گلوبل وارمنگ اور موسمی تغیرات نے کرہ ارض کے ہر گوشہ کو شدید طور پر متاثر کیا ہے۔ 1972 سے سائنس داں زمین کی صحت موسموں میں تبدیلی کے اثرات کا جائزہ لیتے رہے ان سب کا دعویٰ ہے کہ گزرے تیس برسوں میں زمین پر بڑی تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں بہتر کی دہائی ہی سے درجہ حرارت میں اضافہ ہوا، کہیں بارش، کہیں برفتاری میں اضافہ، کہیں سیلابوں کے سلسلے تو کہیں خشک سالی وغیرہ سائنس داں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ قدرتی کوئلہ، تیل، گیس کے استعمال میں بتدریج اضافہ اور مشکلات کا ذمہ دار ہے ،اس وجہ سے قدرتی ماحول شدید متاثر ہورہا ہے۔
ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ امریکہ نے تین سو ستر ارب ڈالر ماحول میں سدھار کے لیے مختص کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دوسرے یہ کہ عام طور پر قدرتی ماحول اور موسمی تغیرات کے حوالے سے لوگوں میں آگہی پیدا ہورہی ہے۔ مگر موسمی تغیرات نے سب کو پریشان کردیا ہے۔ مصائب میں اضافہ ہورہا ہے۔ برطانیہ سمیت یورپ کے دیگر ممالک میں گرمی کی شدت محسوس کی جاتی رہی ہے۔ گزشتہ دسمبر کے بعد یورپ میں شدید برفباری ہوئی جبکہ جون سے گرمی کی شدت بڑھ رہی ہے۔ برطانیہ میں خشک سالی میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے۔ بارشوں میں کمی ہوتی جارہی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ برطانیہ میں اس سال درجہ حرارت 38 ڈگری سے تجاویز کرگیا اور معمولات زندگی درہم برہم ہوکر رہ گئے۔
دوسری طرف جنوبی ایشیا میں خاص طور پر بھارت اور پاکستان میں زبردست بارشوں سے شدید نقصانات برداشت کرنے پڑ رہے ہیں شمالی ہند اور بلوچستان میں سیلابی ریلوں نے کھڑی فصلوں، گھروں اور پلوں کو زبردست نقصان پہنچائے بلوچستان میں پلوں کے ٹوٹنے سڑکوں کے بہہ جانے سے صوبہ کا باقی ملک سے رابطہ منقطع ہوگیا۔ ہزاروں مویشی، سیلابی ریلوں میں بہہ گئے۔ خصوصاً مہاراشڑا اور گجرات میں زیادہ نقصان ہوئے یہ سب موسمی تبدیلی اور زمینی حرارت میں اضافے کا نتیجہ ہے۔
گزشتہ دنوں برطانیہ کے شہر گلاسکو میں عالمی رہنمائوں کی کانفرنس جس کا ایک نکاتی ایجنڈا ’’موسمی تغیرات‘‘ تھا ماہرین ماحولیات نے بہت کھل کر کہا کہ اگر اب بھی عالمی رہنمائوں کو ہوش نہ آیا تو کب آئے گا۔ زمین تین برس قبل جیسی نہیں رہی بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔ کانفرنس میں شریک تمام سائنس دان اور ماہرین اس پر متفق تھے کہ تبدیلی کا عمل تیز ہوتا جارہا ہے اس کو روکنا یا کم از کم 1960 کی سطح تک لانا ہوگا۔
مگر وجہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر بڑے صنعت کار سرمایہ دار ادارے اس مفروضہ کو تسلیم کرنے کے تیار ہی نہیں ہیں کہ موسمی تغیرات گلوبل وارمنگ یہ سب سلسلے صدیوں سے جاری ہیں کبھی موسم شدت اختیار کرتے ہیں کبھی اعتدال پر رہتے ہیں۔
