• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند ہفتے قبل کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں ماحولیات کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ادارۂ ماحولیات کے زیراہتمام سہ روزہ کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا۔ اس کانفرنس کا ایک نکاتی ایجنڈا دنیا میں پلاسٹک کی مصنوعات میں اضافہ اور ہر روز ملین ٹن پلاسٹک کاکچرا سمندروں میں بہانے کے موضوع پر تھا۔ گلوبل وارمنگ، گلوبل کولنگ موسمی تغیرات اس کرئہ ارض اور قدرتی ماحول کے لئے بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں اس کے ساتھ ساتھ پلاسٹک اور اس سے تیار کردہ مصنوعات جیسے بوتلیں، پلیٹیں، چمچے، گلاس، کپ اور دیگر ان گنت اشیاء جو پلاسٹک سے بنائی جا رہی ہیں۔

کینیا ماحولیات میں سدھار کے حوالے سے پورے براعظم میں نمایاں کردارادا کر رہا ہے اس نے اس سہ روزہ کانفرنس کی میزبانی بھی قبول کی جس میں ایک سو بارہ ممالک کے صدور، وزراء اعظم و ماہرین، سائنس دانوں نے شرکت کی۔ کانفرنس کے شرکاء کو بتایا گیا کہ پلاسٹک کی عادی دنیا تین سو ملین ٹن سامان ہر سال تیارکررہی ہے۔ اس میں بمشکل صرف چارفیصد پلاسٹک کی اشیاء ، ری سائیکل ہوتی ہیں باقی تمام استعمال شدہ پلاسٹک کی اشیاء سمندر برد کر دی جاتی ہیں بتایا جاتا ہے کہ دو ملین پلاسٹک بیگ ایک منٹ میں استعمال ہوتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ آئندہ پچیس برسوں میں سمندروں میں پلاسٹک کاکچرا زیادہ اور مچھلیاں بہت کم رہ جائیں گی۔

ایک منٹ میں دنیا میں ایک ملین پلاسٹک کی بوتلیں خرید ی جاتی ہیں۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ دنیا کے دس بڑے دریا نوے فیصد سے زیادہ کوڑا ہرروز سمندروں میں ڈال رہے ہیں۔ اس سے بھی خطرناک بات یہ ہے کہ جو پلاسٹک برتن کھانے پینے میں استعمال ہوتے ہیں اس کے ذریعہ ہرروز ستر ہزار مائیکرو پلاسٹک کھا جاتا ہے۔ اس کے علاو ہ غذائی مصنوعی اجناس کا بھی استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔

نیروبی کانفرنس میں ماہرین نے اس پر بھی زور دیا کہ پلاسٹک کا کوڑا کرکٹ سمندرکو بھی شدید نقصان پہنچا رہا ہے۔ دنیا کے بیش تر ترقی یافتہ ممالک نے پلاسٹک کی مصنوعات پر پابندی عائد کردی ہے جو روزہ مرہ استعمال میں آتی تھیں۔ پلاسٹک انسانوں کی ضرورت بن کر ان کی زندگیوں میں بہت دور تک داخل ہو چکا ہے مگر اس کے مضر اثرات اور نقصانات سے ایک زمانہ اب بھی غافل ہے۔ آرام پسندی، سستی،کاہلی اور سنجیدہ غوروفکر سے آزاد معاشرے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ آلودگی کا زہر بتدریج پھیل رہا ہے۔ اس کے اثرات مختلف بیماریوں اوروبائی امراض میں ظاہر ہونے لگے ہیں۔

تلخ سچائی یہ ہے کہ دنیا ترقی کر رہی ہے ترقی کے چرچے ہیں مگراس کے ساتھ جس طرح بتدریج تنزلی مختلف خطرات سے بھی دوچار ہوتی جا رہی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جدید زندگی، آسائشات کی بھرمار، حرص اور طمع انسان کو سدھارنے کے بجائے بگاڑ کی طرف لے جا رہی ہے۔

