• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج پاکستان سمیت دنیا بھرکو مختلف اقسام کے ماحولیاتی مسائل کا سامنا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیاں اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل ہیں۔ سردی اور گرمی کے موسم سخت ترین ہوتے جارہے ہیں۔کئی ممالک میں سمندری طوفانوں، معمول سے زیادہ بارشوں اور سیلاب کا آنا معمول بنتا جارہا ہے۔ سرد علاقوں میں گرمی اور گرم علاقوں میں سردی کی شدت میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔

ماحول اور ماحولیاتی مسائل کے انسان کے مزاج اور صحت پر بہ راہ راست اثرات کو اب ساری دنیا میں تسلیم کیا جاچکا ہے۔ ہمارے ہاں کئی برس سے موسمِ سرما کے آغازسے اختتام تک کئی شہروں،خصوصا،لاہورکے باسی ، دھند اور اسموگ سے کافی پریشان رہتےہیں۔ دنیا کے شمالی نصف کرےمیں ہیٹ ویوز، شدید سے شدید تر ہوتی جارہی ہیں اورمختلف ممالک میں قحط سالی معمول کی بات بنتی جارہی ہے۔ 

اقوام متحدہ کے مطابق آبی علاقوں کو زراعت کے لیے خشک کیا جارہا ہے، جس کی وجہ سے تین سو برسوں میں عالمی سطح پر تقریباً87فی صد آبی علاقے ختم ہوچکے ہیں۔ 180سے زائد ممالک میں موجود نباتاتی زمین (peatlands) ماحولیاتی نظام کے لیے انتہائی ضروری ہیں، اگرچہ یہ رقبہ دنیا کی صرف تین فی صد اراضی پر محیط ہے، مگر یہ مٹی میں موجود کاربن کا تقریباً تیس فی صد ذخیرہ کیے ہوئے ہے۔

ماہرین ِ ماحولیات گلوبل وارمنگ کی بڑی وجہ آتش فشانی ، خام تیل جلانے ، گرین ہاؤس گیسز کے اخراج اور منفی انسانی سرگرمیوں،مثلاجنگلات کاٹنے، فصلوں میں نائٹروجن کھاد کے استعمال وغیرہ کو قرار دیتے ہیں۔ گلوبل وارمنگ کے اثرات میں جنگلات میں آگ، گلیشیرز کا پگھلنا، ماحولیاتی تبدیلی، سطح سمندر میں اضافہ، زراعت میں کمی، خشک سالی اور سیلاب کا خطرہ شامل ہیں۔ صنعتوں کا فضلہ، دھواں چھوڑتی گاڑیاں، نائٹریٹ، دھاتیں، پلاسٹک اور انتہائی زہریلے فاسد مادے و کیمیائی اجزاء ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔

ماہرین ِ ماحولیات کہتے ہیں کہ تیل کا اخراج، مختلف اقسام کے تیزاب ، بارش اور شہری علاقوں میں بہنے والا فضلہ پانی کی آلودگی کا سبب بن رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں تقریباً 80فی صد آلودہ پانی بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے سمندروں اور دریاؤں میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے مچھلیوں سمیت بہت سی آبی مخلوق کی نسل کو خطرات سے لاحق ہیں۔علاوہ ازیں پانی کی آلودگی کا اثر پرندوں پر بھی پڑا ہے۔

دوسری جانب صنعتوں اور کارخانوں سے نکلنے والی مختلف گیسز، زہریلامواد اورجلتا ہوا رکازی ایندھن فضائی آلودگی بڑھا رہا ہے۔ اس کے علاوہ بڑی حد تک صنعتی فضلے سے آلودہ ہونے والی مٹی ضروری نباتات سے محروم ہورہی ہے۔ قدرتی وسائل کی شرح میں کمی بھی ایک اہم ماحولیاتی مسئلہ ہے۔ کوئلے اور تیل کا استعمال گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کا باعث بن رہا ہے۔ 