اس مخالف لابی کا جو بہت بااثر طبقہ ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ سب سائنس دانوں کے شوشے ہیں جو آئے دن کوئی نہ کوئی نئی تھیوری گھڑتے رہتے ہیں۔
مذکورہ لابی کے بیانات کے خلاف گزشتہ دنوں اور حال میں نوجوانوں اور عوام نے زبردست مظاہرے کئے ،پیرس، فرینکفرٹ، روم اور ایتنھز میں بڑے مظاہرے ہوئے۔ خصوصاً نوجوان اس ضمن میں زیادہ سرگرم ہیں۔ یہ بالکل سچ اور عیاں حقیقت ہے کہ انسان نے اپنی آسائش کے لیے جو بھی چیزیں ایجاد کیں وہ سب درد سر بنتی جارہی ہیں۔ بیش تر یورپی شہریوں نے سائنس دانوں کی پیش گوئیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کاروں کے بجائے پبلک ٹرانسپورٹ اور سائیکلوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔
درحقیقت دنیا کا سب سے بڑا اور اہم ترین مسئلہ آبادی میں بے ترتیب اضافہ ہے۔ چین نے آبادی میں اضافہ کی روک تھام کے لیے ایک بچہ اسکیم شروع کی ہے۔ بھارت تاحال اپنی آبادی پر کنٹرول کرنے میں ناکام نظر آتا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ کچھ ہی عرصہ میں بھارت آبادی میں چین سے آگے ہوگا۔
یہ حقیقت ہے کہ ایک طرف آبادی میں بے ہنگم اضافہ ہورہا ہے تو دوسری جانب قدرتی وسائل اور خوراک میں کمی بڑے مہیب مسائل بن رہے ہیں۔ آلودگی میں بتدریج اضافہ سے نت نئے وبائی امراض پھیل رہے ہیں دنیا تاحال کرونا وائرس پر مکمل قابو حاصل کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ ایک اور بڑا مسئلہ خوراک ہیں، پینے کے صاف پانی میں کمی ہے۔ جاری حالات میں افریقہ کا خطہ خوراک کی کمی کا شدید طور پر شکار ہے۔ سب صحرا کا خطہ جو زیادہ تر خشک سالی کا شکار رہا ہے وہاں خوراک کا مسئلہ سب سے زیادہ ہے۔
اقوام متحدہ کاعالمی ادارہ خوراک نے کوشش تیز کردی ہیں تاکہ اس مسئلے کو فوری حل کیا جائے مگر عالمی سطح پر خوراک کا مسئلہ گھمبیر ہوتا جارہا ہے۔ ایک طرف یوکرین جو دنیا میں گندم سمیت دیگر اناج فراہم کرنے والا اہم ملک تھا وہاں سے اناج کی فراہمی بند ہے کیوں کہ بری اور بحری سرحدیں روس نے بلاک کی ہوئی ہیں دوسرے روس اناج کی فراہمی کرنے والا اہم ملک ہے مگر پابندیوں کی وجہ سے روس بھی گندم کی فراہمی یا ایکسپورٹ میں دشواریاں محسوس کررہا ہے جس سے گندم کی کمی ہورہی ہے خوراک کا مسئلہ اور بھی نازک ہورہا ہے۔
افریقی ممالک بالخصوص صحارا کے خطے میں وبائی امراض جو پینے کے صاف پانی کی کمی اور خوراک میں کمی کی وجہ سے ہر سال ہزاروں بچے ہلاک ہورہے ہیں۔ افریقہ اوردیگر ممالک بھی ان مسائل کا شکار ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ کچھ متاثرہ ممالک میں زیادہ تر ممالک مسلم ہیں۔ اسلامی تنظیم کے رکن ہیں مگر سونے کے محل بنانے والے عرب حکمران ان مسائل سے بے بہرہ ہیں۔ مسلمانوں کی عالمی تنظیم او آئی سی کی اس جانب توجہ دلائی جاچکی مگر تاحال کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ تاہم عالمی ادارہ خوراک اس نازک مسئلے کو حل کرنے کے لئےکوشش کررہی ہے۔