برطانیہ کے معروف اخبار گارجین نے ایک سروے رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ 1958سے اب تک 8.3بلین ٹن پلاسٹک کاکچرا سمندروں میں بہایاگیا ہے جو آٹھ لاکھ ایفل ٹاورز کے وزن کے مساوی ہے۔ دنیا کو درپیش بہت بڑے مسائل اور خطرات میں پہلا دنیا کی آبادی میں بے ہنگم اضافہ، کرئہ ارض کے قدرتی ماحول میں بگاڑ آلودگی میں تیزی سے اضافہ موسمی تغیرات، وبائی امراض میں اضافہ، امریکہ چین کشیدگی، دہشت گردی، عدم تحمل مزاجی اور جوہری ہتھیاروں میں پھیلاؤ وغیرہ کے علاوہ طبقاتی کشمکش، معاشرتی ناہمواری، غربت پسماندگی اور نئی سردجنگ کاآغاز بھی انسانیت کی سلامتی کے لئے بڑے خطرات ہیں، بالخصوص ہمارے معاشرے دنیاکی جاری تیز رفتاری کا ساتھ دینے سے قاصر نظر آتے ہیں آج بھی تو ہم پرستی، غیر سائنسی فکر اور غوروفکر سے عاری نظرآتے ہیں۔ ماحولیات، موسمی تغیرات اور احتیاط پسندی کو ہم خاطر میں نہیں لاتے۔ ترتیب اور توازن کائنات کا پہلا اصول ہے۔ جدید خلائی تحقیق کے ہوشربا انکشافات سے انسان کی عقل حیران ہے اور ہم اپنی اپنی گلیوں میں کچرے کے ڈھیر ٹھکانے لگانے سے قاصر ہیں۔ ایک طرف انسانیت قدرتی ماحول سے پریشان اور حیران ہے اور ہم اپنے معاشروں کے ماحول سے پریشان و حیران ہیں۔

بتایاجاتا ہے کہ دنیا میں ماہرین کا ایک نمایاں گروہ وہ بھی ہے جو یکسر قدرتی ماحول میں بگاڑ اور موسمی تغیرات کو بڑھتی آلودگی کا سبب تسلیم نہیں کرتا۔ اس گروہ کاکہنا ہے کہ دنیا ہزاروں برسوں سے ایسے ہی قدرتی ماحول برداشت کرتی آئی ہے۔ طوفان بادوباراں، سیلاب، زلزلے، گرمی سردی کی شدت موسمی تبدیلیاں یہ سب ہوتا آیا ہے اور ہوتا رہے گا۔ واضح رہے کہ کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی کرتے تھے انہوں نے یہاں تک کہا تھا کہ کچھ سائنس دان اس حوالے سے دنیا کو بلیک میل کر رہے ہیں، بہرحال کسی کے خیالات پر پابندی نہیں لگا سکتے۔ 

بلاشبہ ماحولیات میں بگاڑ، موسمی تغیرات اورآلودگی میں اضافہ ایک حقیقت ہے۔ اس طرح کے سوچنے والوں کی وجہ سے سقراط کو زہر پینا پڑا تھا۔ فرانس کے صدرمائیکرون کو فرانسیسی خلاباز جوخلا میں چکر لگا رہا ہے اس نے صدر کو بتایا کہ تین برس قبل جس زمین کو میں نے خلا سے دیکھا تھا اب ادھڑ ادھڑی سی نظر آرہی ہے بیشتر خطوں میں سبزہ نہیں ہے۔ 

حقیقت یہ ہے کہ ساٹھ ستر سال سے بازی خلائی تحقیق کے سلسلے، مختلف ادوار میں خلانوردوں کا خلا میں جانا، چاند پر اترنا، خلا میں تصاویر بنانا اور دنیا سے اربوں میل دور کہکشاں کی خبرلانا۔ اس طویل عرصے سے حاصل ہونے والی اہم معلومات سے انسانی علم میں بے بہا اضافہ عمل میں آئے گا۔ انسان کی صدیوں پرانی خواہش تسخیر کائنات کے پورے ہونے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ نئی دیوہیکل دُور بین حبل ہردن نئے نئے انکشافات کرکے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال رہی ہے۔