یہی وجہ ہے کہ کئی ممالک اب توانائی کے قابل تجدید ذرائع، مثلا شمسی توانائی، وِنڈ انرجی، جیو تھرمل انرجی اور بایو گیس کی جانب تیزی سے پیش قدمی کررہے ہیں۔ ایسے میں کوئلے اور تیل کے بہتر استعمال پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔آج ہمارے لیے یہ بہت ضروری ہوگیا ہے کہ تمام قدرتی وسائل کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت استعمال کیا جائے تاکہ انہیں مستقبل کے لیے بھی محفوظ رکھا جا سکے۔

دودہائیوں سے دنیا ماحولیاتی تبدیلیوں کاسامناکر رہی ہے۔ جنوبی ایشیا، بالخصوص پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید مشکلات سے دوچار ہے۔ ایک طرف ہمارے شمالی علاقوں میں موجود گلیشیئرز پگھل رہے ہیں تو دوسری جانب سندھ اور بلوچستان میں سمندری پانی ساحلوں اور ساحلی علاقوں کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہا ہے۔ معمول سے زیادہ اور کم بارشیں اور برف باری، سیلاب ، موسموں کی شدت اور اسموگ بھی ہمارے شدید ماحولیاتی مسائل میں سر ِفہرست ہیں۔ ہمارا صوبہ سندھ اب تک 2022کی مون سون کی طوفانی بارشوں اور سیلاب کے اثرات سےپوری طرح نہیں نکل پایا ہے۔

ان حالات میں دنیا بھر میں عدم مساوات بڑھ رہی ہے۔ تباہ کن اثرات کی حامل عالمی حدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ قرض کے باعث ترقی پذیر ممالک کی معیشتیں سکڑ رہی ہیں۔ پائے دار ترقی کے اہداف کے حصول کی راہ میں نصف وقت گزارنے کے بعد آدھی سے زیادہ دنیا پیچھے رہ گئی ہے۔ اندازاً 670 ملین افراد تاحال انتہائی درجے کی غربت کا شکار ہیں اور ایک ارب سے زیادہ لوگ خدمات کے فقدان کے باعث کچی بستیوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔

ماحول کی آلودگی پاکستان سمیت دنیا بھر کا کس قدر شدید مسئلہ ہے،اسے سمجھنے کے لیے محض یہ نکتہ جان لینا ہی کافی ہوسکتا ہے کہ اگر دنیا میں روزبہ روز بڑھتی ہوئی آلودگی کو اس وقت صفر کردیا جائے تو بھی پانی، مٹی اور فضا میں پائی جانے والی آلودگی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے انسانوں کو کئی برس درکار ہوں گے۔

ماہرین کے مطابق ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے ہم جلد،جلد قحط سالی اور سیلابوں کے چکر سے گزرسکتے ہیں۔ اس موسمی تغیر کی وجہ سے ایک تحقیق کے مطابق 2100 تک ہمارے ہاں درجہ حرارت میں تقریباً 7.2 ڈگری درجے تک اضافہ ہوسکتا ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف زرخیز زمینوں کے بنجر ہونے کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں بلکہ کچھ علاقوں میں تو شاید رہنا بھی ممکن نہ رہے۔

موسمی تبدیلیاں ہماری معیشت کے تمام شعبوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، خاص طور پر پانی کے وسائل، توانائی، صحت اور زرعی پیداوار اس کے خاص شکار ہو سکتے ہیں۔ حکومتی سطح پر ان بڑھتے ہوئے چیلنجز کا مقابلہ کرنےکےلیےایک تفصیلی پروگرام2013کے اقتصادی سروے میں بیان کیا گیاتھا،لیکن کون جانے اب وہ منصوبہ کہاں ہے اور اس پر کس حد تک عمل درآمد ہورہا ہے۔