معروف سائنس دان اور دانشور اسٹیفن ہاکس نے اپنی آخری وصیت میں انسانوں کو خبردار کیا کہ ’’تم سب زمین کی پیداوار ہو، زمین پر زمین کے قدرتی ماحول میں ہی تمہاری سلامتی ہے۔ انسان کسی سیارے پر زندہ نہیں رہ سکتا وہ خلائی مخلوق کی تلاش بند کردے اگر ایسی کوئی مخلوق ہے اور اس کا انسان سے رابطہ ہوتا ہے تو وہ انسانوں کو ختم کردیگی‘‘۔
یہ بالکل سچ ہے اس میں پہلے روس اور امریکہ کی دوڑ لگی تھی اب امریکہ اور چین فتح کرنے کی دوڑ میں لگے ہیں۔ گزشتہ ماہ چین کے خلائی راکٹ کا پورا ملبہ زمین پر گرا یہ بہت بڑا خطرہ ہے۔ چین نے اس خبر کی تردید کی ہے اور اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ ملبہ صرف راکھ تھی جس سے زمین کو یا انسانوں کو کوئی خطرہ نہیں تھا، مگر حقیقت یہ کہ زمین سے زیادہ زمین کے گرد چکر لگانے اور خلاء میں تحقیق کرنے والے سیاروں کا ایک ہجوم دنیا پر منڈلا رہا ہے سائنس دان اس کو دنیا کی سلامتی کے لئے ایک بڑا خطرہ بتلاتے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ چین نے خلائی تحقیق اور چاند کو مسخر کرنے کے لئے بہت بڑی رقم مختص کردی اور روسی خلائی ماہرین چین کی ہر طرح اعانت کررہے ہیں اگر یہ سلسلہ مزید تیز ہوگیا تو ماہرین کا خیال ہے کہ کوئی بڑا سانحہ رونما ہوسکتا ہے اور انسانیت کو بڑا نقصان برداشت کرنا پڑسکتا ہے۔ لیکن زمین پر جو کچھ ہورہا ہے ان خطرات کا تدارک زیادہ ضروری ہے۔ مثلاً آبادی میں بے ہنگم اضافہ، ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کی آبادی میں سالانہ آٹھ کروڑکے لگ بھگ اضافہ عمل میں آرہا ہے اگر آبادی میں اضافہ کی رفتار یہی رہی اور کوئی سدباب نہ کیا گیا تو اس صدی کے آخر میں دنیا کی آبادی سولہ کروڑ تک بڑھ سکتی ہے جو کرہ ارض اور انسانوں کے لیے بہت بڑا خطرہ ہوسکتی ہے۔
اس لئے ماہرین کا کہنا ہے کہ بیش تر علاقوں کے باشندے پرانی سوچ کو ہی سینے سے لگائے ہوئے ہیں کہ آبادی میں اضافہ قدرت کا عطا کردہ ہے۔ ماہرین ان علاقوں میں افریقہ، جنوبی ایشیا اور مشرقی بعید کے بعض ممالک کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کے قدرتی وسائل سے زیادہ آبادی اپنی بقا کس طرح یقینی بناسکتی ہے، جبکہ خوراک میں کمی، پینے کے صاف پانی میں کمی اور زندگی کی دیگر ضروری لوازمات میں کمی ہوئی۔ بعض علاقوں کے راسخ عقیدہ باشندے سائنسی سوچ اور علمی منطبق کو تسلیم نہیں کرتے۔
اس کے علاوہ بڑا مسئلہ قدرتی ایندھن کے استعمال میں اضافہ ہے۔ مثلاً قدرتی کوئلہ کا استعمال، جس سے زمین اور فضائی آلودگی میں تیزی سے اضافہ عمل میں آرہا ہے۔ چین نے دریافت شدہ قدرتی کوئلہ استعمال کرلیا اور اب نئی کھدائیاں ہورہی ہے۔