اس تناظر میں پرکھا جائے تو انسان اب بھی نیم وحشی نظرآتا ہے۔ سیاسی معاشی سماجی اقدار پرپست زمین، خود غرض، ظالم، نظر آتا ہے اس کا ثبوت روزمرہ کی خبروں اور کہیں نہ کہیں جنگ و جدل فساد پروری سے دکھائی دیتا ہے۔ امریکہ، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ وغیرہ میں جہاں گھنے جنگلات واقع ہیں وہ ہماری زمین کے قدرتی ماحول کا اہم حصہ ہیں پھر بھی ہم جنگلات کی کٹائی سے باز نہیں آتے۔ آلودگی میں اضافہ کرنے سے باز نہیں رہتے۔ آلودگی کو کم سے کم سطح پر لانے کیلئے جو تجاویز اور طریقہ کار وضع کئے گئے ہیں ہم ان پر عمل کرنے پر قطعی مائل نہیں ہوتے۔ 

کارخانوں کا زہریلا مادہ سمندر برد کرنے گلاسگو کانفرنس کا ایجنڈا تھا کہ کس طرح درجہ حرارت کی سطح پر 1.5ڈگری کمی کی جائے۔ ماہرین ارضیات کا خیال ہے کہ اگر زمین کا درجہ حرارت دوڈگری بڑھ گیا تو یہ بڑھتا جائے گا اور 2023ء تک زمین بڑی بڑی قدرتی آفات کا نشانہ بن سکتی ہے اس لئے ابھی اس میں 1.5کمی لانے کے عمل پرسنجیدگی سے کام کیا جانا چاہئے۔ اس سال نیروبی کانفرنس میں ون پوائنٹ ایجنڈا، پلاسٹک کی اشیاء کی تیاری، بے مہار استعمال اور ملین ٹن کچرا روزانہ سمندر برد کرنے کے خوفناک اثرات سامنے آرہے ہیں اور آبی حیات کو شدید خطرات لاحق ہوتے جا رہے ہیں۔

ایک بین الاقوامی سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سمندری حیاتیات کی آدھی اقسام گزشتہ پچیس برسوں میں نایاب ہو چکی ہیں۔ یہ مچھلیاں اور دیگر جاندار سمندری کچرا پلاسٹک کھانے پر مجبور ہیں۔ اس وجہ سے ان کی نسلیں تیزی سے ختم ہو رہی ہیں۔ کراچی کے ساحل سمندر میں ساحل کے آس پاس ایک دور بین چھوٹی تونا فش بڑی مقدارمیں دستیاب تھی اب بتدریج اس کی تعداد میں کمی آرہی ہے تونا فش کی عالمی منڈی میں بہت زیادہ طلب ہے۔ یہ مچھلی گرم مرطوب خطوں میں پائی جاتی ہے۔

ماہرین نے کئی بار حکومتوں کو رپورٹس پیش کی ہیں کہ کراچی تا گوادر کی ساحلی پٹی پر تین چار میل کے ساحلی علاقے کو ترقی دے کر پکنک سپاٹ، ریزوٹ بنائیں تو سیاح آئیں گے جس سے ملک خاصا زرمبادلہ حاصل کرسکتا ہے مگر نامعلوم وجوہات کی بناء پر یہ تمام رپورٹس اور جائزے سرخ فیتے کی نذر ہوتے آئے ہیں۔ 

واضح رہے کہ بھارت نے نہ صرف اپنی قدیم عمارات، مندروں اورآثار قدیمہ کو سیاحوں کی تفریح کا مرکز بنایا بلکہ چنائے،کیرالہ، گوا، مساکاپٹنم، خلیج بنگال میں بیشتر سمندری سیاحتی مراکز تعمیر کئے ہیں جس سے بھارت کی مجموعی آمدنی میں تیسرا حصہ سیاحت کاہوتا ہے۔ ایشین بینک سمیت دیگر ماحولیاتی ادارے پاکستان میں سیاحت کو فروغ دینے کے لئے آسان شرائط پر قرضہ دینے کے لئے راضی ہیں۔ مزید یہ کہ سیاحت کی صنعت کو ترقی دی جائے تو ملک میں ہزاروں افراد کو روزگار مہیا ہوسکتا ہے۔