گزشتہ برس کے اواخر میں دبئی میں ہونے والی 'کاپ 28' میں غریب ممالک کو موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والی تباہی اور نقصان کے ازالے میں مدد دینے کے فنڈ کو فعال کرنے پر اتفاق کر لیا گیا تھاجو اس کانفرنس کے پہلے روز حاصل ہونے والی بڑی کام یابی تھی۔واضح رہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے بڑے پیمانے پر متاثر ہونے والے ترقی پذیر ممالک طویل عرصے سے مطالبہ کر رہے تھے کہ انہیں اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے مالی مدد فراہم کی جائے۔ ایسے بیش تر ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں خشک سالی، سیلاب اور سطح سمندر میں اضافے جیسے مسائل کا سامنا ہے۔اس سےقبل ایسی کئی سالانہ کانفرنسز میں مشکل مذاکرات کے بعد گزشتہ برس مصر کے شہر شرم الشیخ میں ہونے والی کاپ27 میں ترقی یافتہ ممالک نے یہ فنڈ قائم کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

کاپ 28 سے قبل شایع ہونے والی متعدد رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا موسمیاتی اہداف کے حصول کی راہ پر بُری طرح بے سمت ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے پُرعزم اقدامات اٹھائے بغیر رواں صدی کے آخرتک عالمی حِدّت میں اضافہ قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں تین ڈگری سیلسیئس تک بڑھ جائے گا۔مذکورہ کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے کچھ ہی دیر پہلے اقوام متحدہ کے موسمیاتی ادارے 'ڈبلیو ایم او نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ 2023میں موسمی شدّت کے سابقہ ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں اور یہ اپنے پیچھے تباہی اور مایوسی چھوڑ کر جا رہا ہے۔گزرا برس انسانی تاریخ کا گرم ترین سال تھا اوراس برس بہت سے موسمیاتی ریکارڈ ٹوٹے۔ دنیا اس کی قیمت لوگوں کی زندگیوں اور روزگار کی صورت میں چکا رہی ہے۔ سائنس بتاتی ہے کہ چھ سال کے بعد زمین گرین ہاؤس گیسز سے نمٹنے کی صلاحیت کھو دے گی۔

پاکستان کی تین چوتھائی معیشت کا انحصار دریائے سندھ پر ہے جس کے ماحولیاتی نظام اور اس سے وابستہ کروڑوں لوگوں کی زندگی اور روزگار کو تحفظ دینے کا اقدام '’’لیونگ انڈس‘‘ بھی کاپ 28 کے تیسرے روز موضوع بحث رہا۔واضح رہے کہ لیونگ انڈس پاکستان کا سب سے بڑا موسمیاتی اقدام ہے جس کا آغاز ستمبر 2022میں اقوام متحدہ کی معاونت سے ہوا تھا۔

اس منصوبے کا مقصد دریا میں پانی کی بڑھتی ہوئی قلت اور آلودگی پر قابو پانا ہے، جس سے آبی و جنگلی حیات کو تحفط ملے گا اور دریا کی صحت بحال ہونے سے پاکستان کی معیشت، خصوصاً خوراک و زراعت کے شعبے میں مزید ترقی ہو گی۔ دبئی میں منعقدہ اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی کانفرنس میں اس اقدام پر بات چیت پاکستان کے پویلین میں ہوئی۔

پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی کا ایک بڑا سبب مختلف اقسام کا کوڑا کرکٹ بھی ہےجسے ٹھکانے لگانا ہمارے لیے روز بہ روز مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔اس کوڑے میں موجود پلاسٹک ہمارے ماحول کو سب سے زیادہ نقصان پہنچارہا ہے۔ تاہم یہ صرف ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔ پلاسٹک، مصنوعی لکڑی، کاغذ، دھاتیں اور دیگر اقسام کا کچرا دنیا بھر میں ساحلوں اور سمندروں کی گہرائی میں عام دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ رکازی ایندھن سے بنتا ہے اور ہم جتنا زیادہ پلاسٹک پیدا کرتے ہیں اتنا ہی زیادہ رکازی ایندھن جلاتے ہیں اور موسمیاتی بحران کو بھی اتنا ہی شدید بنا دیتے ہیں۔