دنیا میں کاروں کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے۔ ہر سال ہزاروں کاریں سڑکوں پر آجاتی ہیں۔ اس رجحان سے فضائی آلودگی بڑھتی جارہی ہے۔ دل کے امراض، امراض چشم اور سانس کی بیماریاں عام ہورتی جارہی ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں سڑکوں پر دھواں چھوڑتی گاڑیوں کا قبضہ ہے۔ مثلاً کراچی میں سب سے زیادہ آلودگی سڑکوں پر دوڑتی آٹو موبائل کا سبب ہیں۔ امراض قلب اور امراض چشم کے مریض بڑھتے جارہے ہیں۔ نہ ہوا صاف نہ پانی صاف ہے۔ اس کے علاوہ ہماری خوراک بھی آلودہ ہے جیسے سبزیاں جو ہم استعمال کرتے ہیں وہ زہریلی دوائوں اور کھاد کی پیداور ہیں۔ کیونکہ کاشتکار پیداوار میں اضافہ کے لئے جو کیمیاوی کھاد استعمال کرتا ہے وہ صحت کے لئے انتہائی مضر ہے۔ مگر اس ضمن میں سرکاری اور سماجی ادارے کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔
دنیا ،قدرتی اور انسان کے اپنے پیدا کردہ عمل کی وجہ سے مختلف خطرات میں گھری ہوئی ہے، ان میں ایک زبردست خطرہ جوہری ہتھیاروں کے پھیلائو کا ہے۔ مثلاً دنیا اس وقت 9 ممالک ایٹمی ہتھیار رکھتے ہیں جیسے روس، امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین، بھارت، پاکستان، شمالی کوریا اور اسرائیل۔ سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار روس اور امریکہ کے پاس ہیں۔ اسی طرح ایٹمی ہتھیاروں کی مجموعی تعداد تیرہ ہزار کے لگ بھگ ہیں۔ مذکورہ ممالک میں سے کوئی زیادہ طیش میں آجائے کسی سے غلطی ہوجائے اور بم دھماکہ ہوجائے تو اندازہ نہیں کیا جاسکتا کہ کیا ہوسکتا ہے۔
خطرناک بات ایک یہ بھی ہے کہ ماہرین اور مبصرین کہتے ہیں 1991 میں جب سویت یونین منتشر ہوا اس وقت وہاں کوئی موثر حکومت نہ تھی لوٹ مار کا بازار گرم تھا دنیا کے اکثر بڑے ہتھیار فروشوں نے وہاں سے بیش تر جوہری ہتھیار اسمگل کرلئے بعض باخبر حلقوں کا دعوی ہے کہ ماسکو سے بذریعہ ٹرین میزائل بھی اسمگل کرکے جرمنی، ہالینڈ اور امریکہ تک اسمگل کئے اس حوالے سے دنیا کو درست اندازہ نہیں کہ بڑے جرائم پیشہ گروہ اور بڑے ہتھیار فروشوں نے یہ روسی ایٹمی ہتھیار اور روایتی ہتھیار کہاں کہاں پھیلا دیئے اور کس کس گروہ کے قبضے میں ہیں۔ تاحال دنیا اس اہم مسئلے پر کچھ کہنے اور کرنے سے قاصر ہے۔
یہ بڑا سانحہ ہے اور ایک ان دیکھا خطرہ دنیا پر منڈلا رہا ہے جس کے حوالے سے کوئی درست اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔
اس کے ساتھ مختلف ممالک کے آپس کے تنازعات بھی انسانیت کی سلامتی کے لئے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں مثلاً چین اور امریکہ کے مابین تائیوان کے مسئلے پر سیاسی گرما گرمی چل رہی ہے۔ امریکہ اور چین بڑے ملک اور بڑی طاقتیں ہیں وہ یقیناً روداری کا ثبوت دیں گے اور امید ہے جاری تنائو کو کم سے کم کرلیں گے۔ گزشتہ دنوں نیروبی میں ہونے والی ماحولیات کی کانفرنس میں انکشاف کیا گیا کہ افریقہ میں ہاتھیوں کی تعداد میں چالیس فیصد کمی ہوچکی ہے۔ ماحول، گلوبل وارمنگ کے اثرات حیوانات پر زیادہ پڑے ہیں۔