سعودی عرب نے بحیرہ احمر کے قریب ایک نیا شہر بسانے کا کام شروع کردیا ہے۔ یہ جدید سہولیات سے آراستہ سیاحتی مرکز ہوگا۔ دنیا میں نقل و حمل میں اضافہ اور گلوبل ولیج کے تصو رنے دنیا کے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور دنیا دیکھنے کے شعو ر میں بے حد اضافہ کیاہے۔ پاکستان کے پاس قدیم ورثہ بہت نمایاں ہے سات ہزار قبل کے تاریخی شہروں کے کھنڈرات ہیں بلوچستان، سندھ میں بیش تر قدیم دورکی نمایاں نشانیاں ہیں خوبصورت پرکشش ساحل سمندر ہے۔ ٹورازم کے لئے یہی اہم لوازمات ہوتے ہیں جوقدرت نے پہلے ہی ہماری جھولی میں ڈالے ہوئے ہیں۔

ماہرین اور سائنس دانوں نے برسوں کی تحقیق کے بعد یہ نکتہ پالیا ہے کہ زمین کے قدرتی ماحول میں جو بگاڑ پیدا ہوا ہے وہ بھی قدرتی ذرائع سے درست کیا جاسکتا ہے۔ ان ذرائع پر بیش تر ممالک نے کام شروع کردیا ہے مثلاً سولر انرجی، واٹر انرجی اور ائیرانرجی دھوپ پانی ہوا۔ مگر دوچار بڑے ممالک کے ملٹی نیشنل ادارے خاموشی سے خلاء میں زندگی تلاش کرنے کے ساتھ ایسا سیارہ بھی دریافت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو انسانی زندگی کی ضروریات پورا کر سکتا اور انہیں تحفظ فراہم کرسکتا ہو کہا جاتا ہے دو ایک سیارے دریافت ہوچکے ہیں مگر وہ ہزاروں نوری سال ہم سے دور ہیں دنیا کے معروف سائنس دان اور ماہر فلکیات کی آخری وصیت یہی ہے کہ انسان خلاء میں زندگی تلاش نہ کرے اور اگر وہ زمین چھوڑ کر کسی اور سیارے پرآباد ہوناچاہتا ہے تو یہ نہیں ہوسکتا۔ اگر وہ مل گئے تو انسان کو ختم کردیں گے اور ایسا سیارہ مل بھی گیا تو وہ اس سیارہ پر زندہ نہیں رہ سکتا کیونکہ انسان زمین پر پیدا ہوا ہے۔ اس کا جینا مرنا زمین کے ساتھ ہے۔ چار عناصر آگ، ہوا، پانی، مٹی ہیں جو ہمارے لئے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔

نیروبی کانفرنس کے شرکاء نے دیکھا کہ نیروبی کے قریب حسین جنگلوں میں واقع کلیمین جارو کے بلند پہاڑ پچاس ساٹھ برس قبل تک برف سے ڈھکے ہوئے تھے وہ صرف پتھریلے نظر آتے ہیں۔ قدرتی سفاری پارک ہیں جانوروں کی کمی ہوگئی ہے گرمی کی شدت کمزور چوپایوں کے لئے ناقابل برداشت ہوتی جارہی ہے یوں بھی براعظم افریقہ خط استوا یا ایکویٹر پر واقع ہے جہاں سب سے زیادہ گرمی پڑتی ہے۔ خطہ کے باشندوں سمیت حیوانات، چرند پرند کے لئے بھی شدید مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ کینیا ایک عرصے سے اقوام متحدہ کے ساتھ اشتراک کرکے رضا کارانہ طور پر قدرتی ماحول میں سدھار لانے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔

دنیا کے سائنس دانوں اور ماہرین بشریات بار بارخبردار کرتے رہے ہیں کہ دنیا کی آبادی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے یہ خود ایک بڑا خطرہ ہے مگرالٹے دماغ عناصر اور طالع آزما اس نظر یہ کے خلاف متروک دلائل دے کر عوام کو زمینی طور پر ورغلاتے ہیں۔ مغربی زبانوں میں ’’پاپولیشن ایکسپلوژن ‘‘ کے موضوع پر درجنوں کتابیں تحریر کی جا چکی ہیں اور فیچر فلمیں دستاویزی فلمیں بھی تیار ہو رہی ہیں۔ مگر ترقی پذیر ممالک بالخصوص جنوبی ایشیائی ممالک کے رہنماؤں اور قانون سازوں کے کان پر جوں نہیں رینگتی ہے اگر غیر جانبداری سے پاکستان کی آبادی میں اضافہ کی رفتار اور پیداوار ی شعبوں کی ترقی کا اوسط معلوم کرکے اس کا آبادی کی پیداوار سے موزانہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ہم بڑے خسارے میں ہیں۔ مگر جعلی اعدادوشمار دکھاکر لوگوں کو چپ کروادیا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ قدرتی ماحول میں معاشروں کا طرز حیات بھی شامل ہے۔ اگر معاشرے صحت مند قدرے خوشحال اور حفظان صحت کے اصولوں کے پابند ہیں چھوٹے چھوٹے خاندانوں میں بیٹھے ہوئے ہیں تو اس طرح کے معاشرے قدرتی ماحول کے معاون ہیں۔ اگر کنبہ بڑا، آبادی زیادہ تو صارفین بھی زیادہ اور کوڑا کرکٹ، گندگی بھی زیادہ، اس طرح مسائل کی ڈور بڑھتی چلی جاتی ہے۔

دنیا کا دوسرا بڑا مسئلہ جو پہلا بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے۔وہ قدرتی ماحول میں ابتری اور بگاڑ کا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں وارمنگ اور کولنگ دونوں خطرناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔ موسموں کے اتار چڑھاؤ میں جو زبردست بے ترتیبی سامنے آرہی ہے وہ پوری انسانیت اور اس کرئہ ارض کی سلامتی کے لئے خطر ہ ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے ماحولیات کے حوالے سے سینیٹر، سائنس دانوں اور ماہرین کی ایک بڑی ٹاسک فورس تشکیل دی ہے جو امریکہ کے بڑے سائنسی تحقیقی اداروں بشمول ناسا اپنی تحقیق کر رہی ہے۔ یہ ٹیم دنیا کے اہم علاقوں کا دورہ کررہی ہے۔ 

جائزہ لے رہی ہے رپورٹس تیار کر رہی ہے اس کے علاوہ شجرکاری پر تحقیق کرنے کیلئے مختلف علاقوں کے پرانے درختوں کے تنے کاٹ کر ایک لکڑی کا بڑا ٹکڑا نکال کراس پر تحقیق سے گزرے دور کے موسموں میں تبدیلیوں اور گزری قدرتی آفات کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔ دراصل کسی پرانے درخت کے تنے سے کاٹ کر جو ٹکڑا نکالا جاتا ہے اس پر اندر گول گول بہت دائرے بنے ہوتے ہیں ان دائروں پر تحقیق سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ اس علاقے میں موسمی تغیرات میں کیا کیا ہوا، بارشوں، سیلاب، زلزلوں، طوفانوں غرض موسم اور قدرتی آفات کا پورا ریکارڈ درخت کے تنے کے ٹکڑے پر نقش ہے۔ یہ جدید ٹیکنالوجی 1980ء کی دہائی میں پروان چڑھی ہے اور کچھ عرصہ قبل پاکستان میں بھی شجری مرقع کاری سے ماضی کے موسمی حالات کاجائزہ لیا جارہا ہے۔

اب زیادہ تحقیق سمندروں کی تہہ میں، سمندر میں موجود بڑے بڑے پہاڑوں، انواع اقسام کی سمندری حیاتیات پرہورہی ہے، تاہم اب انسان کے پاس سات آٹھ ہزار سال پرانی تاریخ دستیاب ہے۔ ابھی انسان کھود رہا ہے۔ خلا نوردی کررہا ہے اور ہر قدم پر نئی نئی دریافتیں اور ان گنت کہکشائیں سامنے آرہی ہے ایسے ہی زمین بہت ہی چھوٹی چیز ہے۔ 