ایک اندازےکے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 400 ملین ٹن سے زیادہ پلاسٹک پیدا ہوتا ہے جس کا ایک تہائی صرف ایک ہی مرتبہ استعمال میں لایا جاتا ہے۔ انسان روزانہ کوڑے سے بھرے 2,000 سے زیادہ ٹرکس کے برابر پلاسٹک اپنے سمندروں، دریاؤں اور جھیلوں میں پھینکتے ہیں۔ پلاسٹک کے باریک ذرات ہماری خوراک، پینےکے پانی اور اس فضامیں شامل ہو جاتے ہیں جس میں ہم سانس لیتے ہیں۔ یوں یہ ہمارے جسم کے اندر پہنچ جاتے ہیں۔ اندازاً ہر سال 19 تا 23 ملین ٹن پلاسٹک دنیا بھر کی جھیلوں، دریاؤں اور سمندروں میں پھینکا جاتا ہے۔ پلاسٹک کی اس مقدار کا وزن 2,200 ایفل میناروں (ایفل ٹاور) کے برابر ہے۔

مائیکرو پلاسٹک یا پلاسٹک کے 5 ملی میٹر تک موٹے ذرات خوراک، پانی اور ہوا کے ذریعے ہمارے جسم میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اندازے کے مطابق دنیا میں ہر فرد سالانہ ایسے50000 سے زیادہ ذرات نگلتا ہے۔ سانس لینے کے دوران جسم میں شامل ہونے والے پلاسٹک کی مقدار اس کے علاوہ ہے۔ ایک مرتبہ استعمال کے بعد متروک یا جلایا جانے والا پلاسٹک انسانی صحت اور حیاتیاتی تنوع کو نقصان پہنچاتا ہے اور پہاڑوں کی بلندیوں سےلے کر سمندر کی تہہ تک ہر ماحولیاتی نظام کو آلودہ کر دیتا ہے۔ ہمارے ملک میں اس کے مظاہر عام ہیں۔ ہم نے شاپنگ بیگز پر پابندی کا قان بناکر چند دن تک اس پر عمل درآمد کرایا اور پھر گہری نیند سوگئے۔ اس سے ہماری سنجیدگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) کی ایک نئی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر انسان فوری طورپر پلاسٹک کو دوبارہ استعمال میں لانے، تلف شدہ پلاسٹک کو مختلف مقاصد کے لیے دوبارہ قابل استعمال بنانے اور پلاسٹک کے استعمال کا سرے سے خاتمہ کرنے کےلیے اقدامات اٹھائیں تو 2040 تک پلاسٹک کی آلودگی میں 80 فی صد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔

ماہرین کے مطابق پلاسٹک اپنے وجود کے تمام عرصے میں صحت مند ماحول، زندگی، صحت، خوراک، پانی اور اچھے معیار زندگی کے حقوق کو بری طرح نقصان پہنچاتا ہے۔ اس کی پیداوار کے نتیجے میں خطرناک مادے خارج ہوتے ہیں اور اس کی تقریباً تمام تر پیداوار رکازی ایندھن کے ذریعے ہوتی ہے۔ پلاسٹک میں بہ ذات خود ایسے زہریلی کیمیائے مادے پائے جاتے ہیں جو انسانوں اور فطری ماحول کےلیے خطرہ بنتے ہیں۔ 

مزید برآں ایک مرتبہ استعمال کے بعد پھینک دیا جانے والا 85 فی صد پلاسٹک زمین میں دبا دیا جاتا ہے یا اسے ماحول میں کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔علاوہ ازیں، پلاسٹک کو جلانے، اسے ری سائیکل کرنے اور دیگرغلط اور گم راہ کن طریقے اس خطرے کو اور بھی بڑھا دیتے ہیں اور پلاسٹک، اس کے باریک ذرات اور اس میں موجود خطرناک مادے ہماری خوراک، پینےکے پانی اور فضا میں شامل ہو جاتے ہیں۔