ہاتھیوں سمیت دیگر جانور بھی شدید متاثر ہورہے ہیں۔ کینیا کی حکومت نے حیوانات کے شکار بالخصوص ہاتھیوں کے شکار پر مکمل پابندی لگادی ہے۔ دنیا کے ماہرین حیوانات نے اقوام متحدہ سے اپیل کی ہے کہ افریقہ سمیت دیگر ممالک میں جانوروں کے شکار پر پابندیاں عائد کروائے۔ بیش تر جانوروں کی نسلیں ختم ہورہی ہیں۔ گلاسکو کانفرنس اور نیروبی کانفرنس میں ہاتھیوں کی اموات پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور دنیا کے سربراہوں نے اس نوعیت کے مسائل کا فوری سدباب کرنے کا اعادہ کیا۔
منیزان کانفرنس میں ایمززون اور آسڑیلیا کے جنگلات لگنے والی آگ پر بھی تشویش ظاہر کی۔ ایمزون کے جنگلات کی کٹائی پر پہلے ہی سے پابندی عائد کردی گئی ہے مگر لکڑی فروش اور ان جنگلات میں واقع گائوں کے باشندوں نے لکڑی کاٹ کر فروخت کرنے کو اپنی روزی کمانے کا دھندا بنالیا ہے۔ اس حوالے سے برازیل کی حکومت مزید سخت قوانین وضع کررہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے ماحولیات نے ایمزون کے جنگلات کی کٹائی اور چوری چکاری پر گہری تشویش ظاہر کی ہے اور برازیل اور اس کے اطراف ممالک کو جنگلات کی حفاظت کی تاکید کی ہے۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ مہم شروع کی ہے کہ ممالک ماحول دوست معاشروں کی تشکیل کے لئے اپنے اپنے محکموں میں شجرکاری کی مہم شروع کریں۔
شجرکاری کے حوالے سے پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان نے ایک ارب پودے لگائے ہیں۔ اس سے قبل جب محترمہ بینظیر بھٹو وزیراعظم تھیں آصف زرداری نے دعویٰٓ کیا تھا کہ ان کی سربراہی میں کروڑوں پودے لگائے گئے ہیں مگر اس حوالے سے کوئی تصدیق نہیں ہوسکی کہ آیا واقعی اتنے پودے لگائے گئے۔ معذرت کے ساتھ ہمارے رہنما دعوے تو کرتے ہیں مگر ان دعوؤں کے ثمرات دکھائی نہیں دیتے، تاہم شجرکاری معاشرے کو ماحول دوست بنانے کے لئے نہایت ضروری ہے۔ اس کے فوائد زیادہ ہیں۔
مثلاً ملک میں سبزہ میں اضافہ ہوگا، ہوا صاف میسر آئے گی، بینائی کے لئے سبزہ دیکھنا بے حد مفید ہے۔ اس حوالے سے اسکولوں کے نصاب میں بچوں کو آگہی دینے کے سلسلے میں ماحولیات اور شجرکاری کی اہمیت نصاب میں شامل کی جائے تو زیادہ مناسب ہوسکتا ہے۔ بچوں کو یوں بھی پودے لگانے کا شوق ہوتا ہے اگر ان کے شوق میں ان کی مدد کی جائے حوصلہ افرائی کی جائے تو ملک میں ماحولیات کے حوالے سے مثبت تبدیلی آسکتی ہے۔
سائنس دانوں کے انتباہ کو نظر انداز کیے جانے کی وجہ سے اب موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات کی روک تھام کا وقت گزر گیا ہے۔ برطانیہ میں ریکارڈ درجہ حرارت اور مشرقی لندن میں آتش زدگی سے 16 گھر تباہ ہونے سے تیزی سے بدلتے موسم کا پتا چلتا ہے۔ آنے والے برسوں میں موسم نئے ریکارڈ قائم کرتا رہے گا۔
ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ 2022ء میں دنیا پہلے سے کافی زیادہ تبدیل ہوچکی ہے اور بہت جلد یہ ہم سب کے لیے ناقابل شناخت ہوجائے گی۔ سنگین موسمیاتی تبدیلیوں سے بچنا اب ممکن نہیں۔ بیش تر سائنس دانوں کا خیال ہے کہ، زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی لا کر تباہ کن اثرات کی روک تھام ہوسکتی ہے۔