شاید زرہ برابر، اس وسیع تر کائنات میں اس کرہ ارض کی جو بھی حیثیت ہو مگر یہی انسان اسکن ہے۔ اس کی حفاظت کرنا، اس کرہ ارض پر واقع قدرتی عناصر کی دیکھ بھال کرنا، آلودگی کو کم سے کم کرتے جانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اس کرئہ ارض پر رینگتی چھوٹی سی چیونٹی اور چھوٹا سارینگتا کیڑا بھی قدرتی ماحول کا حصہ ہے اور اپنا اپنا کردار نبھا رہے ہیں۔

واضح رہے کہ ساٹھ کی دہائی میں چین کی حکومت نے لاکھوں کی تعداد میں چڑیاں مروادی تھیں کہ یہ اناج کھا جاتی ہیں۔ دوسرے سال چینی فصلوں کو کیڑے چٹ کرگئے۔ تب انہیں معلوم ہوا کہ چڑیاں اناج کو محفوظ رکھتی تھیں اور کیڑے مکوڑے کھاتی تھیں جو فصلوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہ دنیا کے لئے ایک سبق بھی ہے۔چڑیاں اناج برائے نام کھاتی ہیں۔ دانہ چگتی ہیں مگران کی اصل غذا وہ کیڑے ہوتے ہیں جو فصلوں کے ساتھ پرورش پاتے ہیں۔

اس کرئہ ارض اور انسانیت کے سر پر ایک خوفناک ترین خطرہ ایٹمی ہتھیاروں اور ایٹمی جنگ کا منڈلاتا رہتا ہے۔ جیسے حالیہ روس یوکرین جنگ کے دوران روسی صدر پیوٹن نے یوکرین کے خلاف ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دی اور ساتھ اپنی ایٹمی فوج کے کمانڈرز کو ہائی الرٹ بھی کردیا۔ اگر فرض کریں کہ کوئی ایٹمی قوت اپنے حریف کے خلاف ایٹمی ہتھیار استعمال کرتا ہے یا غلطی سے بم چل جاتا ہے تب کیا ہوگا۔ 

دنیا کی بڑی آبادی یہ ضرور جانتی ہے کہ ایٹمی ہتھیار مہلک اور بہت نقصان دہ ہیں۔ مگر اکثریت اس کی تباہی اور بربادی کا درست اندازہ کرنے سے قاصر ہے۔ حیرت اس پر ہے کہ روس کے صدر ولادی میر پیوٹن ایک زیرک تجربہ کا اور حالات سے پوری طرح آگہی رکھنے والے رہنما نے یوکرین جیسے غریب ترقی پذیر ملک کو ایٹمی جنگ کی دھمکی دیدی۔ ایسے میں بعض جذباتی تجربہ کار صدر پیوٹن کے اس بیان یا ممکنہ اقدام کی تعریف میں آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں۔

کرئہ ارض کا قدرتی ماحول، دنیاکو درپیش مسائل، مہنگائی، بیروزگاری اور دیگر بڑے مسائل کا سب کو سامنا ہے ایسے میں دنیا جنگ و جدل کی قطعی متحمل نہیں ہو سکتی۔ حال ہی میں ایٹمی ہتھیاروں اور اس کے استعمال کرنے کی مجاز شخصیات کے حوالے سے ایک رپورٹ سامنے آئی ہے۔ جس کے مطابق صدر امریکہ ہمہ وقت اپنے ساتھ ایک خاصی بریف کیس رکھتے ہیں۔ جس میں ایٹھی ہتھیار چلانے کی اجازت دینے والی ڈیوائس موجود ہے۔ صرف صدر ہی اس بریف کیس کوکھول کر بٹن دبا کر ایٹمی حملے کی اجازت دے سکتا ہے اور اس خوفناک کام پر مامور عملہ پلک جھپکتے ایٹمی میزائل یا بم ٹارگٹ پرداغ دے گا۔ 