ملک میں بڑھتی ہو ئی شہر کاری بھی ہمارے ماحولیاتی مسائل میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔لیکن ایسا صرف ہمارے ہاں ہی نہیں ہورہا، بلکہ دنیا بھر میں اسی قسم کا رجحان فروغ پذیر ہے۔آج شہر اہم ترین میدان عمل ہیں۔ دنیا بھر میں70فی صد گرین ہاؤس گیسز شہروں سے خارج ہوتی ہیں۔ دنیا کی نصف آبادی شہروں میں رہتی ہے۔ 2050 تک مزید دوارب افراد شہری آبادی کا حصہ بن جائیں گے۔ معاشی اور سماجی وجوہات کی وجہ سے دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکانی نے بھی پاکستان میں ماحولیات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

اس بڑی تعداد میں نقل مکانی نے شہروں میں گنجائش سے زیادہ لوگوں کو آباد کر دیا ہے، جس نے شہری ڈھانچے اور سہولیات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس بڑھتی ہوئی شہری آبادی سے فضائی آلودگی اور صحت و صفائی کے خطرناک مسائل بھی پیدا ہوگئے ہیں۔ شہروں میں بڑھتی ہوئی تعمیرات اور نئی ہاؤسنگ سوسائٹیز کی وجہ سے اینٹوں کے بھٹوں کا بڑھتا ہوا استعمال اور کوڑا جلانے سے فضا میں مضر صحت گرد اور گیسز میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔

ہماری آبادی 23کروڑ40لاکھ تک تو پہنچ چکی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بڑے شہروں میں گاڑیوں کی تعداد میں مزید اضافہ ناگزیر ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق آئندہ برس تک تقریباً 30 لاکھ مزید گاڑیاں بہ شمول موٹرسائیکلز اور رکشے سڑکوں پر موجود ہوں گے اور موجودہ سطح سے آلودگی میں مزید اضافے کا باعث بنیں گے۔ آبادی کے بڑھنے سے ہمارے پانی کے ذخائرپر بھی برا اثر پڑے گا اور ان میں نہ صرف کمی آئے گی بلکہ ان کی آلودگی میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہو گا۔

فضائی آلودگی نے بڑے شہروں میں صحت کے خطرناک مسائل کو جنم دے دیا ہے۔ اس کے علاوہ آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی مضر صحت دھند اب بڑے شہروں میں معمول کا حصہ بن گئی ہے۔بڑھتی ہوئی آلودگی اور دھند نے صحت کے مسائل کے علاوہ کاروبار زندگی کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ ڈیزل والی گاڑیاں، دو اسٹروک انجن والی موٹر سائیکلز اور رکشوں کے استعمال سے بڑھتی ہوئی کاربن ڈائی آکسائیڈ صحت کے لیےسنگین خطرہ بن چکی ہے اور وہ ہروقت فضا میں موجود رہتی ہے۔

دوسری جانب ماہرین تسلسل سے ہمیں بتارہے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی دنیا، بالخصوص ترقی پذیر ممالک میں صحت کے لیے بڑا خطرہ ہے۔دنیا کے ایک ارب بچے موسمیاتی بحران کے باعث ہائی رسک پر ہیں۔ پاکستان کا ماحولیاتی آلودگی میں بہت معمولی حصہ ہے، لیکن ہمیں سب سے زیادہ منفی اثرات اور سنگین نتائج کاسامنا ہے۔ پاکستان کی معیشت کو موسمیاتی تبدیلی سے سالانہ ایک ارب 80؍ کروڑ ڈالرز کا نقصان ہورہا ہے۔ درجہ حرارت میں اضافے اور موسمیاتی تبدیلی سے سیلاب ، وبائی امراض اور دیگر بیماریاں بڑھ رہی ہیں ، ملیریا، ڈینگی ، ٹائیفائیڈ، انفکیشن سے پیدا ہونیوالی بیماریاں ، ڈی ہائیڈریشن ، خوراک کی کمی سمیت دیگر مسائل تیزی سے جنم لے رہے ہیں۔