لیکن کچھ سائنس دانوں کا یہ کہنا ہے کہ زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے ’’ہاٹ ہائوس ورلڈ‘‘ کو اپنانے کی ضرورت ہے اور ایسے حالات کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے جو معاملتے کو مزید تباہ کن بنا سکتے ہیں۔
عالمی تھنک ٹینک ’’جرمن واچ‘‘ نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران شدید نوعیت کے موسمی حالات اور قدرتی آفات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ، اس مدت کے دوران عالمی معیشت کو 2.58کھرب ڈالرز کا نقصان پہنچا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے جن ممالک کے زیادہ متاثر ہونے کا خطرہ ہے، ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ جرمن واچ کے انڈیکس میں پاکستان کو فہرست میں آٹھویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔
اس کے باوجود حکومت اور عوام دونوں ہی اس کو اہمیت نہیں دے رہے۔ اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ پہلے خشک سالی کا عذاب تھا، اب معمول سے زیادہ بارشوں کی وجہ سے ملک بھر میں سیلابی کیفیت ہے۔ بہت سے گھر سیلاب کی نذر ہوگئے۔ سطح سمندر میں اضافے سے بھی آبادی کو شدید خطرات لاحق ہیں، جب کہ سمندری طوفان بھی اس تبدیلی کا پیش خیمہ ہیں۔
گزشتہ دو دہائیوں میں ٹراپیوکل سائیکلون بننے میں تیزی آگئی ہے۔ سب سے بڑا خطرہ شدید گرمی یا ہیٹ ویو ہے۔ کراچی میں 2015ء میں ہیٹ ویو نے ماضی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے تھے۔ اس لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہوگا۔
امریکی کینیڈین سائنس دانوں کی ٹیموں نے حال ہی میں قطب شمالی کا دورہ کیا اور انہوں نے اپنی جائزہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا کہ قطب شمالی کے عظیم گلیشیئرز پر صدیوں سے جمی برف پگھل کر سمندر میں بہہ گئے ہیں۔
وہاں اب چٹیل پہاڑ نظر آرہے ہیں۔ گلیشیئرز نوارد ہیں۔ سابق امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے خاص طیارے پوپ شمالی قطب کے علاقے کا دورہ کرایا تھا اور پوپ وہاں کی صورت دیکھ کر دنگ رہ گئے تھے۔ تب سابق صدر باراک اوباما نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ گلوبل وارمنگ میں کمی نہ ہوسکی تو بہت جلد اس خطے کے گلیشیئر پگھل جائیں گے اور اب یہ عمل تیزی سے جاری ہے اور گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں۔
قطب جنوبی کا ایک بڑا برفانی حصہ ٹوٹ کر بہت آہستہ آہستہ سمندر میں تیر رہا ہے۔ ایک بڑے حصے میں ایک درجن ممالک کے تحقیقاتی کیمپ بنے ہوئے ہیں جس میں امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، چین، بھارت وغیرہ شامل ہیں۔ اس کی حالت زار بھی مخدوش ہوتی جارہی ہے۔ سائنس دانوں اور ماہرین کو قطب شمالی اور قطب جنوبی کے سلسلے میں بے حد تشویش ہے۔ گزشتہ سال وہاں برفانی طوفانوں کے سلسلہ میں اضافہ نوٹ کیا یگا۔ مگر گلوبل وارمنگ کے مہیب اثرات تیزی سے نمایاں ہو رہے ہیں۔