ایسا ہی نظام اور بریف کیس روس کے صدر کے پاس اور برطانیہ کے وزیراعظم کے پاس موجود ہے۔ برطانوی وزیراعظم عہدہ سنبھالتے ہی ایک خفیہ پیغام متعلقہ اسکوائر کے پاس محفوظ کردیتا ہے۔ وقت آنے پر وہ اس کو کھول سکتے اور اس میں درج ہدایت پر عمل کرسکتے ہیں۔ تاحال ایسا موقعہ نہیں دیا۔ چین کے صدر کے پاس بھی ایسا ہی بریف کیس ہے جس میں ڈیوائس یہ بتلاتی ہے کہ چین پر ایٹمی حملہ ہونے والا ہے ایسے میں فوری طور پر صدر اس پر غور کرتا ہے۔ اس مقصد کیلئے چین نے زمین دوز محفوظ پناہ گاہیں بنائی ہیں ایک توقف کے بعد چینی صدر جوابی حملے کا حکم دیتا ہے اسی حوالے سے کہہ سکتے ہیں کہ ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کے معاملے میں چین کا رویہ محتاط ہے اورایک حد تک ذمہ دارانہ ہے۔

حالیہ روس یوکرین جنگ کے تیسرے دن یورپی ماحولیاتی ادارے کے سربراہ کارل برچ یوکرین پہنچے ایک ہفتہ قیام کے بعد انہوں نے آئی سی سی یعنی انٹرنیشنل کریملن کورٹ اور عالمی ادارہ ماحولیات کو رپورٹس ارسال کی ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ دوطرفہ جنگ کی صورت میں یوکرین کے خطہ میں آسمان پر کثیف دھوئیں کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ ٹوٹی پھوٹی عمارتوں کا ملبہ ہر طرف بکھرا پڑاہے۔ 

پانی اور گیس کی پائپ لائنز پھٹ چکی ہیں پینے کا پانی، خوراک اور ایندھن نایاب ہیں۔ بچوں میں گلے اور سینے میں درد کی بیماریاں پھیل رہی ہیں عوام تمام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ قدرتی ماحول بری طرح متاثر ہورہا ہے ۔ یوکرین پر مہیب اثرات مرتب ہورہے ہیں اس پرایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا بھی دھمکی ہے عالمی ادارہ ماحولیات یوکرین کا جائزہ لے رہا ہے انٹرنیشنل کریملن کورٹ رپورٹ پر چھان بین کررہی ہے۔

واضخ رہے کہ آئی سی سی کو ٹھوس شواہد پیش کئے جائیں تو وہ وار کریملینز کے خلاف کارروائی کرنے کی مجاز ہے۔ گزشتہ عرصہ سوڈان میں جاری قبائلی و علاقائی جنگ کے دوران سوڈان کے مطلق العنان رہنما عمر البشر کو مخالف دھڑے کے علاقوں میں واقع کنوئیں میں زہر ڈلوادیا تھا۔ جس پرا ٓئی سی سی نے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے تھے۔ اب آئی سی سی یوکرین کا جائزہ لے رہی ہے۔ مگر یوکرین کا قدرتی ماحول بری طرح ابتر ہو چکا ہے میلوں دور تک پھیلے کھیت کھلیان جل چکے زمین سیاہ اور بارود سے اٹی ہوئی ہے۔

عوام گھریلو، برتنوں میں زمین پر بکھری برف جمع کرکے اس سے پینے کا پانی استعمال کررہے ہیں ماہرین کہتے ہیں یہ برف بھی مضر صحت ہے۔ مگر یہ جنگ طول پکڑ گئی تو اس کے خطرناک اثرات دور دور تک پھیل سکتے ہیں کرئہ ارض کا قدرتی ماحول پہلے ہی سے شدید متاثر ہو چکا ہے اس پر اس طرح کی جنگ وجدل مزید خطرناک ہے۔ پوری دنیا کے رہنمائوں اور عوام کو ہردو جانب سے جنگ بند کرنے کی اپیلیں کرنے کے ساتھ ساتھ جنگ بند کرانے کی بھی کوشش کرنا چاہئے تاکہ اس طرح کی صورتحال میں کرئہ ارض کا قدرتی ماحول اور انسانیت مزید خطرات اور مہیب اثرات سے محفوظ رہ سکتے۔