پاکستان میں ماحولیاتی مسائل میں فضائی، آبی ، شور کی آلودگی، موسمیاتی تبدیلی، کیڑے مار ادویات کا غلط استعمال، مٹی کا کٹاؤ، قدرتی آفات، صحرائیت اور سیلاب شامل ہیں۔ ییل سینٹر فار انوائرمینٹل لاء اینڈ پالیسی کی جانب سے جاری کردہ ماحولیاتی کارکردگی انڈیکس (ای پی آئی) کی درجہ بندی کے 2020 کے ایڈیشن کے مطابق، پاکستان 33.1کے EPI اسکورکے ساتھ 142 ویں نمبر پر ہے، جودس سال کی مدت میں 6.1 کے اضافے سے ہے۔ ہوا کے معیار کے لحاظ سے اس کا نمبر180ہے۔ 

موسمیاتی تبدیلیاں اور گلوبل وارمنگ ملک بھر میں لاکھوں زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے والے سب سے زیادہ خطرناک مسائل ہیں۔ ان ماحولیاتی مسائل کی بڑی وجوہات کاربن کا اخراج، آبادی میں اضافہ اور جنگلات کی کٹائی ہیں۔ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق 2050ء تک پاکستان اور بنگلا دیش میں موسمیاتی تبدیلیوں، مثلاً سیلاب اور قحط سے متاثرہونے والے علاقوں میں رہنے والوں کی تعداد دو کروڑ 50 لاکھ ہوجائے گی اورایسے علاقوں کے لوگوں کو دوسرے علاقوں میں بسایا جاسکتا ہے۔

ماہرین کے بہ قول قحط، سیلاب اور بارشوں کے باعث نقل مکانی کی شرح آئندہ سالوں میں بہت بڑھ جائے گی۔ کئی ساحلی علاقوں سے نقل مکانی پہلے ہی شروع ہو چکی ہے۔ اوماڑہ، پسنی، بدین، ٹھٹھہ، سجاول اور گوادر سمیت کئی علاقوں سے نقل مکانی ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے کئی علاقے خشک سالی کے شکار بھی ہوئے ہیں۔

چند برسوں میں سمندر ی پانی کی سطح بڑھنے اور پانی کے کھارا اور آلودہ ہونے کی وجہ بہت سے لوگوں نے ساحلی علاقوں سے نقل مکانی کی ہےاور یہ تو صرف ابتدا ہے۔حکومت صورت حال بہتر بنانے کے لیے اقدامات اٹھائے۔فوڈسکیورٹی کے ایک ماہر کے مطابق شہروں کی جانب نقل مکانی سے پہلے سے ہی گنجان آباد شہروں کے وسائل پر دباوٴ میں اضافہ ہوگا۔حکومت کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ممکنہ علاقوں کا ڈیٹا حاصل کرنا، نقشہ بنانا اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے پالیسی بنانی چاہیے۔

پاکستان کے صنعتی شعبوں کی اکثریت، مثال کے طور پر ماہی گیری اور زراعت، جو پاکستان میں پیداوار کے ایک چوتھائی سے زیادہ اور روزگار کا پانچواں حصہ ہیں، ملک کے قدرتی وسائل پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ لہٰذا، اقتصادی ترقی کو برقرار رکھنے کے لیے پہلے سے ہی نایاب قدرتی وسائل کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ تاہم یہ ستم ظریفی ہے کہ ملک اپنی ترقی کے لیے جس چیز پر انحصار کرتا ہے وہ بھی ملک کی مستقبل کی فلاح و بہبود اور کام یابی کے لیے خطرہ ہے۔ 

ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان کی 70 فی صد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے اور پہلے ہی غربت کی بلند سطح کا شکار ہے۔ یہ لوگ آمدن کے لیے قدرتی وسائل پر انحصار کرتے ہیں اور ان وسائل کا زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ اس سے ماحولیات کی مزید تنزلی ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔ یعنی ہمارے مسائل گوناگوں ہیں۔

لیکن ہمارے ہاں سیاسی اور اقتصادی مسائل آج کل اتنے زیادہ ہیں کہ ہم ماحول کو بھولے ہوئے ہیں۔ شہ سُرخیوں میں ان مسائل اور بم دھماکوں کو موضوع بنایا جاتا ہے۔ سلامتی کی صورتِ حال ایک بڑا مسئلہ ہے، جو طالبان کے علاقوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ اِس کے باوجود لوگوں میں ماحولیاتی مسائل کا شعور موجود ہے۔ پانی ہمارا ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن لوگوں کی زیادہ توجہ، دال دلیے اور اپنی جان کے تحفظ کی جانب ہے۔

پاکستان جنوبی ایشیا کا وہ خوش قسمت ترین ملک ہے جسے قدرت نے حسین وادیوں، کُہساروں، سمندر، ریگستانوں اور وسیع وعریض میدانی خطّوں سے نوازا ہے لیکن اس وقت پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک کو قدرتی وسائل کی بے پناہ کمی کاسامنا ہے اور خاص طورپر پاکستان بےقاعدہ مون سون، تیزی سے گلیشیئرز پگھلنے، سیلاب اورخشک سالی جیسے معاملات سےبھی متاثرہے جس کے باعث ہمارا خوب صورت ملک بدترین ماحولیاتی آلودگی کا شکار ہے جس سے نہ صرف معیشت بلکہ شہریوں کی صحت بھی بُری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ دوسری جانب اشرافیہ کے چند فیصلوں کی وجہ سے،باغات کاشہر لاہور درختوں سےخالی ہوکر’’اسموگ ٹریپ‘‘، کراچی ‘‘ہیٹ ٹریپ ‘‘اوراسلام آباد’’پلوشن ٹریپ‘‘بن گیا ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق ماحولیاتی تنزلی سے ہر سال پاکستانی معیشت کو تقریباً پانچ سو ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے اور اس میں بہ تدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ اس نقصان میں قحط سالی سے زرعی زمین میں کمی اور اس کا غیر زرعی استعمال، مناسب پانی کی کمی، صحت کے بڑھتے ہوئے مسائل، جنگلات کی کٹائی ، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات شامل ہیں۔ اس ضمن میں صورت حال اس قدر بگڑنے لگی ہے کہ یہ مسئلہ اب پاکستانی عوام اور معیشت کے لیے بہت بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ بعض تخمینوں کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریوں کی وجہ سے 2022کے سیلاب سے پہلے ہی پاکستانی معیشت کو تین ہزار آٹھ سو ملین امریکی ڈالر کا نقصان ہوچکا تھا۔ اسی وجہ سے سب سے زیادہ اقتصادی نقصانات اٹھانے والے ملکوں میں پاکستان سر فہرست ہے۔

دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پالیسیاں تشکیل دے کر ان پر عمل درآمد کررہے ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں ماحولیاتی حوالے سے ماضی کی غیر دانشمن دانہ پالیسیز نے ملک میں اس مسئلے کو مزیدپے چیدہ بنا دیا ہے۔ اگر ہم مرحلہ وار چند اہم ترین نکات کا جائزہ لیں تو صورت حال کا حقیقی منظر نامہ ہمارے سامنے آسکتا ہے جیسا کہ عالمی حدت کی وجہ سے ملک کے شمال میں پگھلتے ہوئے گلیشیئر ملک کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ مزید بر آں پاکستان کو اس وقت چار بڑے خطرات کا سامنا ہے، گلیشیئرز کا پگھلنا، کوئلے کا استعمال،اسموگ،سیلاب اور خشک سالی۔ ہمیں ان مسائل پر فوری توجہ دینا ہوگی۔