اسلام آباد (نمائندہ جنگ) سابق وزیراعظم نواز شریف ایک بار پھر وطن واپسی کے حوالے سے خبروں میں ہیں، نواز شریف 19 نومبر 2019 کو علاج کیلئے ذاتی معالج کے ہمراہ لندن گئے تھے انکی روانگی کے کچھ عرصہ بعد ہی ا وطن واپسی کے بارے میں متضاد خبریں آنا شروع ہوگئی تھیں کبھی تحریک انصاف حکومت کے وزیراعظم اور کابینہ حکومتی اختیار استعمال کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں واپس لانے کیلئے قانونی اقدامات ، برطانیہ کی حکومت سے رابطوں کے ضمن میں بلند وبانگ دعوے کرتے رہے تو کبھی مسلم لیگ (ن) اور اپوزیشن کی جماعتیں اپنے قائد کی آمد کا بگل بجانے کیلئے تیار دکھائی دیئے لیکن ایسے دعوئوں کو ساڑھے تین سال ہونے کو ہے ، ایسے دعوئوں اور پیشگوئیوں میں ایسی اہم سیاسی شخصیات بھی شامل رہی ہیں جن کے ارشادات کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے لیکن اپنی پیشگوئیوں کے بے نتیجہ اور بے مقصد ثابت ہونے کے بعد جہاں ان شخصیات نے دعوئوں کا سلسلہ ختم کر دیا وہیں اس موضوع کی اہمیت بھی ماند پڑتی گئی لیکن موجودہ صورتحال میں سابق وزیراعظم کی وطن واپسی کی خبروں کو یکسر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جس کی ایک سے زیادہ وجوہات سیاسی منظر پر موجود ہیں اول یہ کہ لیگی قائدین، رہنما، ورکر اور عوامی سطح پر انکو پسند کرنیوالے اسے زمینی حقیقت سمجھتے ہیں کہ جب تک نواز شریف وطن واپس آکر مسلم لیگی سیاست میں مرکزی قیادت کا کردار ادا نہیں کرتے اس وقت تک مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکتے، پھر ایسی وجوہات بھی ہیں کہ اگر سابق وزیراعظم کی وطن واپسی کی خبریں بریک کرنیوالے معتبرین کی حیثیت اور اہمیت کو بھی نظرانداز کر دیا جائے تو پھر بھی آنیوالے حالات اس خبر میں سنجیدگی کا پتہ دیتے ہیں،مسلم لیگ (ن) کے زعماء اور اتحادی جماعتیں تسلیم کرتی ہیں کہ ملک کو درپیش شدید معاشی بحران میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے تحریک انصاف کی حکومت کو ہٹانے اور مشکل حالات میں عنان اقتدار کا بھاری پتھر اٹھانے کے فیصلے پر اسلام آباد اور لندن میں موجود قیادت میں مکمل ہم آہنگی اور اتفاق نہیں تھا اور ساڑھے تین سال بعد بھی پاکستان میں معیشت کی زبوں حالی، ڈالر کی قدر اور پٹرول سمیت ضروریات زندگی میں جس شرح سے اضافہ ہو رہا ہے وہ اس بارے میں لندن میں لیگی قائد کی سوچ اور دوراندیشی کو بادی النظر میں درست قرار دیتے ہیں اور اس زیربحث موضوع کو بھی کہ انتخابات وقت سے پہلے ہونے چاہئیں تاہم اختلاف رائے رکھنے والے انکے رفقاء اس فیصلے کو نواز شریف کی وطن واپسی سے مشروط کرتے ہیں اور انکی وطن واپسی کے موقع پر بینظیر بھٹو کی 10اپریل 1986میں وطن واپسی کے پرشکوہ اور ملکی سیاسی تاریخ کے ناقابل فراموش مناظر کو دہرانے کی خواہش رکھتے ہیں جو اس سے قبل اور نہ ہی اسکے بعد اب تک دیکھنے میں آئے ہیں۔