعر گوئی کا آغاز کیا۔ شہر کے ادبی ماحول نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا۔ منظر ایوبی نے زمینداروں کے ایک متوسط خاندان میں آنکھ کھولی۔ بچپن سے ہی زمینداروں کوغریب کسانوں اور مزدوروں پر ظلم کرتے دیکھا تھا، اس لئے مظلوموں کے لئے ہمدردی کے جذبات رکھتے تھے ان کی شاعری میں یہ رنگ نمایاں نظرآتا ہے وہ گھر والوں سے چھپ کر شاعری کرتے تھے۔ والد کے انتقال کے بعد گھر والوں کو پتہ چلاکہ منظر شاعری کرنے لگے ہیں۔ تو ان کی مزدوروں اورکسانوں کی حمایت میں لکھی ہوئی نظمیں جلادی گئیں، البتہ روایتی غزلیں لکھنے کی اجازت مل گئی۔ 

ان کے ماموں علامہ عارف بدایونی نے(جو بھارت کے مشہور شاعر تھے) قدم قدم پر آپ کی رہنمائی کی ۔ منظرایوبی اپنی شاعری کے بارے میں بتاتے تھے کہ ’’ جب میں نے مشق ِ سخن شروع کی تو شہر میں کئی اساتذہ سند شاعری کی زینت بنے ہوئے تھے۔ ان سب کاتعاون مجھے حاصل رہا۔ اُس دورکی کئی کئی غزلیں عجیب سی لگتی ہیں، مگر میں انہیں نظرانداز نہیں کرسکتا کیونکہ وہ میری تاریخ کا ایک حصہ ہیں، اس ادبی ماحول کی آئینہ دار ہیں، جس پر شعر و ادب کی جدید تحریکوں کا مطلق اثر نہ تھا البتہ 1950ء کے بعد غزلوں اور نظموں میں آپ کو اپنا عہد، اپنی زندگی کی تمام سچا یاں، رعنایاں اور تلخیاں بھرپور تاریخی پس منظر کے ساتھ نظر آئے گی۔

مشق خواجہ نے منظر ایوبی کی شاعری کے بارے میں کہا تھا۔

’’منظر ایوبی منفرد لب و لہجہ کا شاعر ہے۔ ان کی شاعری روایتی نہیں ہے انہوں نے جو کچھ لکھا وہ ہمارے جدید ادب کا دقیع حصہ ہے اور مستقبل کاکوئی مورخ اسے نظرانداز نہیں کر سکتا۔ ان کی شاعری جذبے کی صداقت اور فکر کی آفاقیت کی آئینہ دار ہے۔‘‘

احمد ندیم قاسمی نے منظر ایوبی کی شاعری کے بارے میں کہا تھا ’’اس کی شاعری میں موضوع و مواد کا بڑا تنوع ہے۔ اس کا انداز تنوع صرف اُس شاعر کے یہاں ملے گاجو زندگی سے آنکھیں چار کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو اور جس کی نگاہ اتنی وسیع و عریض دنیا میں کسی ایک نقطے پر جم کر نہ رہ گئی ہو۔ اس تنوع میں بڑی توانائی رعنائی اور تازگی ہوتی ہے۔ دُکھ تو ہماری معیشت اور معاشرت کی دین ہیں اور شاعر کو ویسے بھی ان دُکھوں میں سے وافر حصہ ملتا ہے، مگر منظر ایوبی کو یہ دُکھ ریزہ ریزہ نہیں کر ڈالتے بلکہ اسے تن کر کھڑا ہونے، جرأت اور استقامت بخشتے ہیں۔‘‘

منظرایوبی نے نظم کے علاوہ نثری تخلیقات میں طنز و مزاح کے سات ڈرامے لکھے نثری کاموں میں چند تنقیدی مضامین اورکچھ ادبی شخصیتوں کے خاکے اور ریڈیائی فیچر بھی لکھے جو بہت مقبول ہوئے ماہنامہ ’’ہم قلم‘‘ اور رائٹرز گلڈ کراچی میں نائب مدیر (اعزازی) کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں ۔ آزاد شاعری کے بارے میں منظرایوبی‘‘ کہتے ہے؟ اصناف سخن میں یقینا ایک اضافہ ہے لیکن میری نغمہ پسند طبیعت ساز و آہنگ کو شعر کی روح سمجھتی ہے یہ صنفِ سخن میرے مزاج اور طبع سے قطعاً لگاؤ نہیں کھاتی۔ آزاد شاعری میں نغمئی اور آہنگ کی محض ایک ہلکی سی جھلک پائی جاتی ہے۔

