اسلام آباد (تجزیہ/ فاروق اقدس) پاکستان کی سیاسی اور پارلیمانی تاریخ میں عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے پہلی مرتبہ کسی وزیراعظم (عمران خان) کو اقتدار سے محروم کرنے کی طاقت رکھنے والے سیاسی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا اجلاس جو مولانا فضل الرحمٰن کی سربراہی میں جمعرات کو اسلام آباد میں ہوا ،کئی حوالوں سے اہمیت اور دور رس نتائج کا حامل تھا اس حوالے سے بھی کہ عمران خان کیخلاف قومی اسمبلی کے ایوان میں 174 ارکان کی جانب سے عدم اعتماد کا اظہار کرنے کے بعد جسے پی ڈی ایم کی ایک تاریخی کامیابی قرار دیا گیا تھا، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا یہ پہلا سربراہی اجلاس تھا جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ہوا اس سے قبل پی ڈی ایم اپوزیشن کی گیارہ سیاسی جماعتوں کا اتحاد تھا جو حکومت کی تبدیلی کی جدوجہد میں کامیابی کے بعد حکومتی اتحاد کی شکل اختیار کر گیا تھا لیکن صرف تین ماہ اور چند دن کے بعد آج پھر مولانا فضل الرحمٰن اور مریم نواز نے آنیوالے حالات کے پیش نظر حکومتی اتحاد کے اس پلیٹ فارم سے اپوزیشن کے قائدین کے عزائم اور لب و لہجے میں میڈیا سے بات کی، اجلاس میں شرکاء نے اتفاق رائے سے فیصلہ کیا کہ حکومت اپنی مدت پوری کریگی اور الیکشن وقت پر ہونگے لیکن سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد لندن سے آنیوالی خبروں کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف جو ایک سے زیادہ مرتبہ خود اور انکی ترجمانی کرنیوالے مسلم لیگی ر ہنما بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد اقتدار سنبھالنے کے حق میں نہیں تھے ،بعض وزراء بھی ریکارڈ پر ہیں جنہوں نے بار بار یہ کہا ہے کہ مسلم لیگ ن پر یہ وعدے اور یقین دہانیاں کراکے اقتدار مسلط کیا گیا تھا کہ وہ ملک کی معیشت سنبھالنے اور حکومت کیخلاف ہونیوالی سرگرمیوں میں حکومت کو تحفظ فراہم کرینگے لیکن ان وعدوں اور یقین دہانیوں کی عملی شکل سامنے نہ آنے کے باعث جہاں اس صورتحال پر حکومتی زعما نے افسوس کا اظہار کیا وہیں ملک میں فوری الیکشن کرانے کی اپنی تجویز کا مطالبے کی شکل میں اظہار بھی کیا لیکن یہ امر باعث حیرت ہے کہ پی ڈی ایم کے اجلاس میں جہاں اس تجویز اور مطالبے کی حامی مریم نواز بنفس نفیس موجود تھیں اور اجلاس سے قبل مولانا فضل الرحمٰن کے ایک سے زیادہ مرتبہ نواز شریف سے رابطہ ہو۔