ان کے نزدیک جدیدیت کے معنی نئی اقدار کی تشکیل موضوع ہیئت اور اظہار و ابلاغ کے تجربے ہیں۔ وہ شاعری میں جدیدیت کو پسند کرتے تھے۔ لیکن ان کے نزدیک کلام میں ابہام نہیں پیدا ہونا چاہئے۔’’منظر ایوبی بیسویں صدی کو شاعری کے لئے شعر و سخن کی ترقی کے لئے ایک نیک تصور کرتے ہیں کہ یہ صدی ہنگاموں، شورشوں، حادثوں اور انقلاب کے اعتبار سے اپنی نظیر نہیں رکھتی اس دور میں جتنی تیزی سے انسانی زندگی کے مختلف شعبوں میں تبدیلیاں ہوئی ہیں اور سائنس کی نئی ایجادات، علوم و فنون کی ترقی مختلف سیاسی و سماجی اقدار کا ٹکرائو اور متضاد فکری نظاموں کا تصادم ایک ادیب شاعر اور فنکار کے قلم میں نئی روح پھونکنے کا باعث ہے۔

منظر ایوبی شاعری میں پرانی علامات کے استعمال کے بارے میں کہتے ہیں ’’پرانی علامتوں کو بطور روایت کو ضرور استعمال کیا جائے لیکن مفاہم کے ساتھ کیونکہ ایک ہی قسم کی علامتوں کا استعمال ہر زمانے میں کیا جائے تو وہ اپنی افادیت کھو بیٹھی ہیں۔ لیکن نئے مفاہم کے ساتھ پیش کرنے کیلئے ضروری ہے کہ شاعر ان علامتوں کے محل استعمال پر قدرت رکھتا ہوں شاعری میں ایسی بیسوں علامتیں استعمال ہوتی نظر آتی ہیں جو پرانی ہونے کے باوجود زندگی کی موجودہ کشمکش اور انسانی اعمال و افعال کی ترجمانی کرتی ہیں۔

غزل میں نئی تجربے بھی ضروری ہیں لیکن غزل کے مخصوص انداز مزاج، اس کی تکنیک اور فارم اس کی صدیوں پرانی روایت کو پیش نظر رکھنا چاہئے ان سے بے تعلق رہ کر غزل میں کسی قسم کا کوئی تجربہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا اُن کا یہ شعر اس سے متعلق ہے۔

موضوع فکر روح رہی یہ بدن رہا

پیش نظر ہمیشہ تغزل کا فن رہا

منظر ایوبی مشاعروں میں تحت اللفظ کے ساتھ ساتھ ترنم سے بھی پڑھتے ۔ اُن کی آواز بڑی پاٹ دار تھی اکثر مشاعروں کو لوٹ لیا کرتے ۔ بیرونی ملک مشاعروں میں بھی شرکت کرتے تھے۔ اور وہاں بھی اپنی شاعری کا ڈنکا بجاکر آتے تھے۔

ان کی تصانیف میں غزلوں کا مجموعہ ’’تکلم‘‘ اور نظموں کا مجموعہ ’’مزاج‘‘ ملی اور قومی شاعری کا مجموعہ ’’چڑھتا چاند ابھرتا سورج‘‘ اور مضامین کا مجموعہ ’’کئی پرانی آوازیں شائع ہوئے ان کی دیگر تصانیف میں‘‘ اُردو شاعری میں نئے موضوعات کی تلاش ’’کراچی کا دبستان شاعری‘‘ اردو شاعری میں انقلابی شعور ’’سلام و مناقب نعتوں کا مجموعہ شامل ہیں۔

ذیل میں منظر ایوبی کی دو غزلیں ملاحظہ کیجئے۔

شہر کا شہر حریف‌ لب و رخسار ملا

نام میرا ہی لکھا کیوں سر دیوار ملا

سوچتے سوچتے دھندلا گئے یادوں کے نقوش

فکر کو میرے نہ اب تک لب اظہار ملا

مشتہر کر دیا اتنا تری چاہت نے مجھے

نام گھر گھر میں مرا صورت اخبار ملا

جس کی قربت کو ترستا تھا زمانہ کل تک

آج وہ شخص اکیلا سر بازار ملا

میری سچائی کو اس وقت سراہا تو نے

سر پہ جب باندھ کے میں جھوٹ کی دستار ملا

آنکھوں آنکھوں ہی میں لہرائیں بہاریں منظرؔ

اک شجر بھی نہ بھرے باغ میں پھل دار ملا

……٭٭……٭٭……

اس طرح کبھی راندۂ‌ دربار نہیں تھے

رسوا تھے مگر یوں سر بازار نہیں تھے

صحرا میں لئے پھرتی ہے دیوانگئ شوق

کیا شہر میں تیرے در و دیوار نہیں تھے

وہ دن گئے جب منزل جاناں کے مسافر

رہرو تھے فقط قافلہ سالار نہیں تھے

ہے جرأت گفتار تو پھر سامنے آ کر

کہہ دیجیے ہم لوگ وفادار نہیں تھے

کیوں ہم ہی کھٹکتے رہے دنیا کی نظر میں

دیوانوں میں اک ہم ہی طرح دار نہیں تھے

دیتے ہیں دعائیں تری دزدیدہ نظر کو

دیوانے کبھی اتنے تو ہشیار نہیں تھے

کیوں مہر بہ لب کوچۂ جاناں سے گزرتے

انسان تھے ہم سایۂ دیوار نہیں تھے

وارفتگئ شوق بتا تو ہی کہ ہم سے

آباد کبھی کوچہ و بازار نہیں تھے